’’گدھ‘‘
تحریر:۔ وسیم بن اشرف، ڈپٹی نیوز ایڈیٹر۔ دنیا میڈیا گروپ۔ ملتان
    برائے رابطہ:   0322-2314444 - 0345-6520000
0345-3333380 -

’’اے چکنی کیا گُل کھلا کے آئی ہے‘‘ ایک خرانٹ عورت رانو سے مخاطب تھی، رانو ہر ذی نفس سے بے خبر بیرک کی چھت کو گھور رہی تھی۔ ’’اے گلابو میں تیرے سے پوچھ رہی ہوں‘‘ قریب آ کر اس نے رانو کو کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑا، رانواس اچانک پڑنے والی افتاد سے گھبرا گئی۔ رانو نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اسے سوچوں کے گہرے سمندر سے نکالنے والی کے گال پر بائیں ہاتھ کا ایسا جھانپڑ مارا کہ وہ دو قدم دور جا کر سنبھلی۔
اری، تھپڑ وہ بھی بانو کو، اس کا نام شاید بانو تھا جس نے رانو کا آتے ہی انٹرویو شروع کر دیا تھا، ’’اے چکنی تو جانتی نہیں مجھے‘‘ یہ کہتے ہی بانو نے لات گھمائی جورانو کے پیٹ میں لگی۔ وہ تکلیف سے دوہری ہو گئی، سیدھی ہونے سے پہلے ہی بانو نے اس کی چوٹی پکڑ کر جو زور کا جھٹکا دیا تو رانو کو دن میں تارے نظر آ گئے۔ وہ بری طرح بوکھلا گئی، یہ کیا آفت اس پر ٹوٹ پڑی ہے، رانو بھی دیہات کی پلی بڑھی تھی، موقع ملتے ہی بانو کو ایک اور تھپڑ جو رسید کیا اور اسے چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا، اب بیرک میں باقاعدہ دھینگامشتی شروع ہو چکی تھی، کبھی رانو نیچے اور بانو اوپر، کبھی رانو کا پلڑہ بھاری اور بانو زمین بوس، دوسری قیدی عورتیں بیرک کی دیوار سے جا لگی تھیں اور تماشہ دیکھ رہی تھیں۔ پھر رانو کا جو داؤ چلا تو اس نے بانو کو اس زور کا دھکا دیا کہ وہ بیرک کے جنگلے سے بری طرح ٹکرائی اور اس کی پیشانی سے خون لکیر کی صورت میں بہتا اس کے رخسار تر کرتا گردن گیلی کر گیا،’’ تیرا خون پی جاؤں تو بانو نام نہیں‘‘ وہ دھاڑی اور رانو کی طرف لپکی، رانو نے جھکائی دی تو اپنے ہی زور میں وہ دیوار سے زور سے جا ٹکرائی، چوٹ پر چوٹ کھانے سے وہ نیم پاگل ہو گئی اور ڈکراتی ہوئی بدمست گائے کی طرح پھر رانو کی طرف بڑھی، شور شرابہ سن کر جیل عملہ بید کی چھڑیاں لہراتا آیا، دروازہ کھولا اور بنا قصور پوچھے بانو کو کم مارا، رانو کو دھنک کررکھ  دیا۔ بید کی چھڑیاں پے در پے پڑنے سے رانو کے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگیں، دو چار بانو کو بھی پڑیں، تھوڑی دیر کی پٹائی نے سب شانت کر دیا، اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ بھی بید لہراتی پہنچ گئی، ’’یہ کیا تماشہ لگا رکھا ہے‘‘ اس کا رعب اور دبدبہ دیدنی تھا، چھوٹا عملہ الرٹ کھڑا تھا، ’’میں پوچھتی ہوں یہ کیا اودھم مچا رکھا تھا؟‘‘ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ چلائی، وارڈرز کو گھورا تو ایک لیڈی وارڈر نے کہا میڈم ہم بھی شور سن کر یہاں پہنچی تھیں، دیکھا تو آج آنے والی نئی قیدی رانو اور بانو گتھم گتھا تھیں، بانو کی پیشانی سے خون بہہ ہا تھا‘‘۔
دونوں کو لاؤ نہ ذرا میرے کمرے میں وہاں ان کی ’’خدمت‘‘ کرتی ہوں۔ وارڈرز نے سلیوٹ کیا، دونوں کو اپنے حصار میں لیکر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے کمرے کی طرف چل پڑیں، 2 لیڈی وارڈرز آگے، پیچھے رانو، پھر دو وارڈرز اور پیچھے بانو، آخر میں بھی دو لیڈی وارڈرز، چھ اہلکاروں کی نگرانی میں انہیں سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں لایا گیا، رات کے 9 بجنے والے تھے، اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے معاملے کی چھان بین کی ضرورت بھی محسوس نہ کی اور رانو پر پل پڑی، بدمعاش، قاتلہ، آتے ہی ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ میں نے تو بڑی بڑی خرانٹ قیدیوں کو تیر کی طرح سیدھا کر دیا۔ تیری اوقات ہی کیا ہے؟ رانو کے اوسان خطا ہو گئے، وہ سمجھ ہی نہیں پائی تھی کہ یہ آتے ہی اس پر کیا عذاب نازل ہو گیا، پانچ چھ بید، دوچار تھپڑ کھانے کے بعد رانو کی آنکھیں چھلک پڑیں، بمشکل اس کے لب ہلے ’’بی بی صاحبہ یہاں بھی ناانصافی‘‘۔
’’ناانصافی، تو نے بانو کا سر پھاڑ دیا، تھپڑے مارے اس کے گال لال کر دئیے اور بات انصاف کی کرتی ہے‘‘۔ آفیسر نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے کہا۔
’’میں نے کیا کیا‘‘ میں تو خاموش بیٹھی تھی، اسی نے بدتمیزی کی، جس سے بات بڑھ گئی، کیا میں اس کے ہاتھوں ذلیل ہوتی، مار کھاتی اس سے، اس کے تلوے چاٹنے لگ جاتی‘‘۔رانو بولی۔
’’بھاشن نہ بھگار، جو ہوا وہ بتا‘‘۔ آفیسر نے اسے ڈانٹا۔
’’بی بی وہی بتا رہی ہوں۔ آپ افسر ہیں انصاف آپ خود کرنا، پہلے اس نے مجھے چکنی کہہ کر پکارا، میں نے جواب نہ دیا تو کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑا، غصے میں میرا بھی ہاتھ چل گیا، اس نے بھی مارا اور میں نے بھی‘‘۔
’’ہوں! اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے ہنکارا ہوا اور حکم دیا رانو کو فی الحال دوسری بیرک میں بند کر دو وارڈرز اسے لے گئیں۔ بانو کمرے میں ہی رہ گئی، اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے اسے گھور کر دیکھا۔
’’تجھ سے دو روز بھی صبر نہ ہوا، آج ہی وہ جیل آئی اور تو اس سے بھڑ گئی، بانو اس طرح نہیں چلے گا، کسی نے اوپر شکایت کر دی تو میں انکوائریاں بھگتتی پھروں گی، تیرا کیا ہے تو دوسروں پر دھونس جما کر اپنا الو سیدھا کئے رکھے گی، یہ رانو ایک بدمعاش کا قتل کر کے آئی ہے اور تو نے پہلے ہی روز اس سے پنگا لے لیا، ہوش کے ناخن لے، یہ نہ ہو جو چھوٹ میں نے تجھے دے رکھی ہے وہ واپس لے لوں، اور باقی کی قید تو مشقت کر کے گزارے۔ جا چلی جا موقع محل، اونچ نیچ دیکھ کر قدم اٹھایا کر، سیر کو سوا سیر سے کبھی بھی واسطہ پڑ سکتا ہے۔
بانو جیل کی غنڈی تھی، خواتین قیدی اس کے سائے سے بھی دور بھاگتی تھیں، افسروں کی آشیرباد سے اس نے وہاں اپنی دھاک بٹھائی ہوئی تھی، جیل کے باہر کئی بڑی شخصیات سے اس کے مراسم تھے۔ قیدی عورتوں سے پیسے بٹورنا، زور زبردستی، سہولیات کے عوض رشوت لیکر جیل حکام تک پہنچانا اس کے ’’فرائض منصبی‘‘ میں شامل تھا، بدلے میں اسے جیل میں ہر سہولت میسر تھی۔
رانو کو دوسری بیرک میں پہنچا دیا گیا، یہ جیل میں اس کا پہلا دن تھا، پہلے ہی روز اس کے ساتھ جو بیتی یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ وہ تو پہلے ہی ظلم و جبر سہتے، زمانے کی ٹھوکریں اور اپنوں کے لگے گھاؤ کھا کر یہاں پہنچی تھی، سر منڈاتے ہی اولے پڑنے والی بات تی، جیل میں پہلے ہی دن جو کھیل کھیلا گیا وہ سمجھ نہ پائی تھی۔ وہ زندان میں تھی، پابۂ زنجیر تھی، زمانے کی زنجیر توڑ کر زندگی کے زندان میں ایک جنگ لڑ کر بھی وہ بظاہر ہار گئی تھی لیکن دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں نے اس کو وجینا قرار دیا تھا، وہ اپنے جیسی کئی لڑکیوں کو یہ خاموش پیغام دے آئی تھی کہ سسک سسک کر مرنے سے جبر کے سامنے سرنگوں ہونے سے بہتر ہے ظلم کے سامنے سر اٹھا کر چلا جائے، موت تو آنی ہے پھر روز روز مر کے کیوں جیا جائے، اس نے بھی اپنے زور بازو سے ان بدمعاشوں کو وہ سبق سکھا دیا تھا کہ آئندہ کوئی اس جیسی لاچار رانو پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ہزار بار سوچے گا‘‘۔ یہ سوچتے سوچتے اس کی پلکیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں۔ اس نے دیوار سے سرٹکا دیا۔ ٹانگیں پساریں، جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا تھا، جلد ہی اسے نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا، سچ کہتے ہیں نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے۔
دوسرے روز منہ اندھیرے سب کو اٹھانے کا عمل شروع ہوا، یہ سب اس کے لئے نیا تجربہ تھا۔ زندان کی زندگی کا ہر دن اس کو نیا سبق پڑھا رہا تھا، گن گن کر قیدی عورتوں کو نکالا گیا، سارا دن ان سے مختلف کام کرائے جاتے رہے، شام کو بھیڑ بکریوں کی طرح گنتی کر کے پھر بھانے میں بند کر دیا گیا، اسے یہ جیل بھی بھانہ ہی لگی تھی، روزانہ مشقت، بیماروں جیسا کھانا اور مچھروں سے بھری بیرک، خواتین، بچے، شور شرابہ، رونا دھونا، مصائب و آلام، دکھڑے، ماتم، یہ سب دیکھتے تین دن گزرے تو ایک رات ایک قیدی عورت اس کے پاس چلی آئی، دیکھنے میں ادھیڑ عمر لگتی تھی، لب کھولے تو لگا گویا پھول جھڑنے لگے ہوں، اتنا میٹھا لہجہ جیسے منہ سے شیرینی ٹپک رہی ہو۔
