’’مجاہد‘‘
تحریر:۔ وسیم بن اشرف،
   

وہ کچھ کر دکھانے کا عزم لیکر فوج میں بھرتی ہوا تھا، لیکن تقدیرکا لکھا، بدلنا انسان کے بس میں نہیں، بندہ جو سوچتا ہے وہ ہوتا نہیں، اور جو ہورہا ہوتا ہے وہ اسنے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا، سائمن کے ساتھ بھی وقت نے عجیب کھیل کھیلا تھا، اس کے سہانے سپنے سچ ہونے کے بجائے، زنگ زدہ ہو کر رہ گئے، ساری نوکری اردلی کے طور پر گزار کر ریٹائر ہو گیا، اسے عضو معطل کی طرح فوج سے علیحدہ کر دیا گیا، 9 سال قبل جب اس کی رجمنٹ ترک فوج کے ساتھ برسرپیکار تھی تو وہ ایک افسر کا اردلی تھا، بارش کی طرح برستی گولیوں میں وہ روزانہ تین بار کھانا لیکر اپنے افسر کے پاس جاتا، کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ اس نے ناغہ کیا ہو، فرض شناسی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، جب تک جنگ رہی وہ اپنے افسر کے ساتھ رہا، برستی آگ اور بہتے خون میں بھی اس کے استقلال و استقامت میں کبھی لغزش نہ آئی، جنگ و جدل کے میدان کی تمام سختیاں برداشت کرتا رہا، تیر کی طرح چبھتی دھوپ نے اس کا چہرہ جھلسا کر رکھ دیا تھا اور یخ بستہ شب و روز نے اس کے خون کی حرارت چھین لی تھی، جب وہ فوج سے ریٹائر ہو کر اپنے گاؤں آیا تو وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا، اسے گٹھیا کا مرض بھی لاحق ہو چکا تھا، وہ اس قابل بھی نہیں رہا تھا کہ آبائی کھیتوں پر محنت و مشقت سے پیٹ کا جہنم سرد کر سکے، نہ چاہتے ہوئے بھی میاں بیوی نے اپنے گاؤں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرباد کہنے کا فیصلہ کر لیا، تلاش معاش میں دونوں خرسان چلے آئے روزی روٹی کا بندوبست نہ ہوا تو پریشانیوں نے بوڑھے وجود پر پنجے گاڑھ لئے، ناچار سائمن نے بیوی کو ایک تاجر کے ہاں گھریلو کام کاج کے لئے چھوڑ دیا اور خود کسی موزوں کام کیلئے رخت سفر باندھا، دوران سفر ایک ریلوے سٹیشن پر سائمن کو جانا پہچانا چہرہ نظر آیا، آنکھیں چار ہوئیں تو دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا، یہ سٹیشن ماسٹر تھا جو سائمن کی رجمنٹ میں افسر رہ چکا تھا۔
’’کیا تم سائمن ہی ہو‘‘؟
’’جی جناب‘‘
’’یہاں کیسے آنا ہوا؟‘‘
سائمن نے تمام حالات بتا دئیے۔
’’تو اب کہاں کا قصد کئے ہوئے ہو؟‘‘
’’میں تو خود بھی نہیں جانتا جناب کہ میری منزل مقصود کہاں ہے؟‘‘
’’بیوقوف‘‘
’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں جناب، زندہ رہنے کے لئے کام کی ضرورت ہے، جیسا بھی ہو جہاں بھی مل جائے‘‘
’’اچھا تو تم یوں کرو اپنی بیوی کو بھی بلا لو، یہاں ایک گینگ مین کی جگہ خالی ہے، پھر سٹیشن ماسٹر نے اس کی امید بندھائی۔’’میں متعلقہ افسر سے بات کر کے یہ نوکری تمہیں دلوانے کی کوشش کرتا ہوں، کام بن جائے گا‘‘۔پندرہ روز بعد اس کی بیوی بھی آ گئی اور وہ دونوں ایک ٹرالی میں بیٹھ کر (جو پٹڑی پر دھکا لگانے سے چلتی ہے) اپنے سرکاری کوارٹر میں پہنچ گئے۔
