’’ادھورا رشتہ‘‘
٭… وسیم بن اشرف، ڈپٹی نیوز ایڈیٹر روزنامہ ’’دنیا‘‘
948 سرور روڈ ملتان، 0321-1112555
’’تم میری کہانی کب لکھو گی صائمہ‘‘متعدد بار اس نے مجھ سے پوچھا تھا، لیکن میں ہر بار ٹال مٹول کر جاتی، لیکن وہ بھی ٹالے نہ ٹلتی تھی۔ منہ بناتی اور کبھی ماتھے پر تیوریاں ڈال کر چلی جاتی، پھر جب ملتی تو اس کو یہی شکوہ ہوتا کہ میں اس کی بات کو اہمیت نہیں دے رہی، ایک دن تو اپنی خوبصورت آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے میرے خوب لتے لئے اور بولی ’’اگر لکھنی ہے تو لکھو میں بار بار نہیں کہوں گی‘‘۔
مجھے یوں محسوس ہوتا جیسی وہ کہہ رہی ہو میرا بھی سویٹر بُن دے، یا قمیض سی دے، میں جانتی ہوں تمہیں سویٹر بُننا آتا ہے اور قمیض کی سلائی بھی، اگر سلائی کرنی ہے تو کر دو نہیں تو کسی اور سے کرا لوں گی‘‘ مجھے اپنے ہی خیال پر ہنسی آ جاتی، لیکن آج میں اس کی بات ہنسی میں نہیں ٹال سکتی تھی۔
آج تو اس کے بیٹے کی سالگرہ تھی جب میں اس کو مبارک باد دے رہی تھی تو اس نے بھری محفل میں پھر اپنا سوال دہرا دیا۔ ’’میری کہانی کب لکھو گی‘‘، مجھے کوئی جواب نہ سوجھا، میں نے لمحہ بھر سوچا اور کہا ’’شاہین مجھے نہیں پتا کہ تم پر کیا بیتی ہے، میں سب کچھ نہیں جانتی، تمہاری کہانی کا آغاز تو کر لوں گی مگر ختم کہاں کروں گی؟ اور مجھے…‘‘
اس نے مجھے ٹوکا اور اپنی خوبصورت گول مٹول آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولی ’’دیکھ صائمہ! مجھ جیسی عورتوں کی کہانیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں، شروع ہوتی ہیں اور پھر چلتی رہتی ہیں، اس جیسی لاتعداد آپ بیتیاں ہوں گی، ایسی آپ بیتیوں کا کوئی اختتام ہوتا ہے نہ انجام‘‘۔
اس نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا، ’’پھر بھی جب تک تمام حالات کا علم نہ ہو تو خدشہ رہتا ہے قلم سے کوئی ایسی ویسی بات نہ نکل جائے، شاید تمہیں میری یہ بات بری لگے‘‘ صائمہ نے جواب دیا۔
’’اس میں برا لگنے والی کون سی بات ہے اور میں کون سی نیک پروین ہوں، جو مجھ پر گزری، جو میں نے کیا وہی سچ تو لکھ دے‘‘۔
’’لیکن مجھے تمہارا پورا سچ نہیں پتہ‘‘۔
اچھا تو آج تم نہ جاؤ، میرے پاس رُک جاؤ، آج سب بتاؤں گی‘‘۔ اس نے جیسے مجھے حکم دیا دے دیا ہو، اور خود پارٹی میں مصروف ہو گئی۔
نصف شب تک خوب ہلا گلا رہا، 12 بجے کے بعد وہ فارغ ہو کر صوفہ پر پھیل کر لیٹ گئی اور اپنے خوبصورت کالے لمبے بال کھول لئے، میں نے دیکھا لال رنگ کی قمیض اور شلوار اس کے سرخ گالوں کے ساتھ کتنی میچ کر رہی تھی، لگتا تھا اس کے کپڑوں کا رنگ اس کے سرخ گلابی چہرے پر اتر آیا ہے یا پھر چہرے کے رنگ نے اس کے کپڑے رنگ دئیے ہیں، گلے میں مصنوعی موتیوں کی مالا اس کی صراحی دار گردن سے لپٹی سچے موتیوں کی مالا لگ رہی تھی، لمبے لمبے ہاتھ پاؤں، لمبا قد، یوں لگ رہا تھا جیسے میرے سامنے کوئی الپسر ا بیٹھی ہوئی ہے، میں مبہوت رہ گئی، کتنی خوبصورت تھی وہ، پتہ نہیں کیوں اسے دیکھ کر مجھے تاج محل یاد آ گیا، شاید وہ مجھے تاج محل جتنی ہی خوبصورت اور اداس لگی تھی، اگر وہ مرد ہوتی تو……‘‘۔
’’کہاں گم ہو گئی ہو‘‘ اس نے میرے خیالات کی مالا توڑ دی۔
’’ تمہارے حسن کا جلوہ دیکھ رہی تھی، آفتاب ہو، مہتاب ہو، کسی شاعر کا خواب ہو، تم کتنی لاجواب ہو، جی چاہتا ہے تمہیں دیکھتی رہوں، یہ حسن گلوسوز، جی چاہتا ہے تمہیں تکتی رہوں‘‘ میرا جواب سن کر وہ کھلکھلا کے ہنسی تو اس کے دانت موتیوں کی طرح چمک اٹھے۔
’’میری کہانی بھی سنو گی یا مجھے دیکھتی رہو گی‘‘ وہ مسکرائی۔
