Posts

Showing posts from January, 2019

جنت کی تلاش از رحیم گل(پڑھنے کے لائق ناول، سفر نامہ۔۔۔ وسیم بن اشرف

Image
رحیم گل مرحوم صاحب ایک معروف ادیب، اور ناقد تھے، ان کے تمام ناول اور افسانے مجھے بیحد پسند ہیں ،میں انہیں 1991 میں پڑھا ۔ آپ فلموں کی ہدایت کاری بھی کرتے رہے تھے۔ جنت کی تلاش آپ کے قلم سے نکلا ہوا آخری ناول ہے جس نے اپنے زمانے میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ آج بھی ناول کی ہیروئن اپنے منفرد رویے کی بنا پہ کئی دلوں کی دھڑکن ہے۔جنت کی تلاش، امتل کی کہانی ہے۔ امتل جسے مصنف نے ایک بےچین روح قرار دیا ہے۔ وہ ایک مضطرب لڑکی ہے جو ہر وقت سوالوں میں گھری رہتی ہے۔ ہر بات کی گہرائی میں جانا اور پھر وہاں سے ایک ایسا سوال نکال لینا جو سامنے والے کو لاجواب کر دے، امتل کے کردار کی بنیادی خوبی تھی۔ ناول کا دیباچہ احمد ندیم قاسمی صاحب نے لکھا ہے جو کسی بھی قسم کے تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ نے اس ناول کو اپنے موضوع اور برتاؤ کی بنا پہ ایک منفرد ناول قرار دیا ہے۔ یہ بات کسی حد تک سچ بھی ہے۔ امتل کے کردار کی انفرادیت دراصل ناول کی انفرادیت ہے۔ مصنف نے اپنی زندگی کا نچوڑ اس کردار کی شکل میں پیش کیا ہے جو بیک وقت باریک بین بھی ہے اور ہر بات کی گہرائی میں اترنا بھی جانتا ہے۔ امتل اپنے دور کی ایک جینئس لڑک...

24 کلر صفحات روزنامہ جہان پاکستان کے ساتھ ہفتہ کو مفت حاصل کریں

Image

گلزار۔۔معلومات شخصیت۔۔۔۔۔وسیم بن اشرف

Image
گلزار ایک نامور شاعر اور ہدایت کار ہیں۔ وہ پاکستان کے شہر جہلم کے قریب دینہ میں 1936ء میں پیدا ہوئے۔ اصلی نام سمپیورن سنگھ ہے۔ تقسیم برصغیر کے وقت وہ بھارت چلے گئے۔ ابتدائی زندگی میں موٹر مکینک تھے۔ شاعری اور فلمی دنیا کی طرف رحجان انھیں فلمی صنعت کی طرف لے گیا۔ گلزار نے فلمی اداکارہ راکھی سے شادی کی۔بطور ہدایت کار:گلزار نے بطور ہدایتکار اجازت، انگور، دل سے، معصوم آندھی، پریچے، موسم اور ماچس جیسی فلمیں بنائیں۔ ان کا ٹیلی ڈراما مرزا غالب ایک کلاسیک کی حیثت رکھتا ہے۔بطور شاعر :گلزار نے بطور شاعر بے شمار فلموں میں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی فلمی شاعری میں بھی ایک اچھوتا پن پایا جاتا ہے۔ ان کے انوکھے اور نادر تشہبات کا استعمال ان کے گیتوں میں نئے رنگ بھر دیتا ہے۔ ان کے گیت نہ صرف ماضی میں پسند کیے جاتے رہے ہیں بلکہ آج کے دور میں بھی ان کے گانوں کو نوجوان شوق سے سنتے ہیں۔ سنیمابین چار سال قبل ریلیز ہوئی مشہور فلم بنٹی اور ببلی کے سپرہٹ گانے ’کجرا رے’ کو نہیں بھولے یا پھر فلم اوم کارا کا انتہائی مقبول گانا ’بیڑی جلائی لے‘ یا پھر حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم کمینے کا ہٹ نغمہ ’رات کے بارہ بجے’...