٭……………٭
اس کا کوارٹر ایک ریلوے سٹیشن سے 10 میل دور دوسرے سٹیشن سے 12 میل کی مسافت پر دونوں سٹیشنوں کے درمیان ریلوے لائن کے ساتھ ہی تھا، دو میل کے فاصلے پر گھنا جنگل تھا جس کے پار ایک فیکٹری کی بلند و بالا چمنی اس کے کوارٹر میں جھانکتی محسوس ہوتی تھی، بطور گینگ مین اس کو جس سامان کی ضرورت تھی وہ اسے فراہم کر دیا گیا مثلاً جھنڈیاں، ہتھوڑا، بگل، ریلوے ٹائم ٹیبل اور وہ تمام اشیاء جو دوران ڈیوٹی اس کے کام آ سکتی تھیں، اس کو اپنے منحنی وجود میں طاقت کی رمق سی محسوس ہوئی، دلجمعی اور جوش و خروش سے اس نے اپنا کام شروع کر دیا، اس نے اپنے کام میں اس قدر دلچسپی لینا شروع کر دی کہ ٹرین کی آمد سے 2 گھنٹے قبل ہی کوارٹر سے نکل پڑتا، اپنے علاقے میں ریلوے لائن کا بغور معائنہ کرتا اور جب سب ٹھیک محسوس ہوتا تب مطمئن ہوتا، وہ ریل کی پٹڑی سے کان لگا کر آنے والی ٹرین کی گونج سنتا، یہ گونج نغمہ بن کر اس کی سماعت کو لطف پہنچاتی۔
کچھ روز گزرنے کے بعد سائمن نے سوچا پڑوس میں بھی تعلقات بنانے چاہئیں، اس کے ہمسائے بھی دو گینگ مین ہی تھے جن کے علاقے اس کا سیکشن ختم ہونے کے بعد دونوں طرف شروع ہوتے تھے، ایک جانب تو ایک ضعیف شخص تھا جو شاذونادر ہی اپنے کوارٹر سے نکلتا تھا۔ اس کی بیوی کام میں اس کا ہاتھ بٹاتی تھی، افسران بالا سوچ رہے تھے کہ چونکہ اب وہ ضعیف ہو چکا ہے اسے ملازمت سے سبکدوش کر دیا جائے، دوسری جانب گینگ مین ینگ مین ویزلی کا کوارٹر تھا، کم گو اتنا جیسے منہ میں زبان نہ ہو اور ہمیشہ اپنے خیالات میں یوں کھویا رہتا جیسے سارا مال و متاع کھو کر پانے کی سوچ میں ہوش کھو بیٹھا ہو، سائمن اکثر اس سے ملتا، اس کو اپنے گاؤں کی تاروں بھرے آسمان کے نیچے گزری راتوں کی باتیں اور جنگ و جدل کے قصے سناتا، ویزلی سنتا رہتا مگر بولتا بہت کم، اور جب لب کھولتا تو سائمن اس کی گنجلک باتیں سمجھنے سے قاصر رہتا۔ ایک دن دونوں پٹڑی پر بیٹھے محو گفتگو تھے۔
’’میری زندگی کانٹوں کی سیج ہے، کبھی راحت ملی نہ چاہت، شاید خدا کی یہی مرضی ہے، تقدیر سے کون لڑ سکتا ہے‘‘ سائمن نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’یہ تقدیر کیا بلا ہے‘‘ ویزلی پٹ سے بولا ’’سائمن تقدیر کوئی چیز نہیں، تقدیر ہمارا تعاقب نہیں کر رہی بلکہ یہ ہم ہی ہیں جو غیر محسوس طریقے سے ایک دوسرے کے تعاقب میں لگے ہوئے ہیں، برا نہ ماننا، اس روئے زمین پر انسان سے زیادہ خونخوار اور ظالم جانور کوئی نہیں، بھیڑیا کبھی بھیڑئیے کو نہیں کھاتا، لیکن میں ثابت کر سکتا ہوں کہ انسان انسان کو کھا جاتا ہے‘‘۔
’’ایسے شبد تو نہ زبان سے نکالو دوست‘‘ سائمن نے کہا۔