وہ قریب آئی اور بولی بیٹی، ’’نہ جانے کون سی خطا تجھے اس جہنم زار میں لے آئی ہے۔ نصف شب کو تو میرے بسترے کے پاس آنا‘‘، چند جملے کہہ کر وہ دوبارہ اپنی جگہ پر چلی گئی، بیرک کے باہر وارڈرز الرٹ تھیں، چکر پہ چکر لگا کر سب پر ایسے نظر رکھی ہوئی جیسے ان میں سے کوئی نظر بچا کر بھاگ کھڑی نہ ہو، حالانکہ اس زندان سے نکلنا مشکل تو کیا ناممکن تھا۔ رات آدھی بیت گئی، کسی شرمیلی دلہن کی طرح چاند نے بدلیوں کی چادر اوڑھ لی۔ بیرک کے سامنے درختوں کے سائے معدوم ہو گئے، بیرک کے اندر اور باہر ہلکی روشنی والے بلب لگے ہوئے تھے۔ نگران عملے کی ڈیوٹی تبدیل ہو چکی تھی، چاک و چوبند نئی وارڈرز نے راؤنڈز شروع کر دئیے تھے، رانو کو اس خاتون میں کچھ خاص نظر آیا تھا۔ نہ جانے کیوں اس کے لب و لہجے میں اسے اپنائیت محسوس ہوئی تھی، نصف شب کو اسی خاتون نے رانو کو دیکھا، دونوں کی نظریں چار ہوئیں، اس خاتون نے رانو کو خفیف سا اشارہ کیا، رانو غیر محسوس انداز میں کھسکتی ہوئی اس کے پاس پہنچ گئی۔ وہاں کسی اور کے لیٹنے کی گنجائش تو نہ تھی لیکن کچھ حرکت برکت سے انہوں نے جگہ بنا ہی لی، وارڈرز کی نظر ان پر نہ پڑی تھی، خاتون نے آہستہ سے پوچھا، ’’بیٹی کون سی افتاد آن پڑی جو تو اس بھری جوانی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے زنگ لگانے چلی آئی ہے‘‘۔
’’میں آپ کو کیا کہوں؟ کس نام سے پکاروں۔؟‘‘
’’آپا کہہ لو‘‘۔
آپ! پہلے آپ بتاؤ آپ یہاں کیسے؟
’’بتاؤں گی اپنوں کے زخم بھی دکھاؤں گی، کچھ نہیں چھپاؤں گی؟‘‘
’’لیکن تم اتنی خوبصورت ہو، کس کے ستم کے تیروں کا نشانہ بنی ہو، یہ جیل نہیں عقوبت خانہ ہے، دیمک کی طرح چاٹ لیتا ہے‘‘۔
’’میں اپنے باپ کے پاپ کے نتیجے میں یہاں ہوں۔‘‘
’’میں کچھ سمجھی نہیں، مجھے اپناسمجھ تو تفصیل سے سب بتاؤ، شاید میں تمہاری کوئی مدد کر سکوں‘‘۔
’’آپ تو خود یہاں بے بس ہیں، میری کیا مدد کریں گی‘‘
’’اس کی فکر نہ کرو، اﷲ مسبب الاسباب ہے‘‘
’’تو ٹھیک ہے آپا، نہ جانے کیوں مجھے آپ میں اپنی ماں کا عکس دکھتا ہے، کل رات کو میری زندگی کے اوراق پڑھ لینا۔ جن پر جبر اور ظلم، کڑوے کسیلے، حالات، دکھ بھرے واقعات کی تازہ داستان رقم ہے۔ زمانے کے فرعونوں سے لڑتی لڑتی اس چاردیواری میں آئی ہوں۔ جسے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا، جیل کے بارے میں کسی سے سنا تھا نہ کبھی سوچا تھا نام پوچھ سکتی ہوں آپ کا؟
’’ثمر نام ہے میرا، لیکن ہمیشہ بے ثمر ہی رہی،خیر تم مجھے آپا ہی کہنا، مجھے اس بے ثمر نام سے نفرت ہو گئی ہے، کوئی مجھے ثمر کہے تو میرے اندر آگ کا الاؤ روشن ہو جاتا ہے، میں اندر ہی اندر بھسم ہونے لگتی ہوں‘‘۔
’’آپا زندگی تو میری بھی دہکتے کوئلوں جیسی ہے، محبت نفرت میں بدلی، نفرت نے انتقام کو جنم دیا، انتقام پیار کو نگلنے لگا تو ہوس کے آسیب نے ایسا سحر پڑھ کر پھونکا کہ زندگی تتر بتر کر کے رکھ دی، میں نے اس آسیب کا قصہ تمام کردیا۔ لالچ نے خون کے رشتوں کو اندھا گونگا بہرہ کر دیا تو مجھ سے قتل ہو گیا‘‘۔
’’قتل‘‘ آپا بھونچکی رہ گئی۔
’’ہاں آپا قتل‘‘۔
’’کسے قتل کیا؟‘‘
’’اسے جسے ظالم رسم ورواج اور مکروہ روایات کے علمبردار میرا سر تاج بنانا چاہتے تھے،  55 سال کا بوڑھا سرتاج، ہونہہ‘‘۔ اس نے نفرت سے ہونٹ سکیڑے۔
’’اس داستان الم کانقطہ نظرمجھے سناؤ‘‘۔ آپا اس کی باتیں سن کر بے تاب ہو گئی تھی۔
’’کل سناؤں گی اپنی زندگی کا نوحہ‘‘۔ اب سوتے ہیں رانو یہ کہہ کر آپا کا جواب سنے بغیر کھسکتی ہوئی اپنی جگہ پر آ کر لیٹ گئی۔
اگلا روز بھی معمول کے مطابق تھا۔ اس نے جیل میں قیدی اور حوالاتی عورتوں کی بے عزتی کرنے کے لئے انتہائی شرمناک ہتھکنڈوں کا استعمال دیکھا، اسے لگا جیسا زنانہ سٹاف احترام خواتین، عزت نفس، اخلاق اور شرافت کے اصولوں سے بے بہرہ ہے۔ اس نے خواتین کو کرسیاں، بیڈ شیٹ، کڑھائی والی شالیں، ڈوپٹے، کشن، ٹی کوزی کور، ٹی ٹرالی سیٹ، سینریوں والے فریم بھی بناتے دیکھا۔ کھلے ہاتھوں پیروں اور بھرپور جسم والی رانو کو بھی جیل کا مخصوص لباس پہنا دیا گیا تھا، اس لباس میں وہ یوں پھنس کر رہ گئی تھی کہ جسم کے بعض اعضاء برانگیختہ کرنے کی حد تک نمایاں ہو گئے تھے، شلوار ٹخنوں سے اوپر تھی، بازو بھی چھوٹے تھے، یوں لگ رہا تھا جیسے اسے زبردستی لباس پہنایا گیا ہو اور حقیقت بھی یہی تھی اسے یہ لباس زبردستی ہی پہنایا گیا تھا، لگ رہا تھا جیل میں تمام خواتین کیلئے ایک ہی سائز کا لباس ہوتا ہے۔
موقع پاتے ہی آپا اس کے قریب چلی آئی اور اسے دوسری عورتوں سے تھوڑا دور لے گئی۔
رانو یہ قتل تو نے اپنی آبرو اور جان بچانے کے لئے کیا ہے ناں، آپ نے تصدیق چاہی۔
’’ہاں آپا‘‘۔
’’تو پھر تو زیادہ دیر جیل میں نہیں رہے گی‘‘۔
’’وہ کیسے، رانو دیدے پھاڑے آپا کو تکنے لگی‘‘۔
’’تو قاعدہ قانون نہیں جانتی، اگر مناسب وکیل تیرا کیس لڑے تو اگلی پیشی پر تیری ضمانت اور چند مزید پیشیوں کے بعد تو باعزت بری ہو جائے گی‘‘۔
’’آپا گھرمیں چولہے آگ نہ گڑھے پانی، وکیل کون کرے گا‘‘؟ وہ غمزدہ لہجے میں بولی۔
’’اچھا میں کچھ کرتی ہوں، تو فکر نہ کر، میں تیری جوانی کو یہاں کی دیمک نہیں لگنے دوں گی، خیر سے چار دن یہاں کاٹ لے، جب بھی تجھ سے ملاقات کیلئے کوئی آئے تو مجھے بتانا، آپا نے اسے تسلی دی۔
’’مجھ سے کون ملاقات کے لئے آئے گا؟‘‘ وہ حیرت سے بولی
’’کیوں، کیا اس جہاں میں تیرا کوئی نہیں‘‘۔ آپا کو حیرانی ہوئی۔
’’ہے آپا لیکن صرف سرور‘‘۔
’’سرور کون؟‘‘
’’وہی جس پر میں اور جو مجھ پر جان چھڑکتا ہے‘‘۔
’’اوہ میں سمجھی!‘‘ آپ کے لبوں پر مسکراہٹ رقصاں تھی۔
’’چلو! جو بھی آئے اسے ایک خط دینا، جو میں کسی کے نام لکھوں گی، بس تیرا کام ہو جائے گا اور تو ان سلاخوں سے باہر ہو گی‘‘، آپا نے اسے تسلی دی۔
’’لیکن آپ سب یہ…… ‘‘آپا نے اسے ٹوکا اور بات جاری رکھی ’’تجھے پریشان ہونے کی ضرورت ہے نا حیران ہونے کی، کبھی این جی اوز کا نام سنا ہے؟‘‘
’’نہیں آپا یہ کیا چیز ہے؟‘‘
’’چیز نہیں پگلی! آپا نے اسے ہلکی سی چپت لگائی۔ یہ ایسی تنظیمیں ہوتی ہیں جو سماج میں بھلائی کے کام کرتی ہیں اور کوئی معاوضہ نہیں لیتیں، ایسی ہی ایک تنظیم میں میرے جاننے والے اہم عہدیدار ہیں، تیرا ملاقاتی جب میرا خط ان تک پہنچائے گا تو وہ تھانے سے ایف آئی آرکی نقل  لیکر وکیل کا بندوبست بھی کریں گے، تیرا کیس بھی مفت لڑیں گے اور تو ایک دو ماہ میں ہی بری ہو جائے گی‘‘۔
’’آپا یہ آپ کیسے سہانے سپنے دکھا رہی ہیں، اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ اب تک اس جہنم میں کیوں جل رہی ہیں‘‘ وہ مخمصے کا شکار تھی۔
’’سن میری بچی! سانپ کا ڈسا تو شاید بچ جائے، لیکن انسان اتنا زہریلا ہے کہ اس کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔ میں اپنی مرضی سے یہاں ہوں‘‘
’’کیا اپنی مرضی سے؟ آپا کی بات سن کر اس پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
’’ہاں! کبھی آزاد فضاؤں میں ملاقات ہوئی تو تفصیل بتاؤں گی‘‘ آپا نے پیار سے اسے سمجھایا۔
’’رانو بھی ششدر تھی کہ قیدی عورتوں پر بے پناہ سختی کے باوجود اس نے کسی کو بھی آپا سے بدتمیزی کرتے یا سخت رویہ اختیار کرتے نہیں دیکھا تھا،وہ سوچنے لگی آپا کی حقیقت کیا ہے؟ شاید آپا کے نہ بتانے میں کوئی مصلحت تھی‘‘۔
’’اچھا سنو‘‘ آپا نے اسے سوچوں کے سمندر سے نکالا، یہ سب تبھی ممکن ہو گا جب تو مجھے اپنی ساری داستان سنائے گی، اور آج کی رات کا تو نے وعدہ بھی کر رکھا ہے۔
’’ہاں آپا آج کی رات میں تجھے وہ سب بتاؤں گی جو مجھ پر بیتی۔ دل میں پیوست ظلم کا ایک ایک تیر نکال کر سارے گھاؤ تمہیں دکھاؤں گی۔ آپا تو سچ کہتی ہے انسان بہت زہریلا ہے‘‘۔
دن ڈھلنے لگا تو آواز پڑ گئی خواتین کو قطاروں میں بیرکوں میں جانے کا حکم ملا، ایک ایک کو گنتی کے بعد بیرکوں میں ٹھونس دیا گیا۔
٭…………٭
