’’جیون دان‘‘ (انگلش سے ترجمہ)تحریر:۔ وسیم بن اشرف
ستمبر کی سہانی شام تھی، آسمان پر بادلوں کے اِکا دُکا تیرتے ٹکڑوں کا نظارہ بہت دلکش تھا، سمندر کی لہریں ہوا کے خوشگوار جھونکوں کے ساتھ محو رقص تھیں۔ شاندار بحری جہاز پرل دھیرے دھیرے سمندر کا سینہ چیرتا اپنی منزل کی جانب گامزن تھا۔ مسافروں میں سے کچھ اپنے کیبنوں میں آرام کر رہے تھے، کچھ ڈائننگ ہال میں پیٹ پوجا میں مصروف تھے۔ بہت سے ڈیک پر سمندر کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے، ڈیک پر ہی دو نوجوان ریلنگ کا سہارا لئے لہروں کا رقص دیکھ رہے تھے، ایک نوجوان جس کے بال سنہری اور آنکھیں گہرے نیلے رنگ کی تھیں اپنے ساتھی سے مخاطب ہوا: ’’جانتے ہو علی یہ لہریں کہاں جا رہی ہیں؟‘‘ علی نے دوست کے سرخی مائل حسین و جمیل چہرے پر نظر ڈالی اور جواب دیا۔ ’’انگلینڈ… کیونکہ یہ ہمارے جہاز کے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں‘‘ ’’کیا یہ لہریں اس بات سے واقف ہیں کہ ان کی منزل کہاں ہے؟‘‘ نوجوان نے پھر سوال کیا۔ ’’شاید نہیں… لیکن راجر تم ایسے سوال کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ علی بولا۔ راجر نے گہرا سانس لیا پھر بولا ’’انسان کی زندگی بھی ان لہروں کی طرح غیر یقینی ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس کی منزل کہاں ہے، لیکن پھر ب...