’’ہاں شروع کرو‘‘۔
’’صائمہ! معلوم نہیں کہ مجھ پر جو بیتی اس کا آغاز کہاں سے کروں، نہ ہی زندگی کا پہلا باب یاد ہے اور نہ ہی آغاز کا اتہ پتہ، ہاں اتنا یاد ہے کہ میں ایک ٹوٹے ہوئے گھر میں پیدا ہوئی‘‘۔
’’ٹوٹے ہوئے گھر میں؟ میں نے استفسار کیا۔
اس نے نیم کھلی آنکھوںسے مجھے دیکھا ’’ہاں! امی اور ابو کی آپس میں بنتی نہیں تھی، شاید میری عمر اس وقت 10 برس ہو گی جب ہم اسلام آباد سے انگلینڈ چلے گئے، میں نے کچھ تو اسلام آباد کے ایک اچھے نجی سکول میں پڑھا تھا اور کچھ تعلیم گوروں کے دیس میں ہی مکمل کی، میں آج تک نہ جان پائی کہ پپا کو انگلینڈ جانے کی کیا سوجھی تھی! پپا اور ممادونوں ملازمت کرتے تھے، پپا فیکٹری سے جو بھی کما کر لاتے وہ شراب اور گوریوں پر اڑا دیتے، اور مم ڈیڈ کی گالیاں بھی کھاتی اور گھر کا خرچہ بھی چلاتی، آنے بہانے ڈیڈ مما کو روز ہی پیٹتے، اس کے باوجود مما ڈیڈی کو کسی طور پر بھی چھوڑنے پر تیار نہ تھی‘‘۔
میں نے کئی بار ضد کی، چلو مما! پاکستان چلتے ہیں، لیکن ڈیڈ اور مما کو اب پاؤنڈز سے زیادہ شاید کوئی چیز پیاری نہیں تھی، پاکستان جانا تو دور کی بات وہ تو پاکستان کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے، ہے نہ اچنبھے کی بات، لیکن یہ بھی کھرا سچ ہے کہ میں اپنے وطن کو ایک دن بھی نہیں بھولی تھی، میں اپنی سہیلیوں، رشتہ داروں، اپنے پنجاب کے اسلام آباد کو ہر رات سپنے میں دیکھی، ایسی شاید ہی کوئی رات گزری ہو گی جب مجھے میرے اپنے خواب میں نہ آئے ہوں، گھر کا ماحول ہی ایسا تھا کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکی۔ کالج کی پڑھائی کے دوران ہی ایئرپورٹ پر جاب مل گئی‘‘۔
’’مجھے لگا جیسے میں اس گھٹن زدہ گھر سے نکل کر رنگ برنگے میلے میں آ گئی ہوں، روزانہ ہزاروں مسافر جہازوں پر چڑھتے اور اترتے، ایسے ہی جیسے روز نئے پنچھی آتے اور اڈاری مار جاتے، میں طرح طرح کے لوگوں کو آتے جاتے دیکھتی، انہیں گلے ملتے دیکھتی تو میرے اندر توڑ پھوڑ سی شروع ہو جاتی، لوگ کتنے خوش ہیں، ایک دوسرے کو کتنا چاہتے ہیں، جب کوئی میاں بیوی الگ ہوتے تو ایک دوسرے کی بانہوں میں سما جاتے، بیوی روتی تو شوہر اسے سینے سے لگا لیتا اور اس کی آنکھیں بھی نم ہو جاتیں، مجھے اچھی تنخواہ ملتی تھی، لیکن جس روز تنخواہ ملنا ہوتی تھی میں اداس ہو جاتی، سوچوں کے جال میں جکڑی جاتی کہ پیسے مما کو دوں گی تو ڈیڈ شراب کے لئے پیسے مانگے گا، مما کہے گی بچی کے پیسے شراب پر نہ بہا ،دونوں میں جھگڑا ہو گا یہ ایسے ہی تھا کہ جیسے پیسہ ہمارے گھر کی لڑائی کی آگ میں پٹرول کام دے رہا ہو، تم دھیان سے سن رہی ہو نا؟ وہ بات کرتے کرتے پل بھر کیلئے رُکی۔
’’رُکو مت‘ بولتی رہو، داستان کو بریکیں نہ لگاؤ، میں سب سن رہی ہوں میری مکمل توجہ تمہاری باتوں پر ہے‘‘ صائمہ نے ایک ہی سانس میں جواب دیا۔
’’ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ کانٹوں بھری زندگی کے تین برس گزر گئے، تن من میں جو چبھن تھی وہ دور نہ ہو سکی، ایک روز پاکستان جانے والی فلائٹ تاخیر کا شکار ہو گئی، سارا سٹاف مسافروں کی خدمت میں لگا ہوا تھا، انہیں مسافروں میں مجھے سکندر ملا، میں تھکی ہاری ایک کرسی پر تھوڑی دیر آرام کے لئے بیٹھی ہی تھی کہ وہ میرے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھا، میں نے سرسری نظروں سے اسے دیکھا اور پھر نظر نہ ہٹی، دل میں اُتھل پتھل سی ہونے لگی، ایسے لگا جیسے اس نے مجھے ہپناٹائز کر دیا ہو، میں جیسے نظر جھپکنا بھول چکی تھی، ایئرپورٹ پر خوبصورت لوگ تو میں روز دیکھتی تھی، لیکن سکندر کیلئے جیسے خوبصورت جیسا لفظ بھی چھوٹا تھا، گورا چٹا رنگ، گھنگھریالے بال، ہونٹ گلابی اور درویشوں جیسی آنکھیں، چھیل چھبیلا، بانکا، سنجیلا، طرحدار ، مجھے اپنا وجود پگھلتا محسوس ہوا، میں اس کی آنکھوں میں کھو گئی، وہ مسکرایا تو مجھے اپنا خیال آیا اور تھوڑا سا سنبھلی کہ اٹھ کر چلی جاؤں لیکن میرے تو پاؤں میں جیسے جان ہی نہیں رہی تھی‘‘۔
