Posts

Showing posts from January, 2018

’’جیون دان‘‘ (انگلش سے ترجمہ)تحریر:۔ وسیم بن اشرف

Image
ستمبر کی سہانی شام تھی، آسمان پر بادلوں کے اِکا دُکا تیرتے ٹکڑوں کا نظارہ بہت دلکش تھا، سمندر کی لہریں ہوا کے خوشگوار جھونکوں کے ساتھ محو رقص تھیں۔ شاندار بحری جہاز پرل دھیرے دھیرے سمندر کا سینہ چیرتا اپنی منزل کی جانب گامزن تھا۔ مسافروں میں سے کچھ اپنے کیبنوں میں آرام کر رہے تھے، کچھ ڈائننگ ہال میں پیٹ پوجا میں مصروف تھے۔ بہت سے ڈیک پر سمندر کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے، ڈیک پر ہی دو نوجوان ریلنگ کا سہارا لئے لہروں کا رقص دیکھ رہے تھے، ایک نوجوان جس کے بال سنہری اور آنکھیں گہرے نیلے رنگ کی تھیں اپنے ساتھی سے مخاطب ہوا: ’’جانتے ہو علی یہ لہریں کہاں جا رہی ہیں؟‘‘ علی نے دوست کے سرخی مائل حسین و جمیل چہرے پر نظر ڈالی اور جواب دیا۔ ’’انگلینڈ… کیونکہ یہ ہمارے جہاز کے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں‘‘ ’’کیا یہ لہریں اس بات سے واقف ہیں کہ ان کی منزل کہاں ہے؟‘‘ نوجوان نے پھر سوال کیا۔ ’’شاید نہیں… لیکن راجر تم ایسے سوال کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ علی بولا۔ راجر نے گہرا سانس لیا پھر بولا ’’انسان کی زندگی بھی ان لہروں کی طرح غیر یقینی ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس کی منزل کہاں ہے، لیکن پھر ب...
Image
waseem bin ashraf January 30, 2018 ’’جیون دان‘‘ (انگلش سے ترجمہ) تحریر:۔ وسیم بن اشرف، ڈپٹی نیوز ایڈیٹر۔ دنیا میڈیا گروپ۔ ملتان     برائے رابطہ:   0322-2314444 - 0345-6520000 0345-3333380 - 0321-1112555 ستمبر کی سہانی شام تھی، آسمان پر بادلوں کے اِکا دُکا تیرتے ٹکڑوں کا نظارہ بہت دلکش تھا، سمندر کی لہریں ہوا کے خوشگوار جھونکوں کے ساتھ محو رقص تھیں۔ شاندار بحری جہاز پرل دھیرے دھیرے سمندر کا سینہ چیرتا اپنی منزل کی جانب گامزن تھا۔ مسافروں میں سے کچھ اپنے کیبنوں میں آرام کر رہے تھے، کچھ ڈائننگ ہال میں پیٹ پوجا میں مصروف تھے۔ بہت سے ڈیک پر سمندر کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے، ڈیک پر ہی دو نوجوان ریلنگ کا سہارا لئے لہروں کا رقص دیکھ رہے تھے، ایک نوجوان جس کے بال سنہری اور آنکھیں گہرے نیلے رنگ کی تھیں اپنے ساتھی سے مخاطب ہوا: ’’جانتے ہو علی یہ لہریں کہاں جا رہی ہیں؟‘‘ علی نے دوست کے سرخی مائل حسین و جمیل چہرے پر نظر ڈالی اور جواب دیا۔ ’’انگلینڈ… کیونکہ یہ ہمارے جہاز کے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں‘‘ ’’کیا...

اردو محاورے۔۔۔۔۔۔ وسیم بن اشرف

Image
ردیف "ا" اُبلا سُبلا، اُبالا سُبالا اگر ہم اس محاورہ کی لفظی ترکیب پر غور کریں تو اس سے ایک بات پہلی نظر میں سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ہمارے ہاں الفاظ کے ساتھ ایسے الفاظ بھی لائے جاتے ہیں جن کا اپنا اس خاص اس موقع پر کوئی خاص مفہوم نہیں ہوتا لیکن صوتی اعتبار سے وہ اس لفظی ترکیب کا ایک ضروری جُز ہوتے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں اور بھی بہت سی مل سکتی ہیں، جیسے"الاَبُلَّا"، "اٹکل پچو"، "اَبے تبے"، "ٹال مٹول"، "کانچ کچُور"وغیرہ۔ "اُبلا سُبلا" ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کسی عورت کو اچھا سالن بنانا نہیں آتا۔ ہمارے ہاں کھانا بنانے کا آرٹ گھی، تیل، بگھار، گرم مصالحہ، گوشت وغیرہ ڈال کر اس کو خوش ذائقہ اور لذیذ بنایا جاتا ہے۔ سالن میں جتنی ورائٹی ) variety (ہو سکتی ہے، اُن سب میں ان کو دخل ہے کہ وہ بھُنے چُنے ہوں، شوربہ، مصالحہ، اس میں ڈالی ہوئی دوسری اشیاء اگر خاص تناسب کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر وہ سالن دوسروں کے لیے"اُبلا سُبلا" ہے، یعنی بے ذائقہ ہے اور اسی لیے بے نمک سالن کا محاورہ بھی آیا ہے، یعنی بے ذائقہ چیز۔ ...