Skip to main content
’’جیون دان‘‘
(انگلش سے ترجمہ)
تحریر:۔ وسیم بن اشرف، ڈپٹی نیوز ایڈیٹر۔ دنیا میڈیا گروپ۔ ملتان
    برائے رابطہ:   0322-2314444 - 0345-6520000
0345-3333380 - 0321-1112555

ستمبر کی سہانی شام تھی، آسمان پر بادلوں کے اِکا دُکا تیرتے ٹکڑوں کا نظارہ بہت دلکش تھا، سمندر کی لہریں ہوا کے خوشگوار جھونکوں کے ساتھ محو رقص تھیں۔ شاندار بحری جہاز پرل دھیرے دھیرے سمندر کا سینہ چیرتا اپنی منزل کی جانب گامزن تھا۔ مسافروں میں سے کچھ اپنے کیبنوں میں آرام کر رہے تھے، کچھ ڈائننگ ہال میں پیٹ پوجا میں مصروف تھے۔ بہت سے ڈیک پر سمندر کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے، ڈیک پر ہی دو نوجوان ریلنگ کا سہارا لئے لہروں کا رقص دیکھ رہے تھے، ایک نوجوان جس کے بال سنہری اور آنکھیں گہرے نیلے رنگ کی تھیں اپنے ساتھی سے مخاطب ہوا:
’’جانتے ہو علی یہ لہریں کہاں جا رہی ہیں؟‘‘
علی نے دوست کے سرخی مائل حسین و جمیل چہرے پر نظر ڈالی اور جواب دیا۔
’’انگلینڈ… کیونکہ یہ ہمارے جہاز کے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں‘‘
’’کیا یہ لہریں اس بات سے واقف ہیں کہ ان کی منزل کہاں ہے؟‘‘ نوجوان نے پھر سوال کیا۔
’’شاید نہیں… لیکن راجر تم ایسے سوال کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ علی بولا۔ راجر نے گہرا سانس لیا پھر بولا ’’انسان کی زندگی بھی ان لہروں کی طرح غیر یقینی ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس کی منزل کہاں ہے، لیکن پھر بھی سب چل رہے ہیں،جیسے چلتے رہنا ہی ان کی زندگی کا واحد مقصدہے۔
علی نے پہلو بدلتے ہوئے کہا ’’یہ شاعروں کے سوچنے کی باتیں ہیں، ہم سپاہی ہیں، ہمارے سوچنے کا انداز دوسرا ہونا چاہیے‘‘
راجر نے فوری جواب دیا ’’تم غلط کہتے ہو علی، سپاہی ہونے سے انسان کے جذبات بدل نہیں جاتے، مثال کے طور پر سوئی چبھونے سے سپاہی کو بھی اتنا ہی درد ہو گا جتنا کہ کسی شاعر کو ہو گا۔
علی خلاء میں گھورتے گھورتے کہنے لگا ’’میں تو اتنا جانتا ہوں کہ شاعر ایک خیالی دنیا کا باشندہ ہوتا ہے لیکن زندگی کے بارے ایک سپاہی کا نظریہ زندگی دوسرا ہی ہوتا ہے، اس کے دل میں زندگی لینے اور زندگی دینے کا عزم ہوتا ہے، وہ دشمن کو انجام تک پہنچا کر دوست کی بقاء کا ذریعہ بنتا ہے، اس کے دل میں دوسروں کیلئے قربانی دینے کے جذبات ہوتے ہیں‘‘۔
’’ٹھیک ہے‘‘ راجر نے مسکراتے ہوئے کہا ’’لیکن ایسے کتنے سپاہی ہیں جن کے دل میں دوسروں کے لئے قربانی دینے کے جذبات اتنے مستحکم ہو چکے ہیں کہ وہ صرف اپنے ضمیر کی آواز پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں، میں خارجی حالات کی بات نہیں کررہا  ہوں جن سے مجبور ہو کر کبھی انسان کو اپنے جذبات کے خلاف بھی کوئی کام کرنا پڑتا ہے۔ میں تو صرف ایسے لوگوں کی تعداد پوچھ رہا ہوں جو اپنی خوشی سے دوسروں کا جیون جوت جگانے کے لئے اپنا جیون دیپ خود ہی بجھا دیتے ہیں‘‘۔