ویزلی دل آزردہ تھا، بجھے دل سے بولا ’’میرے دماغ میں ایک خیال آیا جو میں نے تم پر ظاہر کر دیا، اس دنیا میں زندہ رہنا کتنا سہل ہو جاتا اگر انسان میں طمع، مکاری، عیاری، لالچ کے بجائے انسانیت، خلوص، محبت، پیار ہوتا، حالات و واقعات دیکھ کر دل الٹ پلٹ ہوتا ہے، ہر شخص تم کو زک پہنچانے، دل دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ تمہارے وجود کو اپنی خواہشات کی بھٹی میں بھسم کر کے اپنی ہستی کو دوچند کر لے‘‘۔
سائمن چند لمحے کیلئے جیسے کہیں کھو سا گیا پھر کہنے لگا ’’میرے بھائی تمہاری باتیں کسی جیٹ طیارے کی طرح زوں کر کے میرے سر سے گزر جاتی ہیں، ممکن ہے جو تم کہتے ہو وہ ٹھیک ہو، شاید خدا کی یہی مرضی ہو‘‘۔
ویزلی نے برا سا منہ بنایا اور بولا ’’تمہارے ساتھ بات کرنا گویا بھینس کے آگے بین بجانا ہے تم ہر ناخوشگوار واقعہ کو خدا سے منسوب کر کے بری الذمہ ہو جاتے ہو، دکھ جھیلتے ہو، تکلیف برداشت کرتے ہو، مصیبتیں اٹھاتے ہو، اور مقدر راستے پر آنے کا انتظار کرتے ہو، تم آدمی نہیں جانور ہو جس کو کسی چیز کی  حس نہیں ہے‘‘۔
سائمن نرم دلی سے بولا ’’مقدر زور سے نہیں چلتا، تقدیر کے سامنے تدبیر کارگر نہیں ہوتی، جو قسمت میں ہے ہو کر رہے گا‘‘
’’تم بھی مفت کا درد سر ہو‘‘ ویزلی یہ کہتے ہوئے کھڑا ہو گیا اور بغیر سلام کئے چلا گیا، سائمن چلاتا رہ گیا ’’دوست تم ناراض ہو گئے ہو غصہ تھوک دو‘‘ ویزلی نے اس کی آواز پر کان نہ دھرے اور ریلوے لائن کے موڑ کے ساتھ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔
دوسرے روز موسم بڑا سہانا تھا، گہرے نیلے آسمان نے سورج کو جیسے اپنی کوکھ میں چھپا لیا تھا، بادل رندھ رندھ کر آ رہے تھے پھر جو جھوم جھوم کر برسے تو ہر طرف جل تھل کر دیا، بارش رکی تو ہر چیز نہا دھو کر یوں چمک رہی تھی کہ جیسے سنارے کی دکان پر زیورات دمک رہے ہوتے ہیں، کوارٹروں میں جمع ہونے والا پانی نکالنے کے بعد سائمن اور ویزلی ریلوے لائن کے ساتھ خراماں خراماں چلتے، موسم سے لطف اندوز ہوتے دور نکل آئے، ویزلی پھر نیا دکھڑا لیکر بیٹھ گیا ’’سائمن! یہ مکان جن میں ہم رہتے ہیں، انسانوں کی رہائش کے قابل نہیں‘‘ سائمن ویزلی کو دیکھتے ہوئے بولا ’’اتنے شکستہ بھی نہیں ہیں، بہرحال ان میں گزارہ تو ہو ہی رہا ہے‘‘ تندخو ویزلی چڑ کر بولا ’’بڑی تنگی ترشی سے گزارہ ہو رہا ہے، یہ صرف تمہارے ہی گزارے کے قابل ہیں کسی دوسرے کیلئے نہیں، سائمن تمہاری عمر تو زیادہ ہے لیکن تمہارا علم بہت کم ہے، تم نے سیر تو بہت کی لیکن دیکھا کچھ نہیں، تم نہیں جانتے کہ مردم خور مختلف طریقوں سے تم کو دیمک کی طرح کھا رہے ہیں، تمہاری رگوں سے خون چوس رہے ہیں، جب تم ناکارہ ہو جاؤ گے تو یہ لوگ تم کو اس طرح پھینک دیں گے جیسے پھل سے چھلکے کو اتار کر پھینکا جاتا ہے، کیا فوج میں تمہارے ساتھ ایسا نہیں ہوا، اچھا تم یہ سوچو کہ تمہیں تنخواہ کتنی ملتی ہے صرف 13 روبل، کیا تم نے کبھی سوچا اتنی قلیل تنخواہ میں تم کتنے عرصے تک روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھ پاؤ گے، میں تو اس زندگی سے تنگ آ گیا، کسی روز یہاں سے چلا جاؤں گا‘‘۔