سردیوں کے دن تھے سورج ڈوبتے ہی رات کا راج ہو گیا، قیدی عورتیں، غلیظ بستروں پر میل سے اٹے کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی تھیں، جاگ رہی تھیں تو صرف رانو اور آپا، تھوڑی سردی بڑھی اور کچھ اندھیرا مزید گہرا ہوا تو رانو آپا کے کمبل میں تھی، رانو اپنی زندگی کے اوراق پلٹنے لگی۔
٭…………٭
احمد پورشرقیہ سے کوئی 20 میل کی دوری پر چولستان سے کچھ پہلے بمشکل 20 سے 22 گھروں پر مشتمل بستی آباد تھی۔ دس بارہ جھونپڑے، سارے گھر کچے تھے، چھوٹی چھوٹی دیواریں مکینوں کی غربت کو بے پردہ کئے رکھی تھی، کوئی مکان ایک کمرے کا، کسی کے دو تو شاید ہی کسی کے تین ہوں گے، البتہ ہر گھر کا چھوٹا یا بڑا صحن ضرور تھا، کئی گھروں میں درختوں کی اٹھان اس قدر تھی کہ گویا دوسرے گھروں میں جھانک کر وہاں کی خیر خبر لے رہے ہوں۔اسی بستی میں دو گھر پختہ تھے، ایک وہاں کے چودھری فواد کا اور دوسرا بدقماش، منشیات فروش، عورتوں کے شکاری اور بیوپاری، اوباش نذیرے کا، کئی مربع اراضی کا مالک چودھری فواد وہاں کا کرتا دھرتا تھا۔ پرے پنچایت کا سر پنچ وہ ہوتا،ہر کس و ناکس کی زندگی اس کے مرضی کے مطابق بسر ہوتی تھی، بستی کے بیشتر افراد تو اس کے کھیتوں میں ہی اپنا خون پسینہ ایک کر کے پیٹ کا جہنم سرد کرتے تھے، کچھ بستی کے باہر محنت مزدوری کر کے روزی روٹی کا بندوبست کر لیا کرتے۔ اس بستی سے ایک کلومیٹر دور بھی چند گھروں پر مشتمل ایک بستی اور تھی، کچے مکانوں کے مکینوں کا زمینوں، بھٹہ خشت پر مزدوری کر کے گزر بسر ہوتا۔ کچھ میلوں ٹھیلوں پر کھیل تماشے دکھا کرجسم اور روح کا ناطہ برقرار رکھے ہوئے تھے، چند ایک ایسے بھی تھی جو چودھری کے ظالمانہ فیصلوں کی بھینٹ چڑھنے کے بعد بستی سے نکال دئیے گئے اور یہاں آ بسے تھے۔ یوں یہاں دس پندرہ گھروں کی ایک بستی آباد ہو گئی تھی۔ یہاں بمشکل ہی کوئی مکان دو کمروں کا تھا ورنہ ایک کچا کمرہ، صحن اور صحن میں جانورباندھنے کے لئے لکڑی اور گھاس پھونس سے چھپر ڈال رکھے تھے۔ جس گھر میں بھی نظر ڈالیں اس کی کل متاع دو تین چارپائیاں، ایک آدھ جستی ٹرنک یا پیٹی تھی، دونوں بستیوں میں کوئی سکول تھا نہ ہی ہسپتال، چودھری نے تو اپنی بستی تک سولنگ لگوا رکھی تھی تاکہ اس کی شاہی سواری آرام سے آ جا سکے۔ دوسری بستی کے حالت اس قدردگرگوں تھی کہ سڑک تو دور کی بات انہیں پینے کا پانی بھی قریباً دو کوس دور سے گھڑوں میں بھر کر لانا پڑتا تھا۔زیرزمین پانی زہریلا تھا، ان کی پیاس بجھانے کا واحد ذریعہ وہاں سے گزرنے والی نہر تھی۔ اکثر اوقات یہ نہر خشک رہتی، تب مکین چودھری کے پاؤں پڑتے۔ اس کی اجازت سے اس کی زمینوں پر نصب ٹیوب ویل سے کڑوا پانی بھر لاتے اور پیاس بجھاتے۔ یہ اس زہریلے پانی کا شاخسانہ تھا کہ وہاں کے متعدد مکین یرقان کے موذی مرض کا شکار تھے۔ چودھری اور نذیرے منشیات فروش کے گھروں میں بجلی تھی۔ باقی غربت کے مارے اس قابل ہی نہ تھے، بجلی کا کنکشن لیتے اور بل بھرتے۔ ان کے گھروں میں دو وقت کی روٹی پک جائے یہی بہت تھا۔ چند ایک کے پاس بکری، بھینس اورگائے یا باربرداری کے لئے گدھے تھے۔
بستی کے آدھے سے زیادہ مکین چودھری فواد کے مقروض اور باقی کے سودخور نذیرے کے ڈسے ہوئے تھے، وہی صبح، وہی شام، وہی کام۔ بس لوگ جی رہے تھے، اس بستی میں شروع کا تیسرا گھر رانو کا تھا۔ دو کمرے، صحن، گھر میں نیم کا درخت، کمرے کچے، سامان اتنا کہ گزر بسر ہو سکے، بوڑھا افیمی باپ، ماں، ایک بھائی جو صبح شہر جاتا، کسی موٹر مکینک کے پاس مزدوری کرتا اور رات گئے لوٹتا، رانو اور اس کی ماں چودھری کے کھیتوں میں کام کرتیں، بوڑھا گھر پڑا چارپائی توڑتا رہتا، یوں اس گھرانے کی گزر بسر ہو رہی تھی۔ چودھری کے ظلم اور نذیرے کی چیرہ دستیوں کے خلاف کسی کو آواز اٹھانے کی جرأت نہ تھی، دونوں اس قدر بااثر تھے کہ علاقے کی پولیس بھی ان کے ٹکڑوں پر پل رہی تھی، گاڑی خراب ہو گئی تو پیسے چودھری نے دے دئیے، کسی کے بچے کی شادی ہوتی تو وہ چودھری کے در پر آ جاتا، قریبی پولیس چوکی میں کسی میز، کرسی یا پنکھے کی ضرورت پڑتی تو چودھری کام آتا، پھر یہ کیونکر ممکن تھا کہ چودھری کی مرضی و منشاء کے بغیر علاقے میں پرندہ بھی پر مار سکے۔
بستی سے چونکہ صحرا کے قریب تھی اس لئے رات کا منظر بہت مسحورکن ہوتا تھا۔ سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے پرندے جو سارا دن جھاڑیوں میں چھپے رہتے تھے باہر نکل آتے اور ان کے چہچہوں سے بستی کی فضاء میں ایک رومانوی گونج پیدا ہو جاتی، افق کی سرخی خاکستری رنگ میں بدل جاتی۔ پھر آہستہ آہستہ اندھیرا چھانے لگتا اور دن کے پرندے اور انسان شب باشی کے لئے  گھونسلوں اور گھروں میں چلے جاتے اور ان کی جگہ رات کے پرندے اپنا راگ الاپنے لگتے یا پھر نذیرے کے کارندے مکروہ دھندے کا آغاز کرتے، چاند نکل کر درختوں کی  چوٹیوں سے سرکتا ہوا کھلے آسمان پر آ جاتا اور جب اس کی روشنی چھن چھن کر نیچے آتی تو زمین پر روشنی اور سائے مل کر عجیب نقش و نگار بناتے تھے پھر طلوع سحر کی گھڑیوں میں چڑیاں چہچہاتیں، فاختائیں امن کے سریلے گیت چھیڑتیں، کبھی کبھار کوئل کی کوک نغمہ سرا ہوتی، لہلہاتے کھیتوں کے آخر میں آسمان جھک کر زمین سے گلے ملتا تھا، یہاں باہمی محبتیں کچے گھروں کا خاصہ تھیں، گھنے درختوں کی مہربان چھاؤں سخت تپتی دوپہر کو یہاں کے مکینوں کے لئے نعمت سے کم نہ تھی، اس بستی کی بدقسمتی تھی کہ یہاں حرص و ہوس کی  چودھری فواد اور نذیرے جیسی چمگادڑیں آزادانہ ہر طرف گھومتی پھرتی تھیں۔
٭……………٭
سردیوں کے دن تھے، ایک دوپہر کو مچنے والے شور نے وہاں کے مکینوں کو حیران و پریشان کر دیا کہ نذیرے کے ڈیرے پر چوری کی واردات ہو گئی، بستی کے کسی مکین کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ چوروں کو مور پڑ گئے ہیں، لیکن نذیرے اور اس کے کارندوں نے یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی کہ ڈیرے سے چور ایک ٹیپ ریکارڈر، ایک استری اور چند دوسری اشیاء چرا کر لے گیا ہے، کھوجی کو بلایا گیا، کھرا ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ سرور ساربان کے دروازے پر رک گئے، بجائے پولیس کارروائی کے نذیرے نے سرور ساربان کو اپنا ملزم قرار دے دیا، سرور اپنی غربت کی دہائیاں دیتا رہا، چور نہ ہونے کی یقین دہانیاں کراتے کراتے رو پڑا، غریب کے پاس ایک ہی سوفٹی تھی، اس جوتے کو کھوجی نے اتروا کر دیکھا، سرور کو چلنے کو کہا گیا، اس نے دو چار چکر لگائے، کئی لوگوں نے دیکھا کہ جوتے کے تلوے کے نشان ہو بہو ویسے ہی تھے جیسے نذیرے کے ڈیرے سے سرور کے چھپر نما مکان تک آئے تھے، نذیرے کے کارندوں نے دھونس اور دھاندلی سے سرور سے سامان کی برآمدگی کا مطالبہ کیا، ’’میرے خلاف الزام ہے، میں نے چوری نہیں کی، میرے گھر کی تلاشی لے لو‘‘ سرور نے بے بسی سے کہا۔
’’چور تو تو ہی ہے، مان یا نہ مان، کھرا تیرے دروازے تک آیا، نشان بھی تیرے جوتوں کے ہیں، ہماری مان، سامان دے دے ورنہ پھر پولیس کا مہمان بننے کیلئے تیار ہو جا‘‘ نذیرا دھمکیوں پر اتر آیا۔
بات چودھری فواد تک پہنچ گئی، پنچایت بلا لی گئی، دو چارپائیاں، دو کرسیاں چودھری کے گھر کے وسیع و عریض لان میں موجود تھیں، کرسیوں پر چودھری فواد اور نذیرا فرعون بنے بیٹھے تھے، چارپائیوں پر ان کے کارندوں کا قبضہ تھا، بستی کے چند بوڑھے زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے اور بائیں جانب مبینہ چور سرور ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
’’حالات و واقعات سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ چوری تم نے کی ہے‘‘ چودھری سرور سے مخاطب ہوا۔
’’مائی باپ! اگر میں چور ثابت ہو جاؤں تو میرا سر آپ کے جوتے، یہ مجھ پر الزام ہے‘‘ سرور نے صفائی پیش کی۔ غریب شاید جانتا نہیں تھا کہ اندھوں کی بستی میں آئینہ کون خریدتا ہے۔
’’کھرا تمہارے گھر تک گیا، واردات میں جو جوتا چور نے پہنا وہ تم نے پہن رکھا ہے اور پھر بھی کہتے ہو کہ چور نہیں ہو‘‘۔ چودھری بولا
’’سرکار! یہ میرے خلاف کوئی سازش ہے، میں تو صبح اپنا اونٹ لیکر نکلتا ہوں، دن بھر کبھی باربرداری، کبھی سواری، اور کبھی کھیل تماشہ دکھا کر چند روپے کما کر رات گئے گھر آ کر سو جاتا ہوں، مجھے کسی نے پھنسایا ہے‘‘۔ سرور نے بھینس کے آگے بین بجائی۔