علی نے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا ’’گنتی تو میں بھی نہیں کر سکتا، لیکن اتنا سمجھتا ہوں کہ صرف ایسے ہی لوگ حقیقت میں انسان کہلانے کے مستحق ہیں اگر دنیا میں کوئی بھی ایسا انسان ہے تو اس کی عظمت کے آگے میں اپنا سر تسلیم خم کرتا ہوں‘‘۔
اسی وقت ماحول میں کھنکتا ہوا قہقہہ گونج اٹھا، دونوں نے پلٹ کر دیکھا تو مسز فروم اپنے شوہر کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلی آ رہی تھیں۔ قریب آ کر میاں بیوی نے راجر اور علی سے موسم کے بارے میں گفتگو شروع کر دی۔ کچھ ہی دیر بعد مسٹر فروم بولے
’’اچھا دوستو! پھر ملیں گے، اس وقت ہم ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں‘‘
علی نے پوچھا ’’خیریت تو ہے آپ ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں‘‘
مسز فروم زور سے ہنس پڑیں، پھر بولیں ’’بدقسمتی سے مجھے دو تین چھینکیں کیا آ گئیں کہ انہیں وہم ہو گیا کہ میری طبیعت ناساز ہے، اب زبردستی ڈاکٹر کے پاس لے جا رہے ہیں‘‘
راجر ہنس پڑا، کہنے لگا ’’آپ تو بڑی خوش نصیب ہیں کہ اتنی محبت کرنے والا شوہر ملا آپ کو، مجھے تو رشک آتا ہے آپ کی زندگی پر‘‘
مسزفروم کے لبوں پر تبسم تھا، کہنے لگیں ’’ضرورت سے زیادہ محبت بھی کبھی مصیبت بن جاتی ہے‘‘
مسٹر فروم نے اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا ’’اب چلو گی بھی یا یونہی باتیں بناتی رہو گی‘‘
پھر ملنے کا وعدہ کر کے دونوں رخصت ہو گئے، علی آسمان پر تیرتے بادلوں کے رنگین ٹکڑے دیکھنے لگا، شام کے ڈوبتے سورج نے فضاء کو چمکدار اور دلکش رنگوں سے سجا رکھا تھا۔ علی کی نظریں آسمان سے پھسلتی ہوئی پانی کے چمکیلے تخت پر دور تک پھیلتی چلی گئیں۔ خودکلامی کے انداز میں بولا ’’دو دن اور دو راتیں، پورے اڑتالیس گھنٹے ابھی پانی میں سفر کرنا ہے‘‘۔
علی نے پوچھا ’’راجر تم سیدھے وینٹ ورتھ جاؤ گے،روتھ کے پاس؟‘‘
’’اس بھری پری دنیا میں میرا صرف ایک ہی ٹھکانہ ہے‘‘ راجر نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ علی نے پھر سوال کیا ’’تمہیں پورا یقین ہے کہ روتھ تم سے اتنی ہی محبت کرتی ہے جتنی کہ تم اس سے کرتے ہو؟‘‘
راجر پراعتماد لہجے میں بولا ’’وہ مجھ سے کہیں زیادہ پیار کرتی ہے، اس کی محبت میں بناوٹ نہیں ہے، تصنع سے پاک ہے جب میں انگلینڈ سے رخصت ہو رہا تھا تو میں نے اس کو شادی کی پیشکش کی تھی، پتہ ہے اس کا جواب کیا تھا، اس نے کہا تھا ’’راجر شادی دلوں کی ہوتی ہے جسم کی نہیں، یہ تو دو روحوں کے ملاپ کا نام ہے، ہماری شادی ہو چکی ہے، اس وقت تمہیں تمہارا فرض پکار رہا ہے، میں تمہارے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتی‘‘