سائمن اس کی باتوں کی گہرائی میں گرنے کے بجائے بولا ’’تم جاؤ گے کہاں، یہاں تمہارے پاس مکان ہے، قریب ہی زمین ہے، جہاں تم اپنی ضرورت کیلئے سبزیاں کاشت کر سکتے ہو، تمہاری بیوی ایک محنتی عورت ہے، ہر کام میں تمہارا ہاتھ بٹاتی ہے‘‘۔
’’جس زمین کی تم بات کرتے ہو اس میں پچھلے موسم بہار میں میں نے گوبھی کاشت کی تھی کہ انسپکٹر آ گیا، میرے کھیت کو دیکھ کر جل بھن گیا، بڑا ناراض ہوا، جو منہ میں آیا بکتا چلا گیا،‘  ویزلی نے سانس لیا پھر کڑوے کسیلے لہجے میں بتانے لگا ’’انسپکٹر نے پوچھا یہ گوبھی تم نے کس کی اجازت سے کاشت کی ہے اس کو اسی وقت اکھاڑ پھینکو، وہ دوبارہ آیا اور مجھے 2 روبل جرمانہ کر گیا، میرے تن بدن میں آگ لگ گئی، بنجر زمین کا ہرا بھرا ہونا اس کی طبع ناز پر شاید بہت گراں گزرا تھا، اس مرتبہ اس نے زبان درازی نہیں کی ورنہ وہ میرے ہاتھوں شدید نقصان اٹھاتا‘‘۔
’’تم بہت چڑچڑے اور بدمزاج ہو‘‘ سائمن نے کہا۔
ویزلی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا، ’’میں بدتہذیب ہوں نہ ہی بدخو، میں صرف سچ بولتا ہوں، اور اگر اب انسپکٹر آیا اور مجھے دکھ دینے کی کوشش کی تو میں اس کا منہ نوچ لوں گا‘ میں نے کسی قاضی کی گدھی نہیں چرائی جو ڈروں گا بلکہ میں چیف سے اس کی شکایت کروں گا‘‘۔
چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ چیف دورے پر آ گیا، انسپکٹر بھی ساتھ تھا۔ ریلوے کے بڑے افسروں کی ایک ٹیم پیٹرز برگ سے ریلوے لائن کے معائنے کے لئے آنے والی تھی، وہ دونوں اس معائنے کی تیاریوں کا جائزہ لینے آئے تھے، ریلوے لائن کے نٹ بولٹ کسے جا رہے تھے، پھاٹکوں، کھمبوں اور عمارتوں پر ایسے رنگ و روغن کیا جا رہا تھا جیسے کسی بڑھیا کو میک اپ میں ڈبو کر نئی نویلی دلہن بنایا جا رہا ہو، سائمن اور ویزلی بھی اپنے اپنے علاقے میں انہی تیاریوں میں مصروف تھے، چیف ٹرالی مین سائن کی پوسٹ پر آیا، سائمن نے فوجی انداز میں ٹھک سے سیلوٹ کیا، سب کچھ ٹھیک تھا۔
چیف نے پوچا ’’کب سے یہاں کام کر رہے ہو؟‘‘
’’دو مئی سے جناب‘‘ سائمن نے جواب دیا۔
’’کوارٹر نمبر 164 پر کس کی ڈیوٹی ہے؟‘‘ چیف نے پوچھا
’’ویزلی جناب‘‘ انسپکٹر نے جواب دیا۔
چیف نے پوچھا ’’کیا یہ وہی ہے جس کی تم نے گزشتہ برس شکایت کی تھی؟‘‘
’’جی جناب وہی بددماغ ہے‘‘؟ انسپکٹر نے نفرت سے ہونٹ سکیڑے۔
’’چلو آج پھر اس کی خبر لیتے ہیں‘‘ چیف نے حکم دیا۔
ملازمین نے پٹڑیوں پر چلنے والی ٹرالی دھکیلنا شروع کی، سائمن کو فکر اور اندیشوں نے گھیر لیا، وہ حدنظر تک انہیں جاتا دیکھتا رہا، اسے خدشہ لاحق ہو گیا تھا آج ضرور یہ افسر ویزلی کی بوٹیاں توڑیں گے‘‘