’’کیا نام ہے آپ کا؟ اس نے آہستہ سے پوچھا۔
چہرے مہرے کی طرح اس کی آواز بھی خوبصورت تھی۔
’’شاہین‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’بہت پیارا نام ہے لیکن اتنا نہیں جتنی پیاری تم خود ہو، تمہارا نام تو تصور ہونا چاہیے تھا یا تصویر، جان بہار، کسی مصور کا شاہکار دکھتی ہو تم ‘‘
وہ بات کر رہا تھا اور مجھے لگ رہا تھا اس کی آنکھوں کا سحر مجھے دھیرے دھیرے جکڑ رہا ہے، اس سرو قد کے منہ سے اپنی تعریف سن کر یوں لگا جیسے دل و دماغ پر خمار سا چھا رہا ہو، لیکن میں نے کوشش کہ اسے میری اندر کی توڑ پھوڑ کارتی بھر بھی احساس نہ ہو۔
’’کہاں جا رہے ہیں آپ؟‘‘
’’پاکستان اور ملتان، ملتان کے قریب ہمارا گاؤں ہے، گھر بار ہے، والدین ہیں، زمین جائیداد ہے، سارا گاؤں ہی ہمارا ہے، ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں، سال میں چار چکر وطن کے لگا لیتا ہوں،وہ ملتان کا بتا رہا تھا، وہ شہر جو اولیاء اﷲ کی سرزمین کہلاتا ہے، جہاں حضرت بہاء الدین زکریا، حضرت شاہ رکن عالم، بی بی پاک دامن، حضرت شاہ شمس تبریز اور بڑی بڑی برگزیدہ ہستیوں کے مزار ہیں، دربار ہیں، خانقاہیں ہیں۔
’’تم نے دیکھا ملتان‘‘۔
’’نہیں! میں 10 سال کی تھی جب گوروں کے دیس کے باسی بن گئے، نام سنا ہے، جان پہچان والوں سے سنا ہے ملتان بزرگان دین کا شہر ہے، بڑا جی چاہتا ہے کہ وہاں جاؤں، اﷲ کے نیک بندوں کے درباروں پر حاضری دوں‘‘۔ میں اداس سے لہجے میں بولی۔
’’چلو آج ہی لے چلتا ہوں‘‘ اس نے مذاق میں کہا اور میں شرما کر رہ گئی‘‘۔
’’میرا نام سکندر ہے، 7تاریخ کو واپس آؤں گا، ملو گی مجھے یہیں ایئرپورٹ پر، وہ ایک ماہ کے لئے جا رہا تھا۔
’’پتہ نہیں‘‘، میں وہاں سے اُٹھ گئی، سکندر چلا گیا اورمیرے لئے ایک ماہ جیسے ایک صدی بن گیا، ایسی ویسی کوئی بات بھی نہیں تھی لیکن لگ رہا تھا کہ وقت جیسے تھم گیا ہے، گھڑی کی سوئیاں جیسے گھومنا بھول گئی ہیں، وہ مجھے اپنے سحر میں جکڑ کر چلا گیا، لگ رہا تھا جیسے اس نے مجھ پر جادوئی پھونک مار دی ہو، جب بھی پاکستان کی فلائٹ آتی میں دائیں بائیں نظریں گھماتی کہ کہ شاید وہ پہلے نہ آ جائے اور گزر نہ جائے، یہ مجھے کیا ہو گیا تھا؟ من اداس، میلے میں ویرانی، جگ سنسان لگنے لگا تھا، دن کو چین نہ رات کو سکون، سوتی تو خوابوں میں گھس آتا، جاگتی تو جیا بے کل رہتا، دھیرے دھیرے تین ہفتے گزر گئے اور پھر مہینہ کی 7 تاریخ آ گئی، میں جان بوجھ کر ایک شاپ میں جا کر بیٹھ گئی کہ دیکھوں تو وہ مجھے تلاش بھی کرتا ہے یا صرف باتیں ہی کرتا ہے، سارے مسافر گزر گئے، سکندر آخر میں آیا۔
وہ دائیں بائیں آنکھیں گھماتا مجھے ہی تلاش کر رہا تھا، پندرہ منٹ تک وہ مجھے ڈھونڈتا رہا اور میرے من میں پھول کھل رہے تھے، میں اس صورتحال سے لطف اندوز ہو رہی تھی، پھر اس نے اپنے کوٹ کی جیب سے رومال نکالا، شاید پریشانی سے اسے پسینہ آ گیا تھا، اس نے پیشانی کو رومال سے صاف کیا اور بالآخر کسی ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح اس نے بیگ اٹھایا اور سر جھکائے چل پڑا، میں شاپ سے نکلی اور اسے عقب سے آواز دی۔
سکندر!