وسیم بن اشرف

Image

اداکارہ سنی لیونی نے اپنی زندگی پر شارٹ سٹوریز لکھ ڈالی

Image
  ممبئی  : وسیم بن اشرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بالی ووڈ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی اداکارہ سنی لیونی نے اپنی زندگی پر شارٹ سٹوریز لکھی ہیں۔ اداکارہ نے حال ہی میں میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے کل 12 کہانیاں تحریر کی ہیں جن میں سے سات کہانیاں 49.50 روپے کی ابتدائی قیمت پر ریلیز کی جائیں گی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ قیمت رواں ماہ کے اختتام تک رہے گی تاہم بعد ازاں اسے ڈبل کر دیا جائے گا۔ انھیں امید ہے کہ ان کے پرستار ان کی کہانیوں کو پسند کریں گے۔واضح رہے کہ اداکارہ 2012ء میں بالی ووڈ انڈسٹری سے منسلک ہوئیں تاہم اب ان کی مقبولیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

اندر کی آگ .. مائکرو فکشن

Image
/ ادب نامہ / اندر کی آگ .. مائکرو فکشن اندر کی آگ .. مائکرو فکشن   فرحین جمال    9 نومبر 2016ء    یہ تحریر  488   مرتبہ دیکھی گئی۔                 وہ داڑھی والا شخص جو ہفتے کو بیچ بازار میں خود بخود بھڑکنے والی آگ میں جل کر سوختہ جاں ہوا، ایک ناکام خود کش بمبار سمجھا جا رہا تھا لیکن ہر قسم کا شک و شبہ اس وقت زائل ہو گیا جب تحقیق کے دوران کسی قسم کے دھماکا خیزمواد کا کوئی نام و نشان ا س کے آس پاس کہیں نہیں ملا۔ اس واقعہ سے دو دن پہلے اس نے عجائب گھرکا ٹکٹ خریدا تھا اور وہ عرب بھی نہیں تھا۔ جس راہ گیر نے اس کو بھڑکتی آگ میں جلتے دیکھا، اس کا کہنا تھا کہ آگ کا رنگ “آسمانی نیلا” تھا۔ وہ اچانک ہی اس کے پیٹ اور کمر سے خود بخود پھوٹ پڑی تھی اور آناً فاناً ہی اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ وہ کسی کو اپنی مدد کے لئے پکار بھی نہیں سکا۔ (مائیکرو فکشن نثر نگاری یا شاعری کی ایک معروف قسم “فلیش فکشن” کا حصہ ہے۔ فلیش فکشن میں مختصر نویسی کو اظہار کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور...
Image
کانٹوں بھری باڑ کی چبھن کو دل میں لئے عبدل نے تاسف سے سوچا “کیا اسی دن کے لئے اس کے بزرگ اپنی بسی بسائی دنیا چھوڑ کر اس انجان بستی میں چلے آئے تھے،یہاں کے اجاڑ جنگلوں کو اپنے خون پسینے کی محنت سے سینچا ،……آج جب ریتیلی مٹی سونا اگلنے لگی تو ………..ہم گرمٹیہ کی اولاد کہلائے …. کندھے پر چھوٹا سا کپڑوں کا تھیلا اور پوٹلی میں دو تین دن کا کھانا لئے وہ اس خار دار تار کی باڑھ کے سامنے کھڑا تھا، جسے پار کرنے کے بعد اس زمین کے لئے اجنبی قرار دیا جانے والا تھا- وہ تو اسی بستی میں پیدا ہوا- اسی مٹی سے بنا تھا پھر کیوں وہ کھیت اس کے نہیں، بلکہ ان کے تھے جنہوں نے کوئی محنت نہ کی – مگر یہاں کے مقامی ہونے کی وجہ سے انہیں قانون اور معاشرے کی ہر حمایت حاصل تھی- اس کے باپ دادا جنہوں نے اس دیس سے محبت کی حالانکہ وہ تو یہاں آنا بھی نہیں چاہتے تھے- مگر ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا- اس کی دادی زرینہ بتاتی تھی، جب وہ سات سال کی تھی- ٹاٹ کے پردے کے پیچھے سے گلی میں تماشا کرنے والوں کو دیکھتی تھی- ان میں سے ایک جو بڑا چالاک دکھائی دیتا تھا، پیار سے اپنے پاس بلا کر بولا “چلو ایک بڑی کشتی میں اس سے بھی اچھا تما...