علی دوراس لکیر کو دیکھنے لگا جو آسمان اور سمندر کے ملنے سے بن گئی تھی، سورج کی کرنیں طویل مسافت کے بعد مٹیالے پانی کو چھونے آئی تھیں، ماحول کچھ اور نکھر گیا تھا۔
راجر نے یوں کھوئے ہوئے دیکھا تو پوچھا ’’علی تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے؟‘‘ علی نے راجر کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے جواب دیا ’’دوست مجھے محبت کرنے کے لئے کبھی فرصت ہی نہیں ملی۔ بچپن میں ہی میرے باپ کی بینائی ختم ہو گئی، جس عمر میں بچے پریوں کی کہانیوں سے دل بہلاتے ہیں، اس عمر میں مجھے پیٹ کا جہنم سرد کرنے کی فکر لگ گئی تھی، تب سے اب تک میری زندگی مشین کے پہیے کی طرح گھوم رہی ہے‘‘۔
راجر کا دل بھر آیا، وہ بولا ’’سنو علی! جنگ ختم ہو چکی ہے، طویل عرصہ بعد زندگی میں سکون اور فرصت کے لمحات میسر آئے ہیں، تم کچھ دن میرے ساتھ وینٹ ورتھ چلو، تھوڑا گھوم پھر کر اپنے گھر چلے جانا‘‘
علی نے راجر کا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگا ’’تمہارے اس خلوص کا شکریہ، لیکن میں سیدھا گھر جاؤں گا، میرے بوڑھے ماں باپ میری راہ تک رہے ہوں گے، میں ان کی زندگی کا واحد سہارا ہوں‘‘
اسی اثناء میں جہاز تھوڑا سا ڈگمگایا، دونوں بمشکل سنبھلے، جہاز کے انجن والی جانب سے شور سا سنائی دیا، ابھی وہ اس شور کی وجہ بھی نہ جاننے پائے تھے کہ خطرے کا الارم چیخ اٹھا، ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی، ہل چل مچل گئی، مسافروں کے چہروں کا رنگ اُڑ گیا۔ ہر کوئی پریشانی کے عالم میں تھا، اسی دوران لاؤڈسپیکر پر کپتان نے اعلان کیا کہ مشرق کی جانب سے خوفناک طوفان آ رہا ہے، جہاز خطرے میں ہے، مسافروں کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو، اوپر آسمان نیچے گہرا سمندر، ابھی مسافر سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ طوفان سر پر آ پہنچا، چھوٹی چھوٹی لہریں پانی کی اونچی دیواروں میں تبدیل ہو کر جہاز سے ٹکرانے لگیں، اچھا خاصا بڑا جہاز کاغذ کی ناؤ کی طرح ڈگمگانے لگا۔ چاروں طرف سے جہاز میں پانی بھرنے لگا۔ عملے کی بھرپور کوششوں کے باوجود صورتحال قابو سے باہر ہو رہی تھی۔ مسافر اس قدرتی افتاد سے گھبرا کر اوپر والی منزل کی جانب بھاگنے لگے، سبھی کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے، اسی بھگدڑ میں نہ جانے کتنی عورتیں اور بچے سیڑھی سے پھسل کر کبھی نہ اٹھنے کیلئے نیچے جا گرے، لوگ انہیں کچلتے اوپر کی طرف بڑھ رہے تھے، جہاز میں قیامت صغریٰ بپا تھی۔ جہاز کے ذمہ دار افسروں نے جان بچانے والی چھوٹی کشتیاں پانی میں اتارنا شروع کر دیں، پہلی کشتی میں ہی اتنے مسافر بھر گئے کہ وہ بوجھ برداشت نہ کر سکی، مسافروں کی ہڑبونگ نے معاملہ اور بھی خراب کر دیا، پہلی کشتی نے چند چکر کاٹے اور متعدد مسافروں سمیت غرق آب ہو گئی، جہاز میں کشتیاں کم اور مسافر زیادہ تھے، پہلی کشتی کا بھیانک انجام دیکھ کر جہاز کے افسروں نے فیصلہ کیا کہ جتنے مسافر بچ سکتے ہیں ان کو بچا لیا جائے جو رہ گئے وہ اﷲ کے سپرد۔