وہ رک گیا ۔
ایسے لگ رہا تھا جیسے بیک وقت ہزاروں گلاب اس کے چہرے پر کھل اٹھے ہیں، ’’مجھے پتہ تھا تم ضرور آؤ گی‘‘ اس نے مجھ سے معانقہ کیا، زندگی میں پہلا موقع تھا کہ کسی مرد نے مجھے اپنی بانہوں میں لیا تھا، اس کے جسم سے مجھے عجیب طرح کی تپش سی نکلتی محسوس ہوئی، مجھے لگا اس تپش سے میں پگھل رہی ہوں، گم سم، بے خبری اور بے خودی کا سا عالم تھا، میں نے بھی اس کی بازوؤں کی گرفت سے نہ نکلناچاہا،
’’چلو سامنے بیٹھ کر چائے پیتے ہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ریستوران کی طرف قدم بڑھانے لگا، مجھے لگا کہ میں گونگی بہری ہو گئی ہوں، کیفیت ایسی تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، اپنے اندر کی کیفیت سے شکست کھا کر میں اس کی باتوں کا ’’ہوں، ہاں! اچھا‘‘ جیسے الفاظ سے جواب دے رہی تھی، وہ میرے لئے پاکستان سے سونے کی ایک خوبصورت چین لیکر آیا تھا، اس نے اپنے ہاتھوں سے چین میری گردن میں ڈالی، وہاں ہم کتنی دیر بیٹھے رہے، گزرتے سمے کا پتہ ہی نہ چلا، بادل نخواستہ ہمیں اٹھنا ہی پڑا۔ اس نے ویک اینڈ پر ملاقات کا وعدہ کیا اور بائے بائے کرتا چلا گیا۔
میری بیابان دنیا میں جیسے جا بہ جا رنگارنگ پھول اُگ آئے تھے، بے مزا زندگی میں سرور کی لہریں میرے انگ انگ میں سرایت کر گئیں، میں خود سے بے خود ہوتی جا رہی تھی، میں محسوس کر رہی تھی جیسے عام دنیا سے نکل کر کسی اور ہی دنیا میں رہنے لگی ہوں، سکندر کا خیال ایک نشے کی طرح مجھے مخمور رکھتا، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے وہی نگاہوں میں رہتا، گھر میں مما پپا کی چیخ چنگھاڑ، تو تو میں میں، کام کا دباؤ، جیسے سب مجھے بھول گیا، ہفتے کے روز میں نے اپنا سب سے خوبصورت سوٹ نکالا، زیب تن کیا، آئینہ میں خود کو دیکھا اور پھر سکندر سے ملنے چلی گئی، وہ جیسے پہلے سے میرا منتظر تھا، اس کی نگاہیں مجھ سے چار ہوئیں تو جیسے چراغ جل اٹھے ہوں، سفید رنگ کی مرسڈیز میں بڑے کروفر سے بیٹھا وہ کوئی راجکمار لگ رہا تھا۔ مجھے اپنی قسمت پر رشک آنے لگا، ہم نے باتیں شروع کیں تو پھر بات سے بات نکلتی گئی، اور وقت نکلنے کا احساس تک نہ ہوا، ہم بہت کم وقت میں ایک دوسرے کے بارے میں بہت زیادہ جان لینا چاہتے تھے۔ میں نے اسے بتایا کہ گھر بار ہوتے ہوئے بھی میں کس قدر تنہا ہوں، میرے مما، پپا کیسے ایک دوسرے کی ضد اور دشمن ہیں۔
’’شاہین! بات دشمنی کی نہیں ہوتی، دراصل ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھوتہ کرنے کی بات ہوتی ہے، لیکن اگر میاں بیوی کا میل ہی ٹھیک نہ ہوا تو پھر زندگی کی گاڑی کو زبردستی نہیں کھینچا جا سکتا، اندر کی دوریوں کے پنکچر زندگی کی گاڑی کو رواں رکھنے میں بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں، کیل کانٹے چبھتے بھی ہیں اور سوراخ بھی کر دیتے ہیں، زندگی کے ایسے گھاؤ بھرنے سے بھی نہیں بھرتے، بے مزا زندگی کانٹوں کی سیج بن کر رہ جاتی ہے جس میں زخموں سے چور انسان لوٹ پوٹ ہوتے رہتے ہیں، بے جوڑ شادیوں کی سزا بچے بھگتے ہیں، اس کی باتوں سے مجھے لگاجیسے وہ کہیں کھو گیا ہے۔
’’کیوں سکندرر! کیا تمہارے والدین بھی؟‘‘ میں حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگی۔
’’نہیں! نہیں! وہ جیسے خیالوں کے بھنور سے نکل آیا ہو‘‘۔ میرے امی، ابو تو شاہوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں، وہ پرانے دور کے ہیں جب شادی ایک لاٹری کی طرح ہوا کرتی تھی، اور ان کی لاٹری لگ گئی تھی، وہ بہت خوش و خرم زندگی جی رہے ہیں‘‘ اس نے سوفٹ ڈرنک کا کین ٹیبل پر رکھا اور خاموش ہو گیا۔
’’تو تم اس قدر اداس کیوں ہو گئے ہو؟‘‘
’’میں دراصل اپنی بپتا سنا رہا تھا‘‘۔
’’میری اور میری وائف کی کبھی نہیں بنی، ہر وقت ان بن رہتی ہے، وہ ایک امیر گھرانے کی ایک خوبصورت لڑکی ہے لیکن سو فیصد انگریز ہے، میاں بیوی کے رشتے کے تقدس کو سمجھتی ہے نہ مشرقی روایات کو، مجال ہے جو اس کی اجازت کے بغیر گھر میں پتہ بھی ہل جائے، میں جانتا ہوں وہ مجھے چاہتی ہے، مجھ سے پیار کرتی ہے لیکن وہ میرے دل میں گھر نہیں کر سکی، نہ جانے کیوں؟ میں نے کبھی دل کی گہرائیوں سے اسے نہیں چاہا، صرف بچوں کی وجہ سے جئے جا رہے ہیں‘‘ وہ بولتے بولتے خاموش ہو گیا۔