دو گھنٹے بعد سائمن حسب معمول اپنے حلقے کی پٹڑیاں چیک کر رہا تھا کہ اس نے دور سے ویزلی کو اپنی طرف آتے دیکھا، اس کے سر پر سفید کپڑا بندھا ہوا تھا، ہاتھ میں لاٹھی تھی، کندھے پر ایک چھوٹی سی گٹھڑی لٹکائی ہوئی تھی، بائیں رخسار پر رومال بھی بندھا ہوا تھا، سائمن کو اپنے اندیشے حقیقت میں ڈھلتے نظر آئے، قریب پہنچنے پر سائمن  نے دیکھا اس کا چہرہ زرد ہو رہا تھا، آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی‘‘۔
سائمن نے غمزدہ لہجے میں پوچھا ’’یہ سب کیا ہے، کیسے ہوا؟‘‘
’’میں ہیڈ آفس ماسکو جا رہا ہوں‘‘ ویزلی نے کہا۔
’’تم ہیڈ آفس شکایت کرنے جا رہے ہو کس کس کا دامن پکڑ کر اپنی رونا روتے پھرو گے، سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں، اس ارادے سے باز آ جاؤ، جو کچھ ہوا اسے ایک بھیانک خواب سمجھ کر بھولنے کی کوشش کرو، اسی میں بھلائی ہے‘‘۔
ویزلی تیوریاں چڑھاتے ہوئے دھاڑا ’’کیسے بھول جاؤں، ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے، میرے زخمی سر اور چہرے کو دیکھو، کیا میں اس کو بھول سکتا ہوں، انسپکٹر نے چیف کے کان بھرے، ایک ایک کی چار چار لگا کر اس کو اشتعال دلایا، کپڑا منہ پر رکھ کر رونے سے بہتر ہے کہ کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو ہی جائے‘‘۔
تم کیا سمجھتے ہو ماسکو میں تمہیں انصاف ملے گا، حق رسی ہو گی، تمہاری شکایت سے جو نتیجہ نکلے گا وہ تمہارے بچے کھچے سکون کو بھی غارت کر دے گا، تم غریب ہو، اچھائی کی توقع نہ رکھو، سائمن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
ویزلی نے کہا ’’میں جھکنے والا ہوں نہ ہی ڈرپوک، جانتا ہوں انصاف کی بھیک نہیں ملے گی لیکن اپنے حق کیلئے لڑنے میں جو راحت ملے گی اس کا تم اندازہ نہیں لگا سکتے‘‘
’’اچھا یہ تو بتاؤ کہ آخر ہوا کیا ہے؟‘‘ سائم نے پوچھا۔
’’چیف اپنی ٹرالی سے اترا، ویزلی نے بتانا شروع کیا، میرے کوارٹر کا معائنہ شروع کر دیا، مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ یہ بڑا کڑا معائنہ ہوگا، اسی لئے میں نے دن رات ایک کر کے ہر شے کو درست کر دیا تھا، اس کو موقع ہی نہ ملا کہ مجھ سے کسی بات پر بازپرس کرے، جب واپسی کیلئے اپنی ٹرالی کی طرف گیا تو میں نے انسپکٹر کی شکایت کر دی، میری بات سنتے ہی وہ آگ بگولا ہو گیا اور تشدد پر اتر آیا، مجھے تختہ مشق بنا کر دل کی بھڑاس اچھی طرح نکال لی، میں گم سم کھڑا مار کھاتا رہا، مزاحمت بالکل نہ کی، یہی سوچتا رہا کہ اونٹ کبھی تو پہاڑ تلے آئے گا ہی نا‘بس یہی کچھ ہوا‘‘۔
سائمن رقت قلب سے بولا ’’تم نے اپنی ایک شکایت کا نتیجہ تو یہیں دیکھ لیا، تمہاری دوسری شکایت کا نتیجہ کیا نکلے گا، خدا بہتر جانتا ہے‘‘۔