’’سنو بستی والو! سرپنچ چودھری فواد بولا ’’میں نہیں چاہتا بات پولیس تک جائے وہ اس کی کھال ادھیڑ کر رکھ دیں گے، یہ وہ چوریاں بھی تسلیم کر لے گا جو اس نے کی بھی نہیں ہوں گی، نذیرا اس کو اپنا چور قرار دے رہا ہے اور یہ بضد ہے کہ چوری نہیں کی، رسم و رواج کے مطابق کھرا اس کے گھر تک نکلا ہے، لہٰذا چور سرور ہی ہے، سامان برآمد کرا دے تو سزا میں کمی کر دیں گے ورنہ اسے بستی سے نکال دیا جائے گا اور بطور جرمانہ اس کا گھر نذیرے کے حوالے کر دیا جائے گا‘‘ بستی کے کسی شخص کی مجال تھی جو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا، سرور نے پھر اپنی صفائی پیش کرنا چاہی تو چودھری نے اسے بری طرح جھڑک دیا اور حکم دیا کہ کل وہ اپنا اونٹ لیکر بستی سے چلا جائے۔
سرور دوسرے روز پنچایتی فیصلے کا پھندا گلے میں ڈالے بستی چھوڑ گیا اور ایک میل کے فاصلے پر دوسری بستی میں چلا گیا۔
رانو کو سارے واقعہ کا پتہ چلا تو چلا اٹھی، سرور چور نہیں ہے، اسے پھنسایا گیا ہے۔
’’تو بڑی اس کی طرفداری کر رہی ہے‘‘۔ اس کا باپ بولا۔
’’باپو، بات طرفداری کی نہیں، وہ محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے اونٹ کا پیٹ پالتا تھا، اس بستی میں پلا بڑھا، والدین کے مرنے کے بعد ورثے میں ملے اونٹ کو اس نے روزی روٹی کا ذریعہ بنایا، آج تک اس نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے بستی والوں کو کوئی شکایت ہوئی ہو، ایک دم سے وہ چور کیسے بن گیا؟‘‘ رانو نے اس کی صفائی دی۔
’’چپ بیٹھی رہ‘‘ باپ نے ڈانٹا، ’’چودھری کے کانوں میں بھنک بھی پڑ گئی تو ہمارا جینا حرام کر دیں گے‘‘
’’باپو! بات کچھ کچھ میری سمجھ آ رہی ہے، تیرے کان اور آنکھیں بند ہیں میرے نہیں۔‘‘ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’رانو کی ماں اس چپ کرائے گی یا میں پھر…‘‘ باپ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’رانو چل میری بیٹی کمرے میں جا، کیا ہوا، کس کے ساتھ ہوا، ہمیں اس سے کیا لینا دینا‘‘ ماں کے سمجھانے پر وہ خاموش ہو گئی۔
ساتھ والے  گھر میں اس کی بچپن کی سہیلی اور ہم راز خالدہ رہتی تھی، وہ ماں کو بتا کر خالدہ سے ملنے چلی گئی۔
٭……………٭
رات کسی گناہگار کے دل کی طرح انتہائی تاریک تھی، آسمان گہرے سیاہ بادلوں کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا، طوفانی بارش نے ہرطرف جل تھل کر دیا تھا، دونوں بستیوں میں کئی مکان پانی سے بھر گئے، چھتیں ٹپک پڑیں، غریبوں کے لئے رحمت بھی زحمت ثابت ہو رہی تھی، ایک طرف سردی دوسری طرف بارش، ہر طرف گھٹاٹوپ تاریکی کا راج تھا۔ بارش تھم گئی لیکن کچے راستوں پر آمدورفت انتہائی دشوار ہو کر رہ گئی تھی۔ سرور کے راستے میں تاریکیاں حائل تھیں نہ کسی سانپ بچھو کے خوف نے اس کا راستہ کھوٹا کیا، سرشام ہی خالدہ کے ذریعے رانو کا پیغام ملتے ہی وہ بے چینی سے رات کا انتظار کر رہا تھا، بارش بھی دونوں کے ارادوں میں رکاوٹ نہ بن سکی تھی، محبت کا جوش اور پیار کی لگن ہر خطرے کو دل و دماغ سے محو کر دیتی ہے، رانو نے اسے دونوں بستیوں کے درمیان ٹیلے کے پیچھے ملنے کا پیغام بھجوایا تھا، اندھیرے رات میں وہ تیز تیز قدموں سے ٹیلے کی جانب جا رہا تھا۔ کئی بار اس کا پاؤں چھوٹے موٹے گڑھوں میں بھی پڑا، لیکن وہ سب سے بے پروا اپنی لگن میں چلا جا رہا تھا، اس سردی میں اس نے لنڈے کا ایک پھٹا پرانا سویٹر پہن رکھا تھا، دل میں جب محبت کا الاؤ روشن ہو تو باہر کی سردی وجود پراثر نہیں کرتی، وہ دیوانہ وار ٹیلے کی جانب بھاگنے لگا، کسی پتھر کی ٹھوکر لگی تو شڑاپ سے پانی میں گرا، کپڑے کیچڑ میں لت پت ہو گئے، اس نے وہیں پر جمع پانی سے کچھ کیچڑ صاف کیا اور پھر چل پڑا کہ کہیں رانو مایوس ہو کر واپس نہ چلی جائے، ٹیلے کے قریب پہنچ کر اس نے دو تین بار آہستہ سے رانو، رانو پکارا۔ رانو ٹیلے کی اوٹ سے نکل کر سامنے آ گئی، سرور کو دیکھ کر اس کی ہنسی چھوٹ گئی، ’’میں تو سرور سے ملنے آئی تھی کسی بھوت سے نہیں‘‘ اس کی بات سن کر سرور نے رخ پھیر لیا ’’تو ٹھیک ہے بھوت واپس چلا جاتا ہے‘‘ اس نے قدم اٹھایا ہی تھا کہ رانو نے پیار سے پکارا ’’اے سرور، تو بھوت بھی دکھتا ہے تو اچھا لگتا ہے‘‘ دونوں یونہی چھیڑ چھاڑ کرتے گیلی ریت ہٹا کر خشک ریت پر بیٹھ گئے۔ رانو نے سرور کا ہاتھ پکڑا اپنے سر پر رکھ لیا ’’کھا قسم میری اور بتا تو نے چوری کی یا نہیں‘‘۔
’’تیری قسم بانو! یہ جھوٹ ہے، بہتان ہے، مجھے بستی سے نکالنے کیلئے سازش کی گئی ہے‘‘۔
’’مجھے پتہ ہے لیکن میں ایک بار تجھ سے یقین دہانی چاہتی تھی‘‘
’’کس نے کیا یہ سب؟‘‘
’’میں جانتی ہوں، تو بھی غور کرے تو سب سمجھ جائے گا‘‘۔
’’تمہارا مطلب نذیرا؟‘‘
’’صرف نذیرا نہیں بلکہ چودھری کا بیٹا نواز بھی اس سازش میں ملوث ہو گا‘‘
’’مگر کیوں اور کس لئے؟‘‘ سرور کو حیرانی ہو رہی تھی۔
’’بڑا بھولا ہے تو بھی، جب سیانوں نے کہہ دیا کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے، تو تیری اور میری محبت کی تھوڑی بہت خبر تو کسی کو ہو گی ناں،‘۔
’’کھل کر بتا، بات میرے پلے نہیں پڑ رہی‘‘
’’مٹی کے مادھو سن، جب میں اماں کے ساتھ اوردوسری عورتوں کے ہمراہ چودھری کے کھیتوں میں کپاس کی چنائی کے لئے گئی تھی تو نواز بہانے سے میرے قریب آیا اور عشق جھاڑنے لگا، میں نے سخت لہجہ اپنایا تو پتا ہے اس نے کیا جواب دیا تھا؟‘‘
’’مجھے کیا پتہ تو ہی بتا‘‘۔
’’اس نے کہا تھا ہم چودھریوں سے تو ساربان اچھے ہیں جو دودھ ملائی کھاتے ہیں‘‘ بات آئی تیرے کھوپڑے میں یا نہیں۔
’’ہوں تو یہ بات ہے، اس کا مطلب ہے باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہم میں دوریاں پیدا کی گئیں‘‘ اس نے غصیلے لہجے میں کہا۔
’’کیا ہم دور ہو گئے ہیں‘‘ رانو مصنوعی غصے سے بولی۔
’’نہیں بلکہ چاہت میں اور شدت آ گئی ہے‘‘ وہ محبت بھرے لہجے میں بولا۔
’’اس کا مطلب ہے میرا جوتا چرا کر کسی کو پہنا کر نذیرے کے ڈیرے سے میرے گھر تک لایا اور لے جایا گیا، پھر جوتا صحن میں رکھ کر چوری کا ڈرامہ رچا کر مجھے بستی بدر کر دیا گیا، دیکھ لوں گا میں ان بدقماشوں کو‘‘ سرور کا چہرہ سردی میں بھی تپتپانے لگا تھا۔
’’نہ، بے وقوفی نہیں کرنی، اب تک چند ایک کو پتہ ہے پھر پورا جگ ہماری محبت کا ویری ہو جائے گا‘‘ رانو نے اسے سمجھایا، اچھے وقت کا انتظار کر، رانو تیری ہے اور تیری ہی رہے گی چاہے جان نہ چلی جائے‘‘۔
’’جھلی کہیں کی، جان جانے کی بات پھر نہ کرنا، تو جانتی ہے میں تیرے بغیر نہیں جی سکتا، رانو! زندگی گزرے گی تو تیرے سنگ، نہیں تو محبت کے دشمنوں پر زندگی تنگ کر دوں گا، بغاوت پر اکسایا گیا تو پھر دشمنی کی آگ میں سب جھلسیں گے‘‘ سرور جذباتی ہو رہا تھا۔
رانو نے اسے پیار سے چپت لگائی، ’’تیرے مغز میں میری بات نہیں بیٹھی، میں کہہ بھی رہی ہوں کہ کچھ وقت کیلئے خاموشی سادھ لے، اپنے کام سے کام رکھ، مناسب موقع ملتے ہی میں خود ماں سے بات کروں گی‘‘۔
’’اور وہ تیرا باپو، وہ کسی جلاد سے کم تو نہیں‘‘
’’شرم کر میرے باپ کو جلاد کہہ رہا ہے، افیون کے نشے نے اسے ناکارہ کر دیا ہے، اس کی فکر نہ کر، ہاں بھائی رکاوٹ نہ ڈالے تو ہماری شادی کو کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔
’’تو پھر ملا ہاتھ اور کروعدہ کہ مریں گے تو ساتھ اور جئیں گے تو ساتھ‘‘ سرور نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
’’مریں ہمارے دشمن، رانو نے اس کا ہاتھ لیا، اور پھر جلدی سے چھڑا کر بولی ’’خود بھی مرے گا مجھے بھی مروائے گا، سویرا ہونے میں دیر کتنی ہے، چل اٹھ چلیں، اندھیرا ہمارا رازدار ہے‘‘۔
٭……………٭
دونوں نے ایک دوسرے کو مر مٹنے والی نگاہوں سے دیکھا اور اپنے اپنے راستے پر ہو لئے۔
شیراز نے نفرت اور غصہ سے رانو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’مجھے لگتا ہے تو اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی، تو اس چور ساربان سے اب بھی ملتی ہے‘‘۔
سر جھکائے چپ چاپ بیٹھی رانو ایک دم سے بولی
’’یہ تجھ سے کس نے کہا؟ کسی پیر فقیر یا سادھو سنت نے تیرے کان میں کچھ پھونک دیا ہے‘‘
’’بکواس کرتی ہے میں تجھے ٹوٹے ٹوٹے کر کے پھینک دوں گا‘‘ وہ پھنکارتے ہوئے بولا، اسی اثناء میں ماں اور باپو آ گئے۔