جہاز کٹی پتنگ کی طرح پانی میں چکرا رہا تھا، پانی بہت تیزی سے بھر رہا تھا، نکاسی آب کے راستے کھولنا صورتحال کو اور بھی خراب کرنے کے مترادف تھا، مسافروں کو سامنے موت نظر آ رہی تھی، دل بری طرح دھڑک رہے تھے، ہر کسی کو شدت سے اپنی باری کا انتظار تھا، انتظامیہ نے فوری فیصلہ کیا کہ قرعہ اندازی کی جائے گی، جن جن کا نام نکلے گا وہ خوش نصیب کشتیوں میں اتارے جائیں گے، چنانچہ کشتیوں میں صرف انہی افراد کو اتارا جا رہا تھا جن کا نام قرعہ اندازی میں نکل رہا تھا، نام نکلنے کا مطلب زندگی اور نہ نکلنے کا مطلب خوفناک اور بے بسی کی موت، اسی دوران مسٹر فروم کا نام پکارا گیا۔ وہ زندگی کے سفر پر روانہ ہو رہے تھے لیکن بدقسمتی سے مسز فروم کا نام نہیں نکلا تھا۔ فروم نے بیوی کا ہاتھ چھوڑ دیا اور کشتی میں اتر گئے۔ مسز فروم شوہر کی سنگ دلی پر رو پڑیں، کہنے لگی ’’ڈارلنگ تم تو مجھے جان سے بھی زیادہ پیار کرتے تھے اب موت کے حوالے کر کے جا رہے ہو، فروم نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کشتی میں اترنے کی کی۔ اس نے صرف ایک بار اپنی بیوی کی طرف مُڑ کر دیکھا تھا وہ یقینا یہی سوچ رہا تھا کہ بیوی تو اور بھی مل سکتی ہے لیکن زندگی دوبارہ نہیں ملے گی۔
علی اور راجر نے گہری نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ان کی قسمت کا فیصلہ بھی ہونے والا تھا کہ اچانک راجر آگے بڑھا اور نائب کپتان سے مخاطب ہوا، ایکسکیوزمی!
’’جی فرمائیں‘‘ کپتان نے جواب دیا۔
’’میں اور علی دیرینہ دوست ہیں، ہم اپنی زندگی اور موت کا فیصلہ بھی خود کرنا چاہتے ہیں‘‘ راجر نے جواب دیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ کپتان نے استفسار کیا۔
’’ہم اپنی پرچی خود نکالیں گے‘ آپ دو پرچیاں اور قلم عنایت کر دیں‘‘ راجر بولا۔
نائب کپتان کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا، اس نے فوراً دو پرچیاں اور قلم راجر کو دے دیا۔ راجر نے دونوں پرچیوں پر نام لکھنے کے بعد اچھی طرح تہہ کیا اور کپتان کو قلم لوٹانے کے بعد بولا ’’پرچی بھی آپ ہی اٹھائیے گا، راجر نے دونوں ہاتھوں میں پرچیوں کو اچھی طرح ہلایا، اور مٹھی کھول دی، کپتان نے ایک پرچی اٹھائی۔