ویزلی بھی ضدی واقع ہوا تھا، ’’اچھا سائمن میں جا رہا ہوں، مجھے معلوم ہے ماسکو میں شاید ہی کوئی میری شکایت سنے، مگر میں جا رہا ہوں، میری بیوی کا خیال رکھنا، میری غیر موجودگی میں وہ میرا کام نمٹائے گی‘‘۔
’’ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی، خدا کرے تمہاری مراد پوری ہو اور تمہیں انصاف ملے‘‘ سائمن نے بے بسی سے کہا، پھر دونوں گلے ملے، ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور جدائی کے جنگل میں اپنی اپنی راہ پر چل پڑے‘‘۔
کافی عرصہ گزر گیا، ریلوے افسر بھی معائنہ کرکے جا چکے تھے لیکن ویزلی واپس نہ آیا، ایک روز لائن پر سائمن کا آمنا سامنا ویزلی کی بیوی سے ہو گیا، چہرے پر سوجن، آنکھیں سرخ،  کام کے بوجھ کے باعث وہ نیم جان نظر آ رہی تھی اور خاوند کی جدائی نے جیسے اس کا حسن گہنا دیا تھا۔ وہ افسردہ دکھائی دے رہی تھی۔
’’ویزلی کا کچھ اتا پتا چلا‘‘ سائمن نے پوچھا۔
شدت غم سے اس کی آواز نہ نکلی، اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ کوئی خبر نہیں، سائمن نے اس کی ڈھارس بندھائی اور دونوں چل پڑے۔
سائمن نے بچپن میں ایک خاص قسم کی لکڑی سے بچوں کیلئے باجے بنانا سیکھے تھے، وہ فرصت کے لمحات میں باجے بناتا اور دوستوں کے ذریعے شہر میں فروخت کر دیا کرتا تھا۔ سائمن نے سوچا پھر سے یہ کام کیوں نہ شروع کر دوں، تھوڑی بہت آمدنی ہو جایا کرے گی، ایک روز کام ختم کرنے کے بعد سائمن اس خاص لکڑی کی تلاش میں ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ کچھ زیادہ ہی دور نکل گیا اور اس مقام پر پہنچ گیا جہاں پٹڑی ایک پل سے گزرتی تھی، اس پل کے ساتھ ہی جنگل تھا جہاں سے باجوں کیلئے لکڑی مل سکتی تھی، سائمن پل سے اترا اور جنگل میں گھس گیا، کچھ ہی دیر میں اس کی تلاش رنگ لائی اور اسے مطلوبہ لکڑی مل گئی۔ اس نے درختوں سے لکڑی کاٹنا شروع کر دی، ضرورت کے مطابق لکڑیاں کاٹنے کے بعد ان کی ایک گٹھڑی بنائی اور ریلوے لائن کی طرف قدم بڑھا دئیے، سورج غروب ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی، فضاء بالکل ساکن تھی، گھونسلوں کو لوٹنے اور درختوں پر اپنی مکین گاہوں کی جانب گامزن پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سائمن ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اس کی سماعت سے عجیب سی آواز  ٹکرائی، پہلے اس نے وہم سمجھا لیکن دوبارہ ویسی ہی آواز نے اسے مخمصے میں ڈال دیا، یہ آواز کیسی؟ اس نے سوچا، دھیان دیا اسے لگا جیسے لوہے سے لوہے کو ٹکرایا جا رہا ہے۔ اس کی چال میں تیزی آ گئی، وہ جانتا تھا کہ ریلوے لائن پر مرمت کا کام نہیں ہو رہا، پھر ان آوازوں کے کیا معنی؟ وہ پل پر آ گیا، اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کوئی شخص ریل کی پٹڑی کے ساتھ ٹھوک پیٹ کر رہا تھا، وہ تیز قدموں سے اس شخص کی جانب بڑھا، وہ بھونچکا رہ گیا جب اس نے ویزلی کو دیکھا، وہ پٹڑی اکھاڑنے میں کامیاب ہو چکا تھا اور ایک ٹکڑے کو پل سے نیچے پھینک دیا گیا تھا، سائمن کی حالت ایسے تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، ویزلی نے سائمن کو دیکھا، اندھیرا بہت گہرا نہیں ہوا تھا، ملگجی فضاء تھی، ویزلی کچھ دیر سائمن کو گھورتا رہا اور پھر بات کئے بغیر پل سے اترائی کی جانب چل دیا، سائمن نے پکارا ’’دوست واپس آ جاؤ، ویزلی نے سنی ان سنی کر دی، سائمن پھر رنج و غم سے چیخا، ویزلی مت کرو ایسا، ملک الموت کو دعوت نہ دو، خدا کیلئے لوٹ آؤ، لاؤ ہتھوڑا اور کردبار مجھے دو، ہم دونوں مل کر اس پٹڑی کو صحیح جگہ پر لگا دیں گے، ابھی تک سوائے میرے تمہیں کسی نے نہیں دیکھا، ابھی تو کچھ نہیں بگڑا، تم نہ آئے تو جانتے ہو کیا قیامت آ جائے گی، سینکڑوں گھروں میں جلتے چراغ گل ہو جائیں گے، مائیں پاگل ہو جائیں گی، دلہنیں اپنے عروسی لباس تار تار کر دیں گی، نہ جانے کتنے بچے یتیم ہو جائیں گے اور یہ سب تمہاری گردن پر ہو گا، واپس آ جاؤ میرے دوست، تمہاری بیوی تمہاری راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی ہے‘‘، ویزلی نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا اور تیز تیز قدم بڑھاتا جنگل میں گم ہو گیا۔
سائمن کے اوسان خطا ہو گئے، سمجھ نہ آیا کہ کیا کرے؟ اکیلا اس قابل نہ تھا کہ پٹڑی کے بھاری بھرکم ٹکڑے کو نیچے سے اٹھا کر پل پر لاتا اور لائن کو ٹھیک کر دیتا، وہ مدد کیلئے سینے کا پورا زور لگا کر چلایا، کوئی ہے؟ کوئی ہے؟ وہ پھر زور سے مدد کے لئے پکارا مگر اس کی چیخ و پکار، شور و غوغا پر کس نے کان دھرنے تھے، آس پاس کیا دور دور تک کوئی ذی نفس نہ تھا۔ اس کا کلیجہ سلگنے لگا، اس کڑی مشکل میں کچھ سجھائی نہ دیا تو مدد کیلئے اپنے کوارٹر کی جانب بھاگ پڑا، تھوڑی دور بھی نہ گیا ہو گا کہ کارخانے کی ساڑھے 7 بجانے والے گھٹنے کی ٹن ٹن سنائی دی، اس کا مطلب تھا کہ مسافر ٹرین کے آنے میں صرف 5 منٹ رہ گئے ہیں، پانچ منٹ میں تو وہ بمشکل کوارٹر تک ہی پہنچ پاتا، وہ واپس بھاگا، بدحواسی کے عالم میں گرتے پڑتے، اس مقام پر پہنچا جہاں سے لائن ٹوٹی ہوئی تھی‘‘ ’’اب کیا کروں؟‘‘ اس نے خود کو کبھی اتنا بے بس نہ پایا تھا، اس کے ذہن میں روشنی کا جھماکا سا ہوا، حل سجھائی دے گیا تھا، تیز رفتار گاڑی کے ڈرائیور کو صرف سرخ جھنڈی ہی ٹرین روکنے پر مجبور کر سکتی تھی، مگر سرخ جھنڈی کہاں سے لائے، اس کا دل دھک دھک کرنے لگا، چہرہ پسینے سے بھیگ گیا، آنے والے قیامت خیز مناظر اک پل کے لئے اس کی آنکھوں میں گھوم گئے، ہر طرف خون، چیخ و پکار، زخمی، لاشیں، بے بسی سے مرتے بے گناہ لوگ، گاڑی پوری رفتار سے آئے گی، اور چشم زدن میں پٹڑی سے اتر کر 50 فٹ اونچے پل سے نیچے کی طرف ایسے جائے گی جیسے آسمان سے ٹوٹا ہوا تارہ زمین کی طرف آتا ہے، ریل کی بوگیاں نہ جانے کتنے انسانوں