’’اماں اس کو سمجھا لو، یہ ہر وقت میرے پیچھے پڑا رہتا ہے، ایسا نہ ہو میں اپنی جان دے دوں‘‘ رانو منہ بسورنے لگی۔
’’بات کیا ہے؟‘‘ باپو نے پوچھا۔
’’یہ اب بھی اس ساربان سے ملتی ہے‘‘
’’یہ جھوٹ بولتا ہے باپو‘‘
’’باپو! یہ کوئی گل کھلائے گی، ہمیں سر اٹھانے کے قابل بھی نہ چھوڑے گی‘‘
’’اچھا تو جا کام پر دیر ہو جائے گی‘‘ باپو نے اسے ڈانٹا۔
’’ٹھیک ہے باپو میں جاتا ہوں جس دن کوئی چاند چڑھا دیا ناں تو یاد کرے گا‘‘ تو شیراز پاؤں پٹختا چلا گیا۔
’’سر پر چڑھا رکھا ہے تو نے رانو کو‘‘ ماں نے باپ بیٹی کو زہرآلود نظروں سے گھورا اور پھر، بات آئی گئی ہو گئی۔
٭……………٭
اگلے روز ابھی دن چڑھا ہی تھا کہ نذیرے کا کارندہ رانو کے گھر آیا، اﷲ رکھا کو بلایا اور نذیرے کا پیغام دیا کہ آج دوپہر کو اس سے ملے۔ ’’پہنچ جاؤں گا‘‘ اﷲ رکھا نے جواب دیا، کارندہ چلا گیا۔ دوپہر کو رانو کا باپو اﷲ رکھا نذیرے کے ڈیرے پر پہنچ گیا، نذیرا اسے علیحدگی میں لے لیا، ایک نوکر سے چائے لانے کو کہا اور اﷲ رکھا کو مخاطب کر کے کہنے لگا
’’اﷲ رکھا تو جانتا ہے اب تک کتنے پیسے مجھ سے سود پر لے چکا ہے، اور کئی ماہ سے سود بھی نہیں دیا‘‘۔
’’نذیرے بھائی میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں، آپ ہی بتا دو‘‘ اﷲ رکھا نے پوچھا۔
’’تھوڑے تھوڑے کر کے ایک لاکھ لے چکا ہے تو۔ اور سود ملا کر ڈیڑھ لاکھ سے اوپر بنتے ہیں‘‘ نذیرے کے لبوں پر مکروہ مسکراہٹ تھی۔
اﷲ رکھا کا رنگ پیلا پڑ گیا، اتنی رقم وہ لے چکا تھا، جوئے اور افیم نے سارا پیسہ نگل لیا تھا۔
’’نذیرے بھائی! میں تیرے آگے ہاتھ باندھتا ہوں، میرے گھر والوں کو پتہ نہ چلے، میں تیری رقم لوٹا دوںگا‘‘۔ وہ گڑگڑایا۔
’’کیسے لوٹائے گا، تیرے گھر میں تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں، ہاں اگر تو میری ایک بات مان لے تو سارے پیسے چھوڑ دوں گا۔ نذیراصل بات کی طرف آتے ہوئے بولا۔
’’کک، کون سی بات؟ اﷲ رکھا کوتعجب ہو رہا تھا کہ نذیرے جیسا کمینہ اتنی بڑی رقم معاف کرنے کے عوض کون سی بات منوانا چاہتا ہے۔
’’رانو کی شادی مجھ سے کر دے‘‘ نذیرے نے جیسے بم پھوڑ دیا ہو۔ اﷲ رکھا کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔
’’یہ کیا کہہ دیا ہے تو نے نذیرے بھائی‘‘۔
’’اس میں حرج ہی کیا ہے؟‘‘
’’تو میری عمر کا ہے، رانو تو ابھی 25 کی بھی نہیں ہوئی‘‘
’’میں سودا نہیں کر رہا،شرعی بات کہہ رہا ہوں‘‘
’’نہن، نہیں، نہیں، رانو، شیراز، اس کی ماں کوئی بھی میری نہیں مانے گا۔ وہ مجھے گھرسے نکال دیں گے‘‘۔
’’دیکھ لے! سوچ لے، ورنہ ڈیڑھ لاکھ، میرے پاس ایک ایک پیسے کا حساب اور تیرے انگوٹھے لگے کاغذ اورگواہ موجود ہیں‘‘ سب کچھ بیچ کر بھی تو میرے پیسے ادا نہیں کر پائے گا۔
’’میں کچھ سوچتا ہوں‘‘ اﷲ رکھا کے اوسان خطا ہو رہے تھے، پیسے لیتے وقت اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ وقت بھی آئے گا! بیوقوف جانتا نہ تھا نذیرا جس کی گندی نظر ایک عرصہ سے رانو پر تھی وہ تو اسے پھانستا رہا تھا، پیسے بھی دیتا، وہی پیسے واپس لیکر اسے افیم بیچتا، اس کے اڈے پر جوا ہوتا، اور اس سے پیسے لیکر اس کے اڈے پر ہار جاتا‘‘ نذیرا اسے بدھو بناتا گیا اور وہ بنتا گیا۔
’’سن میں تجھے ایک تجویز بتاتا ہوں‘‘ نذیرا کہنے لگا، اﷲ رکھا کے کان کھڑے ہو گئے، نذیرا اسے دھیرے دھیرے کچھ بتانے لگا، وہ سر ہلاتا رہا، چائے پینے کے بعد نذیرے نے چند کاغذ منگوائے جن پر کچھ لکھا ہوا تھا،اﷲ رکھا کو کیا پتہ کہ ان پر کیا لکھا ہے، جہاں جہاں نذیرے نے کہا وہ انگوٹھے لگاتا گیا، بات طے ہو گئی۔ نذیرے نے بوڑھے کو برے طریقے سے پھانس لیا تھا، اسے واپسی کے وقت 5 ہزار روپے دئیے، اﷲ رکھا کے چہرے پر اب اطمینان تھا، غیرت اور بے غیرتی کافرق وہ مٹا چکا تھا، ڈیڑھ لاکھ میں وہ بیٹی بیچ چکا تھا، نذیرے کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔
٭……………٭
معاہدے کے مطابق اﷲ رکھا نے ٹھیک ایک ماہ بعد رانو کو نذیرے کے نکاح میں دے دینا تھا۔
 تین ہفتے آناً فاناً گزر گئے، دسمبر کا آخری عشرہ تھا، رانو، شیراز، اس کی ماں اور باپو روکھی سوکھی کھا چکے تو اﷲ رکھا نے یہ بتا کر سب کو حیران کر دیا تھا کہ اس نے رانو کا رشتہ طے کر دیا ہے اور اسی مہینے کے آخر میں رخصتی ہے، سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا، رانو کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، حوصلہ کر کے بولی باپو! ’’یہ تیرا فیصلہ ہو گا، میرا نہیں، کسی سے شادی نہیں کروں گی میں‘ اس سے تو بہتر تھا تو مجھے دیوار میں چنوا دیتا‘‘۔
’’تو اپنا منہ بندھ رکھ، جو کر رہا ہوں تیرے بھلے کیلئے کر رہا ہوں‘‘ شیراز سے رہا نہ گیا بولا ’’باپو تو نے اکیلے ہی اتنا بڑا فیصلہ کر لیا، کون ہے وہ؟‘‘
’’نذیرا بھٹے والا‘‘۔
سب کو زور کا جھٹکا لگا، ایسے لگا اﷲ رکھا نے نام نہیں بتایا بلکہ ان کو آگ کے الاؤ میں دھکا دے دیا ہو۔
’’باپو! تیرا دماغ تو نہیں چل گیا، اس بدنام زمانہ سے بیٹی بیاہے گا، اس 50 سال کے بھیانک بوڑھے سے، اس منشیات فروش اور سودخور سے‘‘ شیراز سے غصہ ضبط نہیں ہو رہا تھا، ماں اپنے حواس کھو بیٹھی تھی۔ بالآخر حواس میں آتے ہوئے بولی ’’تو میرے سر کا سائیں ہے تو رانو میرا خون ہے، نہ جانے تو کیا کرتا پھرتا ہے، اپنی چارپائی اٹھا اور جا کسی درخت کے نیچے بچھا کر دن رات افیم کھایا کر، دماغ تو تیرا اویسے ہی ٹھکانے پر نہیں ہے، اب جو تو نے رانو کے بارے میں کوئی بات کی تو ہم تجھے اس گھر سے دھکے دے کر نکال دیں گے، شرم نہیں آتی ایسی بات کرتے، دنیا سنے گی تو ہم سب پر تھو تھو کرے گی‘‘۔ ماں نے دل کا غبار نکالا۔
رانو کمرے میں بیٹھی تھی، آنسو رکنے کا نام نہ لے رہے تھے، شیراز نے ایک قہرآلود نظر باپو پر ڈالی اور گھر سے نکل گیا، ماں روکتی رہ گئی، باپ کی اس بے غیرتی پر اسے کسی پل چین نہ آ رہا تھا، جوان خون تھا اسے محسوس ہو رہا تھا کہ غربت سے تنگ باپ کے اس فیصلہ نے زہریلے خنجر کی طرح اس کے دل پر گھاؤ لگایا ہے، اسے کچھ سجھائی نہ دیا تو بے دھڑک، ہر خوف و ڈر کو بالائے طاق رکھ کر نذیرے کے ڈیرے کی طرف چل دیا، دو روز قبل ہونے والی موسلادھار بارش کے باعث ابھی بھی کہیں کہیں کیچڑ تھا، اسے لگا باپو نے رانو، ماں اور اس کے منہ پر بھی بے غیرتی کا کیچڑ مل دیا ہے‘‘۔
نذیرے کے ڈیرے کے مرکزی دروازے پر کھڑے بندوق بردار نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکا،’’ کہاں منہ اٹھائے جا رہا ہے‘؟‘‘۔
’’نذیرے سے ملنا ہے‘‘
’’احترام سے نام لے، چودھری نذیر بول‘‘
’’چودھری ہو گا تمہارا، مجھے کھانے کو نہیں دیتا‘‘
’’جا بول اسے جا کے اﷲ رکھا کا بیٹا آیا ہے‘‘
’’اگر نہ بولوں تو‘‘
’’تو مجھے دوسرا راستہ آتا ہے‘‘ شیراز پھنکارا۔
اس سے پہلے کہ بات بڑھتی ایک کار آ کر رکی، نذیرا بڑی شان سے اترا، ’’کیا لفڑا ہے‘‘؟ اس نے چوکیدار اور شیراز کو تناؤ کی حالت میں دیکھ کر پوچھا۔
’’آپ سے ملنے آیا ہے لیکن بدتمیزی کر رہا تھا جناب! چوکیدار بولا۔
’’یہ وقت تو نہیں ہے کسی سے ملنے کا خیر تو اسے سٹور کے ساتھ والے کمرے میں لے جا‘‘ نذیرا رعب سے بولا۔
’’جا بھئی بیٹھ، میں اپنے مہمانوں کی تھوڑی خاطر داری کر کے آتا ہوں‘‘ نذیر بولا۔
کار میں دو خواتین اور ایک لڑکا پچھلی سیٹ پر براجمان تھے۔ شیراز نے جلتے کڑھتے ایک گھنٹہ انتظار کیا تب نذیرے کو آتے دیکھا۔ اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ کمینہ پی پلا کر آیا ہے۔
’’ہاں بول کیا مسئلہ ہے تیرے ساتھ جو میرا وقت برباد کرنے آ گیا‘‘ نذیرے نے نفرت سے ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہا۔
’’کیا پٹی پڑھائی ہے تو نے میرے باپ کو، کیوں ہمارا آشیانہ جلانے پر تل گیا، کیا بگاڑا ہے ہم غریبوں نے تیرا‘‘ شیراز نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
’’سیدھی بات کر جو میری کھوپڑی میں بھی آئے، بجھارتیں نہ بجھا‘‘ نذیرا بھی ہتھے سے اکھڑ گیا۔