’’مسٹر علی تمہیں زندگی مبارک ہو‘‘ علی کے نام کی پرچی نکلنے پر وہ بولا ’’راجر نے دوسری پرچی مٹھی میں بھینچ لی، علی کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس نے راجر کی طرف غور سے دیکھا، لیکن اس کے چہرے پر موت کی پرچھائیں اسے دور دور تک نظر نہ آئیں، علی نے قدم آگے بڑھانا چاہے لیکن جیسے اس کی ٹانگیں کسی نے جکڑ لی ہوں، اس کے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں، اس نے طوفانی موجوں کو دیکھا جو جہاز کو نگلنے کیلئے بیقرار تھیں، پھر ایک نظر اس چھوٹی کشتی پر ڈالی جو موت کے سٹیج پر زندگی کا گیت گنگنا رہی تھی، راجر نے علی کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا اور دھیرے سے بولا ’’علی تم اپنے بوڑھے والدین کا واحد سہارا ہو، اگر تم نہ رہے تو وہ بے موت مر جائیں گے، تمہیں نئی زندگی مبارک ہو، جاؤ اور اپنے والدین کی خوب خدمت کر کے اپنی آخرت سنوار لو۔
’’لیکن… لیکن روتھ… وہ تمہارا انتظار کر رہی ہے، میرے دوست‘‘ علی نم آنکھوں سے بولا۔
’’وہ زندگی بھر میرا انتظار کر سکتی ہے، میں جانتا ہوں اس میں اتنی ہمت ہے‘‘ راجر بولا، پریشانی کا شائبہ تک نہ تھا اس کے خوبصورت چہرے پر، پھر بولا ’’جب کبھی اسے حقیقت معلوم ہو گی تو وقت بڑے بڑے گھاؤ بھر دیتا ہے، اس کا دکھ بھی وقت کے ساتھ کم ہوتا جائے گا پھرکبھی نہ کبھی میں اس کے دل و دماغ سے نکل جاؤں گا‘‘ یہ کہتے ہوئے راجر رنجیدہ ہو گیا، علی نے اسے گلے لگایا زور سے بھینچا، اس کے ماتھے پر الوداعی بوسہ دیا اور پیچھے دیکھے بغیر اپنی کشتی میں اتر گیا، وہ کشتی میں بیٹھا ڈوبتے جہاز کو دیکھ رہا تھا، کشتی دھیرے دھیرے دور ہونے لگی اسے راجر جہاز کی سیڑھی پر کھڑا ہاتھ ہلاتا نظر آیا، اس کے بال ہوا میں اڑ رہے تھے اور وہ لگاتار لگنے والے جھٹکوں سے خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
پانی کی ایک بڑی لہر نے جہاز کو سمندر کا لقمہ بننے پر مجبور کر دیا، جہاز پر چیخ و پکار مچی ہوئی تھی، بے بسی کی موت مرنے والوں کی دل دہلا دینے والی چیخوں سے شاید آسمان کے بھی آنسو نکل پڑے تھے، آسمان سے بوندیں برس رہی تھیں۔
راجر ڈیک کے آخری کونے پر ریلنگ تھامے آسمان کو الوداعی نظروں سے دیکھنے لگا، جہاز دھیرے دھیرے ڈوب رہا تھا، جہاں راجر کھڑا تھا وہ حصہ بھی تہہ آب جانے لگا، راجر نے آنکھیں بندھ کر لیں اور بند مٹھی والا ہاتھ بلند کر لیا، ڈوبتے ڈوبتے جب مٹھی بھی غرق آب ہونے لگی تو اس نے بند مٹھی کھول دی، اس کی مٹھی سے ایک پرچی نکلی اور سطح آب پر تیرنے لگی، اس دوسری پرچی پر بھی علی کا ہی نام لکھا ہوا تھا۔
٭……………٭

Comments

ADS GO HERE

Popular posts from this blog

بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کیوں تسلیم نہیں کیا جاسکتا؟ از ساگر سہندڑو ا

 
Preview
Preview

Comments

Popular posts from this blog

اردو ناول کا ارتقا

اردو محاورے۔۔۔۔۔۔ وسیم بن اشرف

کالا جادو از ایم۔ اے۔ راحت