کو پیستی ہوئی ایک دوسرے میں پیوست ہو جائیں گی اور پھر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ادھر ادھر بکھر جائیں گی ایسے ہی جیسے کانچ کا برتن فرش پر گر کر متعدد ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ریلوے لائن پر بہت دور ایک چھوٹا سا سیاہ دھبہ نمودارہونا شروع ہوا جو لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا تھا، قیامت خیز گھڑیاں ایک بڑے سانحے کو جنم دینے والی تھیں، سائمن پتھر کا بت بنا ٹکٹکی باندھے دھبے کو بڑا ہوتے دیکھتا رہا، عقل کے طوطے اڑ چکے تھے، اچانک اسے ایک خیال سوجھا، اس نے اپنے جسم میں سرور کی ایک لہر سی دوڑتی محسوس کی، فیروزمندی کا تمغہ اس کے سینے پر بجنے والا تھا، وہ بجلی کی سی سرعت سے دوڑتا ہوا لکڑی کے گٹھے تک گیا، سب سے لمبی لکڑی نکالی، لکڑی کاٹنے والا تیز دھار چاقو اٹھایا اور جی جان سے بھاگتا ہوا ریلوے لائن پر آیا، کمر پر بندھی پیٹی سے سفید رومال نکالا، رومال کو لکڑی پر باندھ کر جھنڈی بنا لی، نظریں آسمان کی طرف اٹھائیں، چند  لمحے کے لئے ان بے کراں وسعتوں کے مالک کو یاد کیا، چاقو والا ہاتھ فضاء میں بلند ہوا اور پلک جھپکتے ہی اس کے پیٹ میں پیوست ہو گیا، سائمن نے دیدہ دلیری سے چاقو نکالا اور گھاؤ والی جگہ پر سفید جھنڈی رکھ دی، زخم سے جاری خون کی دھار نے پل بھر میں سفید جھنڈی کو سرخ کر دیا، اب وہ عام سرخ جھنڈیوں کی نسبت زیادہ سرخ ہو کر ہوا میں لہرا رہی تھی، سائمن ایک ہاتھ سے سرخ جھنڈی لہرا رہا تھا دوسرا گہرے گھاؤ پر رکھا ہوا تھا، خون بہت تیزی سے بہہ رہا تھا، اس پر نقاہت طاری ہونے لگی، سر چکرانے لگا، پیر لڑکھڑانے لگے، وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ ڈرائیور ٹرین کی تیزروشنی میں خطرے کی جھنڈی دیکھ لے، اس کی آنکھوں کے سامنے گول گول سیاہ دائرے بننا شروع ہوگئے، وہ کوشش کرنے لگا کچھ دیر اور کھڑا رہے، اس نے تب تک ہمت نہ ہاری جب تک اس کی ٹانگوں نے ساتھ نہ چھوڑ دیا، بالآخر وہ گر گیا، اس سے پہلے کہ جھنڈی بھی گرتی ایک ہاتھ آگے بڑھا اور جھنڈی کو تھام لیا، سرخ جھنڈی ہوا میں لہرا رہی تھی، ریلوے لائن پر سیاہ دھبہ ریلوے انجن کی شکل اختیار کر چکا تھا، ڈرائیور نے دور سے سرخ جھنڈی دیکھتے ہی ٹرین کی رفتار کم کرنا شروع کر دی، ٹرین رینگتے رینگتے عین اس جگہ پر آ رکی جہاں سے پٹڑی کا ٹکڑا اکھاڑا گیا تھا، اِدھر ٹرین رکی اُدھر سائمن کی سانسیں رُک گئیں، مسافر نیچے اتر آئے، ٹرین عملہ بھی آ گیا، سبھی نے دیکھا ایک لاش خون میں لت پت پڑی تھی اور دوسرا شخص خون آلود جھنڈی ہاتھ میں لئے لاش کی پیشانی کو بوسہ دے رہا تھا، یہ دوسرا شخص ویزلی تھا۔

٭٭٭٭٭

Comments

Popular posts from this blog

اردو ناول کا ارتقا

اردو محاورے۔۔۔۔۔۔ وسیم بن اشرف

واٹس ایپ کی سرجری۔۔معلومات ہی معلومات