’’سکندر آپ کے بچے بھی ہیں، دیکھنے میں تو بالکل کنوارے لگتے ہو‘‘ شاہین نے حیرانی سے کہا ’’نہیں شاہین! میرا بڑا بیٹا 15 سال کا ہے اور بیٹی 11 سال کی، میں شادی کر کے انگلینڈ آیا تھا، میری شادی رشتہ داروں میں ہوئی تھی، میں نے سوچا تھا کہ حدیقہ پڑھی لکھی ہے، میری اور میرے گھر والوں کی قدر کرے گی، لیکن اس نے مجھے ہمیشہ گھر کے سامان کی طرح سمجھا، جیسے میں اس کا نوکرہوں، جب میں اپنے گھر تھا تو شہزادوں کی طرح زندگی کو بسر کیا، لیکن یہاں آ کر جیسے کمی کمین بن گیا ہوں، سالا، ڈارلنگ، ڈارنگ، پلیز، پلیز کہتے منہ دکھنے لگ جاتا ہے، وہ یہی سمجھتی ہے جیسے میں اس کا غلام ہوں، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ میں اس کی ٹکے جتنی بھی قدر نہیں کرتا، لوگ تو جانوروں کو بھی پیار سے اپنا بنا لیتے ہیں، اپنے بس میں کر لیتے ہیں، وہ بھی کیا بیوی ہوئی جو مرد کو نہ جیت سکے، زندگی میں اتنا بڑا خلا ہے کہ یہی لگتا ہے کہ میں زندگی کو نہیں بلکہ زندگی مجھے بسر کر رہی ہے، بڑی خشک اور صحرا کی طرح ویران زندگی جی رہا ہوں‘‘ یہ بتا کر اس نے چپ سادھ لی، خاموشی طویل ہو گئی تو میں نے اسے متوجہ کیا۔
’’کیا بات ہے، میری شادی کا سن کر تمہارا موڈ خراب ہو گیا‘‘ پر یہ بھی کیا شادی ہے، وہ الگ کمرے میں ہوتی ہے اور میں الگ کمرے میں، جب دل ہی نہ ملتے ہوں تو جسمانی ملن کیا معنی رکھتا ہے؟ وہ مجھے اپنے دکھڑے سناتا رہا۔
’’میرا موڈ خراب نہیں ہوا، میں تو سوچ رہی تھی کہ ہر دوسرے گھر کا حال ایسا ہی ہے، یہاں لوگ ادھوری زندگی جی رہے ہیں‘‘ مجھے اپنا گھر یاد آ گیا۔
’’ہاں یہی سمجھ لو، نامکمل زندگی! پانی بھی برسے اور بندہ بھیگے بھی نہ، یہ ادھوری زندگی پوری بھی ہو سکتی ہے اگر کوئی اچھا جیون ساتھی مل جائے تو‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں اداسی کی پرچھائیں دیکھیں۔
’’کیا مطلب آپ کا؟‘‘
’’مطلب یہ کہ بچوں کی وجہ سے میں بیوی سے علیحدگی اختیار نہیں کر سکتا‘ میری وجہ سے ان معصوموں کی زندگی کیوں خارزار بن جائے، ٹوٹے بکھرے گھروں کے بچے کس طرح کے ہوتے ہیں یہ تم سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے! پرہاں! ان سب تلخ حقائق کے باوجود مجھے کوئی اپنے پیار کی گھنی چھاؤں میں رہنے کی بھیک دے دے تو میں آخری سانسوں تک اس کا ساتھ نبھانے کو تیار ہوں‘‘ اس نے یہ کہتے ہوئے میرا ہاتھ تھام لیا۔
’’زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ، وہ کیسے؟ آپ شادی شدہ ہو، کیا آپ کی بیوی آپ سے علیحدگی اختیار کر لے گی؟ شادی کے بغیر زندگی بھر کا ساتھ کیسے نبھایا جا سکتا ہے؟‘‘ یہ بات میرے گلے سے اتر نہیں رہی تھی‘‘۔
’’پیار تو ایک لافانی جذبہ ہے شاہین! اس کا شادی سے کوئی تعلق نہیں، شادی سے پیار نہیں خریدا جا سکتا ہے، وہ اپنے فلسفے سے مجھے رام کرنے کی کوشش کر رہا تھا، وہ مجھے لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا، سیف الملوک اور نہ جانے کون کون سی عشق و محبت کی لوک کہانیاں سنا کر میرے دل میں اترنے کی جستجو کررہا تھا۔
میں اس کی بات کا مفہوم سمجھ رہی تھی اور شش و پنج میں تھی کہ اسے کہوں تو کیا؟ میں تو خود اس پر عاشق ہو گئی تھی لیکن ہم دونوں کے ایک ہونے کا کوئی درمیانی راستہ سجھائی نہ دے رہا تھا۔
’’نہ جانے کیوں تمہیں دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ ہماری جوڑی کتنی فٹ رہے گی، کتنی پیاری ہو تم، تمہیں دیکھ کر تو کسی کا بھی ایمان ڈانواں ڈول ہو سکتا ہے‘‘ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جب یہ کہا تو مجھے لگا وہ دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے نہ مجھے پھانسنے کیلئے مکھن لگا رہا ہے، مجھے راہ چلتے دیکھ کر کئی بندے میرے حسن میں کھو جاتے تھے، یہ میں نے کئی بار محسوس کیا تھا، میں اپنی خوبصورتی کے قصیدے نہیں پڑھ رہی، مجھے رب نے بنایا ہی خوبصورت تھا۔