’’تو میری بہن کے قابل ہے؟‘‘ ہم غریب ہیں، بے غیرت نہیں‘‘ معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے تیرے جیسوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ہم، ہماری غربت کو ہماری کمزوری نہ سمجھ، دوبارہ میری بہن کا نام بھی لیا تو بستی والے وہ ہوتا دیکھیں گے جو اس سے پہلے انہوں نے نہ دیکھا ہو گا‘‘ شیراز کا غصہ عروج پر تھا۔
’’ذرا چھری تلے سانس تو لے بچہ‘‘ نذیرے کے بھدے لبوں پر وہی مکروہ مسکراہٹ تھی جو اس کے بدنما چہرے کو اور بھیانک بنا دیتی تھی۔
’’اچھو، اچھو‘‘ اس نے کسی ملازم کو پکارا۔
’’جی مائی باپ‘‘ ملازم بھاگتا ہوا آیا، بات سن، نذیرے نے اس کے کان میں کچھ کہا، وہ چلا گیا، دس منٹ بعد  20,15 کاغذ اٹھائے آ گیا، نذیرے کو تھمائے اور چلا گیا، نذیرے نے وہ کاغذ شیراز کے سامنے میز پر پھینک دئیے اور بولا ’’دیکھ ان کو، پڑھ ان کو، پھر بات کرنا‘‘
’’میں کیا پڑھوں؟ کیا ہے یہ سب؟‘‘ شیراز نے کاغذات کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’تیرا باپ میرا ڈیڑھ لاکھ کا مقروض ہے، اس نے سودا کیا ہے میرے ساتھ، ڈیڑھ لاکھ کے عوض بیٹی کے رشتے کا، نہیں یقین، تو لے جا، کسی وکیل سے پڑھوا لے‘ میں نے کوئی زور زبردستی نہیں کی‘‘ شیراز کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا، اسے اپنا باپ گدھ لگا جو مردار کھاتا ہے۔
’’اگر تم لوگوں کو یہ سب نہیں منظور تو پھر فیصلہ پنچایت میں ہو گا؟‘‘ شیراز کے سینے میں انگارے دھک رہے تھے، دماغ میں خوفناک خیالات کا بسیرا تھا۔
سرور ساربان کو رانو نے ملاقات کر کے سب بتا دیا تھا۔
’’ہم اس بدقماش کے پیسے لوٹا دیں گے‘‘ سرور نے بڑے عزم سے کہا، مجھے گاؤں بدر کرنا بھی اسی سازش کا حصہ تھا، خیر، میں اپنا اونٹ بیچ دوں گا۔ باقی کی ادائیگی کیلئے وقت لے لیں گے‘‘
’’کیا میرے گھر والے تیری اس قربانی کو قبول کر لیں گے، میں مر جاؤں گی، کنویں میں چھلانگ لگا دوں گی، رانو تیری نہیں ہو گی تو پھر کسی کی بھی نہیں ہو گی‘‘ اس کی آنکھیں نم اور لہجہ جذباتی تھا۔
’’پگلی کہیں کی، رب سب کا ہے، کچھ نہیں ہو گا۔میں کچھ نہیں ہونے دوں گا، سرور جان تو دے دے گا لیکن یہ برداشت نہیں کرے گا کہ تیرے وجود کو کوئی اوباش چھوئے‘‘ جا رانو، گھر جا، ہوں تو ساربان لیکن کر دوں گا جان قربان، تیری آن ، بان، شان، مان، سمان پر حرف نہیں آنے دوں گا‘‘۔ وہ جذباتی لہجے میں کہہ رہا تھا۔
٭……………٭
رانو نے گھر آ کر ماں سے بات کی، ماں نے شیراز کو بتایا، تینوں خاموش بیٹھے تھے، اﷲ رکھا نے انہیں جس دلدل میں دھکا دیا تھا وہ اس میں ڈوبنا نہیں چاہتے تھے، بے بسی کی آگ انہیں جھلسائے دے رہی تھی۔ شیراز نے سرور ساربان کی پیشکش پر غور کیا، وہ جانتا تھا کہ سرور اور رانو ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور یہ بھی اسے خوب معلوم تھا کہ سرور میں اس نے کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی تھی، چوری کے الزام میں سرور کو بستی بدر کرنا بھی اب اسے اسی سازش کا ایک حصہ لگ رہا تھا، نذیرے منشیات فروش نے انہیں ایک ایسے جال میں جکڑ دیا تھا بظاہر جس سے رہائی ناممکن نظر آ رہی تھی، لیکن ساربان کا احسان انہیں اس مصیبت سے چھٹکارا دلا سکتا تھا، بالآخر اس نے خود سرور سے ملنے کا وعدہ کیا، اگلے ہی روز وہ سرور سے ملا، سرور نے اسے احترام سے اپنے چھپر نما گھر میں اکلوتی چارپائی پر بٹھایا، محبوبہ کا بھائی آیا تھا، احترام تو واجب ہو گیا تھا،
’’سرور ہوشیار رہنا‘‘ شیراز نے کہا ہمارا واسطہ جن سے پڑا ہے وہ بڑے عیار اور مکار ہیں۔ اپنا اور اپنے اونٹ کا خاص خیال رکھنا۔ وہ اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ پہلے پنچایت ہو جائے، پھر سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے‘‘۔
دونوں کے پیار کا دشمن دوست بن کر آیا تھا، سرور کے دل میں ٹھنڈک سی پڑ گئی تھی، اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب تو خود کو بھی بیچنا پڑا تو بیچ ڈالے گا لیکن شیرازاور اس کے گھر والوں کی ان جرائم پیشہ کے آگے نظریں نہیں جھکنے دے گا، دونوں نے کچھ اہم فیصلے کئے اور شیراز گھر چلا آیا۔
٭……………٭
دسمبر کی 28 تاریخ تھی، دھوپ نے ہر چیز کو روشن کر رکھا تھا لیکن دل سیاہ تھے تو ان کے جو سر پنچ اور اس کے ساتھی تھے، جنہوں نے من مرضی کا فیصلہ ٹھونس کر غریب کی عزت کو اپنے کوٹھوں کی زینت بنانا تھا، غلیظ لوگوں کی کوٹھیاں بھی کوٹھے ہی ہوتے ہیں، جہاں وہ خود بھی غلاظت کا ناچ ناچتے ہیں اور دوسروں کا تماشہ بھی دیکھتے ہیں۔
منظر چودھری کی کوٹھی کا لان تھا، دسمبر کی دوپہر کی دھوپ سکون دے رہی تھی، لان میں 2کرسیاں، ایک بنچ، تین چارپائیاں بچھی ہوئی تھی۔ ایک کرسی پر چودھری فواد بڑے طنطنے سے پھیل کر بیٹھا تھا، دوسری کرسی پر بستی کا نام نہاد معزز بوڑھا بیٹھا تھا۔ سب جانتے تھے کہ وہ چودھری کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے، بنچ پر نذیر کے حواری اور ایک چارپائی پر شیراز اس کا باپ اور ان کے دو تین حامی بیٹھے تھے۔ بستی کے کچھ لوگ آلتی پالتی مارے گھاس پر بیٹھے تھے۔
’’ہاں تو نذیر بتا کیا معاملہ ہے؟‘‘ چودھری نے پنچایت کا آغاز کیا۔ نذیر نے اﷲ رکھا کے وقتاً فوقتاً ڈیڑھ لاکھ قرض لینے، اور پھر قرض معافی کے عوض بیٹی کا نکاح اس سے کرنے کی تفصیل بتا دی، ساتھ ہی کاغذوں کا ایک پلندہ بھی چودھری کے آگے رکھ دیا۔
’’اﷲ رکھا تم کیا کہتے ہو؟‘‘ وہ کیا کہتا، خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھا رہا، شیراز باپ کے دفاع میں بولا ’’چودھری صاحب! ہمارے باپو سے جوکرتوت سرزد ہوئے، اس کی سزا اولاد کو کیوں دی جائے، باپو نے سب قبول کر لیا، ہم اس کا اعتراف کرتے ہیں، اس کے ساتھ ایک التجا کرتے ہیں‘‘
’’بولو، کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ چودھری نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ ہم نذیرے کے ڈیڑھ لاکھ لوٹا دیں گے‘ اپنی بہن فروخت نہیں کریں گے‘‘
’’کیسے لوٹاؤ گے؟‘‘
’’ہمیں ایک ماہ کا وقت دیدیں‘‘
’’نذیرے تم کیا کہتے ہو؟‘‘
’’چودھری صاحب ایک ماہ بہت زیادہ ہے‘ یہ میری رقم لوٹا دیں، میں ان کو معاف کر دوں گا لیکن ایک شرط پر‘‘۔
’’ٹھیک ہے اپنی شرط بتاؤ‘‘
’’انہیں ادائیگی کے بعد یہ بستی بھی چھوڑنا پڑے گی ورنہ کسی بھی وقت کوئی لفڑا ہو جائے گا‘‘
’’تم انہیں کتنے دن کی مہلت دینا چاہتے ہو؟‘‘
’’صرف 5 دن‘‘
’’یہ ظلم ہے، صرف 5 دن‘‘ شیراز کا ایک حامی بولا۔
’’مدعی 5 دن کا کہتا ہے اور ملزم ایک ماہ مانگتے ہیں‘ تو فیصلہ ہم کر دیتے ہیں‘‘ چودھری بولا
’’آپ سرپنچ ہیں، آپ کا فیصلہ سب کو قبول ہو گا‘‘ عدم قبولیت پر وہ سزا کا حق دار ہو گا‘‘ ملی جلی آوازیں گونجیں۔
’’ٹھیک ہے! 10 دن کا وقت دیتا ہوں، اﷲ رکھا کے گھر والے اس دوران رقم کا بندوبست کر لیں بصورت دیگر اسی سودے پر عملدرآمد ہو گا جو اﷲ رکھا نذیرے سے کر چکا ہے‘‘ چودھری نے کمینگی کا مظاہرہ کر دیا۔ طوہاً کرہاً یہ فیصلہ سب کو قبول کرنا پڑا، پنچایت ختم ہو گئی۔
چودھری اور نذیرے نے گہری چال چلی تھی، 10 دن میں وہ ڈیڑھ لاکھ تو کیا 10 ہزار کا بندوبست بھی نہ کر سکتے! سراسر گھاٹے کا فیصلہ تھا، فریقین میں ایک کادل بلیوں اچھل رہا تھا اور دوسرا پریشانیوں کی مالا گلے میں ڈالے، کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھر آ گیا۔
٭……………٭
سرور نے رانو کو سختی سے منع کر دیا تھا کہ اگلے 10 پندرہ روز کہیں نہیں آئے جائے گی، رانو نے اس کے ہاتھ کو بوسا دے کر وعدہ کیا تھا کہ جیسے وہ کہے گا اسی طرح کرے گی، اس نے چھپ کر کانچ کی ایک بوتل کہیں سے ڈھونڈ کر اسے توڑا اور کمرے میں کپڑوں کے نیچے چھپا دیا تھا۔ اس کے پیچھے اس کی یہی سوچ پنہاں تھی کہ اگر برا وقت نہ ٹلا تو اپنی جان تو لے ہی سکتی ہے، عزت گنوانے سے بہتر ہے سرور اور گھر والوں کو ایک بے جان جسم دے جائے جس پر گندگی کا ایک دھبہ بھی نہ ہو، اجلے کفن میں اجلا جسم ہی اس کے گھر والوں کی عزت کو قائم رکھ سکتا تھا۔
٭……………٭
آج پھر بادل جوبرسے تو رکنے کا نام نہ لیا، جگہ جگہ کئی فٹ پانی جمع ہو گیا، غریبوں کے جھونپڑے اور مکان ٹپک پڑے، نذیرا ایک کمرے میں بیٹھا کھڑکی کھولے موسم سے لطف اندوز ہو رہا تھا، ام الخبائث بھی پاس پڑی تھی، اس کا سر چڑھا گرگا لطیف بھی قریب بیٹھا تھا۔ اس کے پاؤں دبا رہا تھا،