’’میری محبوبہ بنو گی‘‘ وہ جیسے میرے ترلے کررہا ہو۔
’’پتہ نہیں‘‘۔
یہ کہہ کر میں گھر چلی آئی اور پھر کئی روز میں سکندر سے نہ ملی لیکن اس کو بھولی بھی نہ، بے چین سی کیفیت میں میرا دل کہیں بھی نہ لگ رہا تھا، اس کی یاد کسی کل آرام نہ لینے دیتی تھی، جو اس نے کہا تھا وہ قابل قبول نہ تھا، لیکن دل مر جانے نوں پتہ نئیں کی ہویا سی کہ اس کی طرف ہی کھنچا چلا جاتا تھا، میری زندگی جیسے کسی طوفان میں گھر چکی تھی۔
کبھی میں نقش دیوار ہو جاتی تو کبھی دل میں پیارے کی ہلکی ہلکی ٹیس محسوس کرنے لگتی۔ مجھے رہ رہ کر اس کی نگاہ ناز کچوکے سے لگاتی تھی، نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا معاملہ تھا ،رات بھر میں سکندر کے بارے میں سوچتی رہی، اس کو بھولنا شاید میرے لئے مشکل ہو گیا تھا، مجھے دنیا کے کئی بڑے افراد یاد آئے جنہوں نے دو دو شادیاں کی تھیں، اور کئی شادی شدہ آدمی ذہن میں آئے جن پر کنواری لڑکیاں مرتی تھیں۔
دماغ دل کا ساتھ نہیں دے رہا تھا، کیا غلط ہے، کیا صحیح ہے کے چکر میں ایک ہفتہ گزر گیا، ایک روز میں ڈیوٹی ختم کر کے ایئرپورٹ سے نکلی تو سامنے سکندر کار میں موجود تھا، شیو بڑھی ہوئی تھی، سر کے بال الجھے الجھے اور اس کی درویشوں جیسی آنکھوں میں جیسے برسوں کی اداسی تھی، اس کو دیکھتے ہی میرے دل میں خوشی کی لہر سی ابھری لیکن میں نے اس پر ظاہر نہ ہونے دیا۔
’’تمہیں ایک بار بھی یاد نہیں آیا میں، کتنی بے مروت ہو تم‘‘ اس نے نم آنکھوں سے شکوہ کیا۔
میں کچھ نہ بولی، اسکی چشم تر دیکھ کر میرا دل اداسی سے بھر گیا، لیکن ساتھ ہی یہ احساس بھی جاگزیں ہوا کہ سکندر مجھے کتنا چاہتا ہے۔
’’مجھے بھولے نہیں آپ‘‘ میں اس کے من میں جھانکنا چاہتی تھی۔
’’تم کوئی بھولنے والی چیز ہو؟ اس نے سوال داغ دیا۔
پھر وہ رات ہم نے اکٹھے گزاری، وہ مجھے چھوتا تو میرے رگ و پے میں سرور کی لہریں اٹھنے لگتیں، امنگوں، ترنگوں کا تلاطم برپا ہو جاتا، جب میں اس کے کاندھے پر سر رکھتی تو بے حد سکون محسوس ہوتا، میں اس کی محبت کی حوالات میں قید ہو چکی تھی۔
پھر تو جیسے یہ معمول بن گیا، وہ بزنس کے بہانے اور میں کام کے بہانے اکثر راتیں باہر گزارنے لگے، صبح جب لمحہ جدائی آتا تو لگتا جسم سے روح جدا ہو رہی ہے ’’آپ اپنا فلیٹ لے لو‘‘ ایک روز سکندر نے میرے دل کی بات کہہ دی، پے منٹ میں کروں گا، اپنی پسند کا گھر تم تلاش کرو گی‘‘۔
میں نے سنگل بیڈ روم کا چھوٹا سا فلیٹ پسند کر لیا، سکندر اور میں نے مل کر خرچہ کیا، مہینہ بھر میں میں لینڈ لیڈی بن چکی تھی۔ سکندر نے گھر کو سامان سے بھر دیا، گھر میں عیش و آرام کی ہر وہ چیز موجود تھی جس کا میں ارمان کر سکتی تھی، مما پپا کو جب پتہ چلا تو انہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، دونوں مجھ سے جھگڑ بیٹھے۔ ’’آپ کی جھک جھک سے چھٹکارا پانے کیلئے ہی میں نے یہ قدم اٹھایا ہے‘‘ مجھ سے رہا نہ گیا، یہ ہر وقت کی ٹر ٹر نے میرا سکون برباد کر دیا ہے، میری اپنی بھی کوئی لائف ہے، گھر چھوڑ رہی ہوں دنیا نہیں، آتی جاتی رہوں گی اگر آپ کو پسند ہو تو‘‘ یہ میرے آخری الفاظ تھے اس کے بعد میں نے وہ چار دیواری چھوڑ دی جہاں میں نے زندگی کی بہاریں کم اور خزاں جیسا عرصہ زیادہ بتایا تھا۔
سکندر کے پیار نے مجھے دنیا کے ہر رشتے سے جیسے بے نیاز کر دیا تھا، میں اس کی محبت میں ایسی گم ہوئی کہ سارے غم جیسے دفن ہو کر رہ گئے ہوں۔
وہ روزانہ شام کو گھر جانے سے قبل تین چار گھنٹے میرے ساتھ گزارتا، میں اس کیلئے کھانا بناتی، اس کے کپڑے دھوتی، استری کرتی، پوری عورت بن کر میں اس کی خدمت کرتی، اس کی سیوا میں کوئی کسر نہ چھوڑتی تھی، میں نہیں چاہتی تھی جو کمی اس نے بیوی میں محسوس کی تھی وہ کمی مجھ میں بھی ہو، میں اس کے جذبات و احساس کی قدر کرتی، اسے سر آنکھوں پر بٹھاتی، جب نصف شب کو وہ مجھے چھوڑ کر جاتا تھا تو میں اکثر رو پڑتی‘‘۔