’’سائیں! بڑی زوردار تجویز ہے میرے ذہن میں، سانپ بھی مر جائے گالاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی‘‘
’’اگر تیرا مشورہ کام کا نہ ہوا تو لاٹھی ٹوٹے نہ ٹوٹے تیرا ایک آدھ ہاتھ پیر ضرور توڑ دوں گا‘‘ نذیرا ترنگ میں بولا۔
’’سائیں، سننے سے پہلے تو سزا نہ سنائیں‘‘ وہ گڑگڑایا۔
’’اچھا اب بک جو بکنا ہے‘‘
’’نہ سائیں، دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں‘‘ پھر وہ نذیرے کے قریب ہوا اور بڑبڑانے لگا۔
’’شاباش او لطیفے‘‘ نذیرے نے زور کا ہاتھ اس کی پیٹھ پر مارا۔ محبت کے اس تھپڑ سے لطیف زمین پر گرتے گرتے بچا۔
واہ سائیں، تیریاں تو ہی جانے‘‘ نذیرے نے اسے سوکا ایک نوٹ دیا اور حکم دیا پاؤں ذرا زور سے دبائے۔
٭……………٭
سرور اور شیراز میں پھر ایک طویل ملاقات ہوئی، دونوں اونٹ لیکر منڈی گئے، 90 ہزار ریٹ لگا، دونوں بیوپاری سے سوچ بچار کا وقت لیکر واپس آ گئے، شیراز اپنے مالک کے پاس بھی گیا، اسے تمام بات بتا دی، مالک نے رحم کھاتے ہوئے اسے 10ہزاربطور قرض دینے کا وعدہ کیا، جو اس کی تنخواہ میں سے کٹتا رہے گا۔ ایک لاکھ ہو چکے تھے، 50ہزار کے بندوبست کی کہیں آ س امید نظر نہیں آ رہی تھی، لوہے کو لوہا کاٹتا ہے، سازشیوں کو سازش سے مات دی جاتی ہے، دونوں نے گھنٹوں کی ملاقات میں ایک بے عیب منصوبہ بنایا جس پر مشکل ترین وقت میں عمل کرنا تھا۔ کھولتا ہوا جوان لہو اور غربت، تخریب کاری کو جنم دے رہی تھی، چودھری فواد یا نذیرا بدمعاش، دونوں میں سے کسی ایک کو اس جوڑی کے ہاتھوں لٹنا تھا، لیکن یہ سب انہوں نے رانو سے پوشیدہ رکھا تھا۔
٭……………٭
ادھر دارو کے دھندے کا بادشاہ نذیرا اﷲ رکھا سے ایک خفیہ ملاقات کر رہا تھا، اس نے 10ہزار اﷲ رکھا کے ہاتھ پر رکھے، آنے والے وقت میں اس کے نشہ پانی کا وعدہ کر کے محلول سے بھری چھوٹی سی شیشی اسے دی۔ اﷲ رکھا سر ہلاتا رہا اور شیشی دھوتی کی ڈھب میں مضبوطی سے اُڑس لی اور گھر کی راہ لی۔
٭……………٭
رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی، ایک کمرے میں شیراز، رانو، ان کی ماں بے سدھ سو رہے تھے دوسرے اندھیرے کمرے میں اﷲ رکھا جاگ رہا تھا، لالچ اور بے غیرتی کے نشے نے نیند کو اس کی آنکھوں سے کوسوں دور بھگا رکھا تھا، وہ ننگے پاؤں چارپائی سے اترا، آواز پیدا کئے بغیر دوسرے کمرے کا دروازہ ہلکے سے کھولا، شیشی والا سارا محلول وہ رات کو سالن میں انڈیل چکا تھا۔ بہانے سے اس نے کھانا نہیں کھایا، جن تینوں نے کھایا تھا، وہ بے ہوشی کے عالم میں پڑے تھے، چند منٹوں کے بعدبیرونی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی، اﷲ رکھا دھیرے سے بیرونی دروازے پر گیا، کواڑ کھولے، ڈھاٹا باندھے چار آدمی کھڑے تھے۔
’’سب ٹھیک ٹھاک ہے‘‘ وہ بولا، میں کمرے میں جا رہا ہوں، تم بھی اپنا کام کر کے نکلنے کی کرنا، کوئی دیکھ نہ لے۔
چاروں اندر آ گئے، ایک ہٹے کٹے آدمی نے آگے بڑھ کر رانو کو کندھے پر ڈالا۔ پھر وہ دبے پاؤں گھر سے نکل گئے، لالچ کی پٹی اﷲ رکھا کی آنکھوں سے نہ اتر سکی تھی۔ اس نے ایک لاکھ 60 ہزار میں رانو کو نذیرے کی’’ دلہن‘‘ بنا کر رخصت کر دیا تھا۔
٭……………٭
رانو کو ہوش آیا تو وہ یکبارگی تڑپ کر اٹھ بیٹھی، حواس ذرا ٹھکانے پر آئے تو ماحول کو پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ یہ ایک سجا سجایا کمرہ تھا، اس نے بار بار آنکھوں کو ملا، وہ بدبدائی ’’یہ کیسا سپنا ہے مالک‘‘ اور پھر دم بخود رہ گئی نذیرا اس کے سامنے ہی کمرے کے کونے میں کھڑا اسے تکے جا رہا تھا وہ مکروہ ہنسی ہنسا۔
’’چیخنے چلانے سے کچھ نہیں ہو گا‘‘ اس نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا، تیرے باپو نے تجھے مجھ سے بیاہ دیا ہے، نوٹ کھرے کئے ہیں اس نے، تو میری زرخرید ہے، رانو لرز کہ رہ گئی، سہمی نظروں سے نذیرے کی طرف دیکھ کر گھگیاتے ہوئے کرب کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر بولی
’’میرے کو چھوڑ دے چاچا، تم میرے باپ کی عمر کے ہو، جانے دے مجھے، زندگی بھر تیرا احسان نہیں بھولوں گی، رحم کر میرے پر، ترس کھا مجھ بدنصیب پر‘‘۔
’’پاگل تو نہیں ہو گئی، کب سے تیرے لئے تڑپ رہا ہوں، ہاتھ آئی لکشمی کو جانے دوں‘‘ وہ شیطانی ہنسی ہنستا ہوا اس کی طرف بڑھا۔
’’ساربان کی دلہن بننا چاہتی تھی نا، سب جانتا ہوں، آج ہم دونوں سہاگ رات منائیں گے‘‘
’’دور ہٹ‘ رانو کی آنکھوں میں خون اتر آیا، میں سرور کے لئے جان پہ کھیل جاؤں گی‘‘
وہ پیچھے ہٹ رہی تھی لیکن نذیرا نشے میں دھت آگے بڑھ رہا تھا۔
’’تو میری بیوی ہے، نکاح بھی ہو جائے گا‘‘، وہ بہکی بہکی باتیں کرتا رانو کے نزدیک ہوتا چلا گیا۔
بس اور آگے نہ بڑھنا، خدا قسم……
’’چپ رہ کمی کمین‘‘ جابر، ظالم، بدمعاش نذیرا اسے اپنی جانب گھسیٹتے ہوئے بولا، دور دور تک تیرا نوحہ سننے والا کوئی نہیں، رانو نے اسے زور کا دھکا دیا اور دروازے کی طرف لپکی، دروازہ باہر سے بند تھا، وہ گھبرا کر زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی، کھولو دروازہ کھولو، خدا کے لئے، رحم کرو، دروازہ کھولو‘‘ وہ چیخ رہی تھی، لیکن صدا بہ صحرا، اس کی آواز کون سنتا، وہ تو آبادی سے دور ایک بھٹہ خشت پر ایک کمرے میں تھی، جہاں دور دور تک آبادی کا نام و نشان نہ تھا، وہ بھاگ جانے کی جدوجہد میں پاگل ہوئی جا رہی تھی کہ پیچھے سے نذیرے نے دبوچ لیا، دونوں میں دھینگامشتی شروع ہو گئی، رانو نے بھی جان پر کھیلنے کا فیصلہ کر لیا، نذیرے نے تیز پھل والا چاقو نکالا اور اس کی نوک رانو کے سینے میں چبھو دی، رانو کے منہ سے سسکاری نکل گئی۔
’’سیدھی طرح بات مانتی ہے یا اتاروں چاقو سینے میں‘ وہ گرجا۔
’’مر جاؤں گی لیکن اپنی عزت پہ حرف نہیں آنے دوں گی‘‘ وہ حلق پھاڑ کر چیخی۔
’’چپ رہ‘‘ نذیرے نے چاقو پر تھوڑا سا دباؤ بڑھایا، ساتھ اس کے گال پر زور سے گھونسا مارا‘‘۔
رانو نے دانت بھینچ کر ایک زوردار دھکا دیا، نذیرا چھرے سمیت دور جا گرا، رانو بھوکی شیرنی کی طرح اس پر جھپٹی، اس کھینچاتانی میں چاقو رانو کے ہاتھ لگ گیا، اس نے ایک پل ضائع کئے بغیر پورے زور سے چاقو اس کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ایک دل دوز چیخ، خون کا ابلتا فوارہ، رانو نے اس پر ہی بس نہ کی چاقو نکالا اور اس کے سینے میں گھونپ دیا، دو تین وار کئے، نذیرے کا سینہ چاک ہو گیا، کسی ذبح ہوتے بکرے کی طرح ڈکراتا، ہاتھ پاؤں مارتا، لوٹنیاں لگاتا زندگی کی بازی ہار گیا، کمرے کا دروازہ زور زور سے پیٹا جانے لگا، رانو بھی خون میں لت پت تھی۔
’’کون ہے اندر، دروازہ کھولو، دروازہ اب پیٹ جانے لگا‘‘ رانو نے چیختے ہوئے کہا دروازہ باہر سے بند ہے، میں یہاں قید ہوں، پھر دروازہ باہر سے کھلا، چار پولیس والے اندر گھس آئے، ان کے ہاتھوں میں ٹارچیں تھیں، اندر کا منظر دیکھ کر ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’کون ہو تم؟ یہ کون ہے؟‘ کس کو قتل کر دیا‘‘ ایک پولیس والا بولا، پتہ نہیں وہ رات کو گشت پر تھے یا پھر نذیرے کی حفاظت پر مامور تھے۔ حالات بگڑتے دیکھ کر آ دھمکے تھے، لیکن نقشہ بدل چکا تھا۔
’’یہ میری عزت لوٹنے کی کوشش کر رہا تھا، چھرے کی نوک میرے کلیجے پر رکھ کر مجھے برباد کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنی آبرو بچانے کے لئے اسی بدقماش کا اسی کے چھرے سے انت کر دیا‘‘ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
٭……………٭
رانو کی ساری، امنگیں، آرزوئیں اور تمنائیں خاک اور خون میں لتھڑ کر رہ گئیں، اس کی مسرتوں پر اس کے بے رحم باپ کی کمینگی کا کفن پڑ چکا تھا۔ پولیس نے 302 کا کیس بنا دیا، سرور، شیراز، اس کی ماں، آنکھوں میں آنسو اور چہروں پر بدحواسیاں لئے بیٹھے تھے، رانو ملزموں کے کٹہرے میں بت بنی کھڑی تھی۔
سرکاری وکیل نے جرح شروع کی۔
’’تم نے نذیر احمد کو جان بوجھ کر قتل کیا‘‘
’’اس کا جواب میں دے چکی ہوں، رانو نے اسے نفرت سے دیکھا، بار بار مجھ کو کیوں دکھ دیتے ہو۔
’’تم نے قانون کو کیوں ہاتھ میں لیا‘‘
’’قانون تب کہاں تھا جب وہ مجھے اپنے ہاتھوں میں لے رہا تھا‘‘