’’سن رہی ہو نہ صائمہ‘‘ اس نے اچانک ہی جیسے بم پھوڑ دیا ہو مجھے جھٹکا لگا، ہوں، ہاں،، ہاں… میں تو اس کی کہانی میں ایسی کھوئی کہ اس نے مجھے متوجہ کیا تو جیسے میں کسی حصار میں سے نکل آئی ہوں۔
’’رکو مت، جاری رکھو، میں ہمہ تن گوش ہوں، میرے اتنا کہتے ہی اس نے سلسلہ وہیں سے جوڑا‘‘۔
’’روتی کیوں ہو؟ جتنا پیار ہے، سارا تو تمہارا ہے، تمہیں دے کر جا رہا ہوں، اس کے لئے کیا بچا ہے؟‘‘ وہ مجھے تسلی دیتا۔
میں چاہتی ہوں کہ تم صرف میرے بن کے رہو، کب آئے گا وہ وقت‘‘ میں شکوہ کرتی۔
’’میں نے تو تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اپنی وائف کو نہیں چھوڑ سکتا‘‘ جب وہ میری گود میں سر رکھ کر یہ کہتا تو میں برف کی طرح سرد پڑ جاتی۔
’’میرا ایک دوست کہتا ہے، مانگی ہوئی سگریٹ، اخبار اور مانگی ہوئی بیوی کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے، میں نے کبھی اخبار اور سگریٹ تو مانگا نہیں پر بیوی…‘‘ جب وہ شرارت سے ایسا کہتا تو میں اس کا کان پکڑ کر مروڑ دیتی۔
’’تو پھر مانگی ہوئی چیز کتنے دن چلتی ہے؟ آخر تمہاری مالکن تمہیں مجھ سے چھین کر لے جائے گی‘‘ ایک ڈر میرے اندر سے اٹھتا۔
’’وہ میری مجبوری ہے شاہین، اور تم میرا عشق ہو، مجبوری کبھی بھی عشق سے جیت نہیں سکتی‘‘ وہ میرا دل رکھنے کے لئے کہتا تو میں مجبوری اور عشق کی اس منطق میں سب کچھ بھول جاتی، یاد رہتا تھا تو صرف سکندر کا پیار اور ساتھ، جس کے لئے میں ہر قربانی دینے کو تیار تھی، وہ پھر دیر تک میرے لمبے بالوں سے کھیلتا رہتا، یا پھر میرے پاؤں اپنی گود میں رکھ کے بیٹھ جاتا، عورت کا چاہنے والا اس کے قدموں میں بیٹھا ہو تو وہ اپنے آپ کو نور جہاں سمجھنے لگتی ہے، اس حکومت کا نشہ بھی تخت طاؤس سے کم نہیں ہوتا، اس نشے میں، میں گناہ اور ثواب سب بھلا بیٹھی تھی۔
گرمیوں کی چھٹیاں تھیں، سکندر دو ہفتے کیلئے کاروباری دورے پر گیا ہوا تھا، اچانک ایک صبح میرا دل گھبرایا، مجھے لگا میں ماں بننے والی ہوں۔ میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، حواس باختہ سی ہو گئی، سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ خوشی سے جھوموں یا اداسی کی کالی چادر اوڑھوں، ہنسو ں یا روؤں، میں اندھیروں، اجالوں میں گم سم سی کھو گئی، پھر جھٹ پٹ میں نے سکندر کے دفتر فون کیا، لیکن پتہ چلا وہ ابھی واپس نہیں آیا، کئی روز گزر گئے، کچھ ایسا احساس تھا جو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ صرف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ سکندر کو پتہ چلے گا تو خوشی سے پاگل ہو جائے گا، میں فوراً اس کو یہ خوشخبری سنانا چاہتی تھی، مجھے اس لمحے کا بے چینی سے انتظار تھا لیکن اس کا کچھ معلوم نہیں پڑ رہا تھا کہ وہ کہاں گیا ہے، جب بھی فون کرتی تو جواب ملتا ضروری کام سے باہر گئے ہوئے ہیں، موبائل پر ملاتی تو نمبر بند ملتا تھا۔ اچانک ایک روز اس کا فون آیا، وہ ایئرپورٹ سے ہی بول رہا تھا، میں نے آن کی آن میں اسے خوشخبری سنا دی، کچھ لمحوں کے لئے اس نے چپ سادھ لی۔
’’آج ڈاکٹر کے پاس چلی جانا، وہ سب ٹھیک کر دے گا‘‘ اس کے الفاظ ہتھوڑے کی طرح میرے دماغ پر لگے‘‘۔
’’کیا ٹھیک کر دے گا‘‘ میں کچھ کچھ سمجھتے ہوئے بے چینی سے بولی۔
’’اس ہفتے جا کر ابورشن کرا لو، پہلے ہی دیر ہو چکی ہے، مزید دیر مناسب نہیں‘‘ اس نے جیسے حکم دیا ہو۔
’’ابورشن ! پر کیوں‘‘ میں بوکھلا گئی۔
’’کیوں کا کیا مطلب؟‘‘ میں فارسی بول رہا ہوں جو تمہیں سمجھ نہیں آ رہی‘‘ وہ پہلی بار مجھ سے تلخ اور اونچے لہجے میں مخاطب ہوا تھا۔
’’لیکن میں اس بچے کو جنم دینا چاہتی ہوں، یہ تو ہمارے پیار کی نشانی ہے، سچے پیار کی نشانی‘‘ میں نے اپنی وکالت خود ہی کرنا چاہی۔
’’اوہ، شٹ اپ! میں پہلے ہی دکھی ہوں، ڈونٹ گو می دِس بُل شٹ‘ ایک عورت نے پہلے زندگی جہنم بنا رکھی ہے، اب دوسری آ گئی ہے‘‘ وہ آپے سے باہر ہو گیا۔