’’یہ میرے سوال کا جواب نہیں‘ ‘تم نے ایک انسان کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں، تم نے بہت بڑا جرم کیا، قانون اور انصاف کی توہین کی‘‘، سرکاری وکیل دلائل کم دے رہا تھا گرج زیادہ رہا تھا، شاید چودھری فواد نے اچھی خاصی ’’سرمایہ کاری‘‘ کی تھی، اس سے قبل کہ وکیل وہی گھسے پٹے دلائل دہراتا رانو پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی اور بولی
’’حضور! بڑے صاحب، مائی باپ، میں غریب، ان پڑھ، جاہل، قانون تو نہیں جانتی، لیکن جب مجھ پر ظلم ہو رہا تھا، جب ایک بھیڑیا میرے جسم پر اپنے پنجے گاڑنے والا تھا، اس وقت یہ پولیس والے کہاں تھے؟ جب مجھے اغوا کیا گیاتب یہ کہاں تھے؟ میری عزت کا جنازہ نکلنے لگا تو یہ کہاں گشت کر رہے تھے؟ میں چیخی، چلائی، دہائی دی، لیکن اس منشیات فروش، عورتوں کے شکاری اور بیوپاری کو رحم آیا نہ کسی نے میری چیخ و پکار پر کان دھرے‘ جب اس بھیڑیے نے میرے سینے میں چاقو کی نوک چبھوئی تو میری سسکاریاں کسی نے نہیں سنیں، کمرہ اندر سے نہیں باہر سے بندھ تھا، میرا وار چل گیا، میں نے اس ناسور کو ختم کر دیا تو پولیس بھی عین اسی وقت ’’انصاف کا علم‘‘ بلند کرنے آ پہنچی۔ اگر کمرہ اندر سے بند ہوتا تو میں اس کو قتل نہ کرتی بلکہ بھاگ نکلتی۔ یہ پولیس والے بھی اس سے ملے ہوئے تھے، صاحب! مائی باپ، انصاف آپ کریں۔ میں نے اپنی آبرو بچائی ہے، اپنے دفاع میں وار کیا تھا ۔ حضور! شاید آپ کو میری بات بری لگے، اگر ان پولیس والوں کی بہن بیٹی یا آپ میں سے کسی کی آبرو کسی غنڈے کے ہاتھوں پامال ہو تو کیا آپ خاموش بیٹھے رہیں گے، قانون کی مدد کا انتظار کریں گے؟ بتائیں حضور؟‘‘ عدالت میں جیسے سب کوسانپ سونگھ گیا تھا، اس سے پہلے کہ سرکاری وکیل کچھ بولتا وہ پھر دکھی لہجے میں بولی اگر سزا دینی ہے تو میرے اس پاپی باپ کو دو اور دنیا کے ایسے تمام باپوں کو سولی چڑھا دو جو اپنی بیٹیوں کا سودا کرتے ہیں‘‘ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔
’’آرڈر آرڈر……‘‘ جج نے سب کو متوجہ کیا اور کہا کہ’’ کیس کی باقاعدہ سماعت سے قبل ملزمہ کو وکیل کرنے کا قانونی حق ہے‘‘۔
لیکن حضور! اپنے گھر میں تو ایک روز کھانا پکتا ہے اور دو روز پیاز یا گڑ سے روٹی کھانا پڑی ہے‘‘ وہ جج سے مخاطب تھی۔
’’اگر تم وکیل نہ کر سکی تو ریاست تمہیں وکیل فراہم کرے گی، جج نے اسے 14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت برخاست کر دی‘‘۔
لیڈی پولیس نے اسے ہتھکڑی پہنائی اور جیل پہنچانے کے لئے گاڑی کی طرف لیکر چل پڑی، اسی دوران جب ضروری قانونی کارروائی ہو رہی تھی تو ماں اور بھائی شیراز کو اس سے بات کرنے کا موقع مل گیا، رانو فکر نہ کرنا، ہم وکیل کریں گے چاہے کچھ بھی ہو، ایک کونے میں سرور کھڑا تھا اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں، وہ ٹکٹی باندھے رانو کو تکے جا رہا تھا، وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ وکیل کیسے کرنا ہے؟، بستی میں یہ بات پھیلی تو سب غنڈے نذیرے پر تھو تھو کر رہے تھے اور رانو کے بہادری کے گن گا رہے تھے، ایک شیطان سے سب کو امان مل گئی تھی، اگر کوئی بحالت مجبوری چہرے مہرے سے خوشی کا اظہار نہیں بھی کر رہا تھا تو دل میں ضرور خوش تھا کہ ایک گناہگار سے تو مکینوں کو نجات ملی۔
٭……………٭
آپا رانو کی کانٹوں بھری کہانی سن کر دل میں بہت دکھ محسوس کر رہی تھی، نہ جانے روزانہ حوا کی کتنی بیٹیاں، کاروکاری، کالا، کالی، ونی اور دیگر مکروہ رسموں کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں، وہ دل میں اٹل فیصلہ کر چکی تھی کہ رانو کو ہر صورت باعزت بری کرائے گی، وہ سمجھ گئی تھی کہ کیس بہت کمزور ہے، اس نے اپنے دفاع میں قتل کیا تھا، اغوا بھی ملزم نے کیا، ٹھکانہ بھی اس کا، مجرمانہ حملہ بھی اس نے کیا، دروازے کی چٹخنی بھی باہر سے اس نے لگوائی، ایک دو چھتر تھانے میں لگتے تو اس کا باپ بھی سب بک دیتا کہ اس نے نذیرے سے مل کر کیا گل کھلایا تھا، اگلے روز آپا نے ایک طویل خط لکھا اور رانو کے حوالے کرتے ہوئے اسے سمجھا بھی دیا کہ شیراز اور سرور کو کیا کہنا ہے۔
٭……………٭
ایک دو روز بعد شیراز، اس کی ماں اور سرور تینوں اس سے ملاقات کو آئے، رانو نے حال احوال کے بعد وہ خط انہیں دیا اور انہیں سب سمجھا بھی دیا، یہ آپا کا جیل میں اثرورسوخ ہی تھا کہ خط لکھنے سے پہنچانے تک کوئی ملازمہ رکاوٹ نہیں بنی تھی، دوسرے روز ہی بہاولپورکی ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم کے وکیل نے جیل پہنچ کر وکالت نامے پر اس کے انگوٹھے لگوائے۔
کیس کی باقاعدہ سماعت کے پہلے ہی روز رانو کے وکیل کے سامنے سرکاری وکیل کی ایک نہ چلی، عدالت نے پچاس پچاس ہزار کے مچلکوں کے عوض اس کی ضمانت منظور کر لی، اس روز سبھی خوش تھے، بس ایک معمہ تھا تو آپا کاکر دار؟ اسی روز روبکار جیل پہنچی اور شام کو اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
٭……………٭
دن ڈوب چکا تھا، ملتان جیل سے رہائی کے بعد وہ اڑھائی سے تین گھنٹے وکیل کی کار میں سفر کر کے بستی پہنچے تھے۔ ایک پرچہ نذیرے اور رانو کے باپ کے خلاف بھی درج ہو چکا تھا۔ پولیس نے بہت کوشش کی تھی کہ یہ ایف آئی آر درج نہ ہو لیکن رانو کے وکیل ارشد ایڈووکیٹ نے عدالت سے رجوع کیا، عدالت کے حکم پر نذیرے کے خلاف اغوا، حبس بے جا، قتل کی کوشش، عزت لوٹنے کا مقدمہ درج ہوا اور رانو کے باپ کے خلاف نذیرے کا ساتھ دینے، ان سب کو کھانے میں بے ہوشی کی دوا دینے اور بیٹی بیچنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔
چودھری فواد نے اس دوران کئی رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن جب اس نے دیکھا کہ ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم کی لیگل ٹیم سارے معاملے کو دیکھ رہی ہے تو اس نے دم دبا کر روپوش ہونے میں عافیت سمجھی۔ اس لیگل ٹیم نے رانو سے مشورہ کیا تھا کہ وہ لوگ چاہیں تو اس معاملے میں نام نہاد سرپنچ چودھری فواد کو بھی گھسیٹ لیتے ہیں، لیکن رانو نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس کے کرموں کی سزا رب اسے دے گا، ایک نہ ایک روز وہ ضرور رب کی پکڑ میں آئے گا، رانو کے باپ کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھا، اسے بھی اس کے سیاہ کرتوتوں کی سزا ملنی ہی چاہیے تھی۔
٭……………٭
بمشکل چار پیشیوں کے بعد عدالت نے رانو کو باعزت بری کر دیا۔ سبھی کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ ماں نے رانو کو گلے لگا کر اس کا ماتھا چوما، شیراز نے بھی بہن کا ماتھا چومتے ہوئے کہا تو ایک بہادر بہن ہے، ہمیںتم پر ناز ہے۔ جان پر کھیل گئی لیکن عزت پہ حرف نہ آنے دیا، پھر ازراہ مذاق کہنے لگے بیچارے سرور کا اونٹ دو بار بکتے بکتے بالآخر بچ ہی گیا، رانو کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔ سرور نے نظریں جھکا لیں۔ اس کے من میں لڈو پھوٹ رہے تھے کہ اب اسے اور رانو کو ایک ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
٭……………٭
کوئی ایک ماہ بعد رانو نے ماں، بھائی اور سرور کو ساتھ لیا، ملتان جیل میں آپا سے ملاقات کرنے، شکریہ ادا کرنے اور لڈو دینے گئی، جیل انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہاں تو آپا نام کی کوئی قیدی یا حوالاتی نہیں۔
’’میرے ساتھ ہی تو 6 نمبر بیرک میں تھی‘‘۔ رانو حیرت سے بولی۔
’’لیکن اب نہیں ہے‘‘ جیل ملازمہ کا جواب تھا۔
’’میں آپا کی بات کر رہی ہوں‘‘ رانو کو شدید حیرت ہورہی تھی۔
’’میں آپا ثمر کی بات کر رہی ہوں‘‘ رانو ملاقات پر بضد تھی۔
’’تھوڑی دیر بعد جیل ملازمہ واپس آئی اور کہا
’’آپا ثمر اب جیل میں ہے نا اس دنیا میں‘‘
’’ان تینوں کو حیرت کا جھٹکا لگا، رانو کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔
پھر تینوںاداسی کے عالم میں اپنی کچی بستی کی جانب لوٹ گئے، رانو محسوس کر رہی تھی آپا کو وہ کبھی نہیں بھول پائے گی، آپا نہ ہوتی تو نہ جانے وہ کہاں ہوتی۔
تحریر:۔ وسیم بن اشرف
نیوز ایڈیٹر… روزنامہ ’’دنیا‘‘
’’دنیا نیوز چینل۔ 948۔ سرور روڈ کلمہ چوک ملتان
 - 0300-6347346

Comments

Popular posts from this blog

اردو ناول کا ارتقا

اردو محاورے۔۔۔۔۔۔ وسیم بن اشرف

واٹس ایپ کی سرجری۔۔معلومات ہی معلومات