’’پر سکندر‘‘ میں بولنے لگی تو اس نے دھاڑنے کے انداز میں مجھے ٹوکا اور بولا ’’فضول باتیں سننے کے لئے میرے پاس وقت نہیں، میں ا ور بہت سے کاروباری معاملات میں الجھا ہوا ہوں، چپ چاپ ڈاکٹر کے پاس جاؤ، خرچہ میں برداشت کروں گا، اس نے یوں مشورہ دیا کہ جیسے میرے سر میں درد ہے اور جا کر گولی لے آؤں‘‘۔
’’بات سنو سکندر، میں ماں بننا چاہتی ہوں، آپ کے بچے کی ماں، جب آپ میرے پاس نہیں ہو نگے تو آپ کی نشانی مجھے آپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دے گی، بلاوجہ غصہ نہ کرو‘‘۔
’’اُلو کی پٹھی، ماں بننا چاہتی ہے، ہزاروں عورتیں روز ماں بنتی ہیں، یہ کوئی نیا کام ہے؟ تیرے ماں بننے سے کون سے سرخاب کے پر لگ جائیں گے تمہیں ، بے وقوفی چھوڑ، عقل سے کام لے، مجھے تمہارا سہارا چاہیے، جب میں تمہارے پاس آتا ہوں تو غم بھاگ جاتے ہیں، دکھ بھول جاتا ہوں، میرے لئے درد سر نہ بنو، اور پھر تم کنواری ہو، ناجائز بچے کو معاشرہ کبھی قبول نہیں کرتا، سبھی اسے حرام کا کہیں گے، تم کہیں منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہو گی‘‘ وہ مسلسل بولے جا رہا تھا، مجھے لگ رہا تھا میرے سر میں کوئی کیل ٹھونک رہا ہے
’’حرام کا کیوں، تم باپ ہو اس بچے کے، ہماری شادی نہیں ہوئی تو کیا ہوا، رب تو جانتا ہے کہ میں تیرے بچے کی ماں ہوں‘‘ میں نے بڑے یقین سے کہا قانون کے مطابق تم میری بیوی ہونہ میں اس بچے کا باپ، مجھے جذباتی بلیک میلنگ پسند نہیں، اور نہ ہی میں نے کسی کورٹ کچہری میں جا کر کہنا ہے کہ میں تمہارے بچے کا باپ ہوں، تمہیں گھر لے دیا، سیٹل کر دیا، بس اس سے زیادہ مجھ سے کوئی امید نہ رکھنا، تمہارے ماں بننے کے شوق میں میں اپنا گھر اجاڑ لوں، لاکھو ں کا بزنس ڈبو لوں، میرے بچوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا، کبھی سوچا تم نے‘‘ وہ مزید بھڑک گیا۔
اپنے ارمانوں کا یوں بے دردی سے خون ہوتا دیکھ کر میں نے حوصلہ مجتمع کیا اور بھیک مانگنے کے سے انداز میں بولی۔
’’پھر بھی آپ سوچ سمجھ کر بتاؤ، گرم ہونے کے بجائے نرم ہو کر احساس کرو کہ آپ کہہ کیا رہے ہو‘‘
’’فالتو باتیں سوچنے کا میرے پاس وقت نہیں، میں ان چھٹیوں میں بچوں کو لیکر امریکہ جا رہا ہوں، مجھے فون نہ کرنا‘‘ یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا، مجھے لگا جیسے میرے دل کی دھڑکن بند ہوتے ہوتے رہ گئی ہو۔
وہ ہو گیا تھا جو میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، میرے کبھی وہم و خیال میں بھی نہیں آیا تھا کہ بیل یوں منڈھے چڑھے گی، میرے اوسان خطا ہو گئے، میں ’سم‘‘ بکم‘‘ کی عملی تصویر بن کر رہ گئی، بے حیائی کا جو برقع میں نے منہ پر لے لیا تھا، اس نے یہی چند چڑھانا تھا، مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ سکندر مجھے یوں زندگی کے بھنور میں چھوڑ کر چلا جائے گا، وہ ایسے پیٹھ دکھائے گا، میری آنکھوں سے بے بسی کے آنسو نکلے اور میرے گال بھگوتے گردن میں جذب ہو گئے، مجھے خود پر ترس آیا، میں کیا گُل کھلا بیٹھی تھی، گھر سے باغی بن کر نکلی، پیار میں ایسی دیوانی ہوئی کہ سماج کی بھی پروانہ کی اور اپنی سونے جیسی جوانی سکندر کے سپرد کر دی، وہ مجھے حرام کا مال سمجھ کر استعمال کرتا رہا، اور موقع آنے پر چوروں کی طرح منہ چھپا کر بھاگ گیا، مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گری میں رو رہی تھی نہ ہنس رہی تھی، لیکن آنکھیں نم ہو رہی تھیں، فلیٹ میں تنہا بیٹھی تھی، اسی فلیٹ میں جس میں میرے سکندر کی تصاویر آویزاں تھیں، یہ فلیٹ مجھے کسی عبادت گاہ کی طرح لگتا تھا، آج اسی فلیٹ میں، میں خود کو کسی کوٹھے والی کی طرح محسوس کر رہی تھی۔ میرے دل میں ٹیس سی اٹھی، میں اپنی ہی نظروں میں گری جا رہی تھی، مجھے خود سے بدبو آنے لگی، نفرت محسوس ہونے لگی، دل چاہا کسی گاڑی کے نیچے جا کر سر دے دوں یا بلڈنگ سے چھلانگ لگا کے اس نجاست والے جسم کو موت کے سپرد کر دوں اور ایک خط لکھ کر رکھ جاؤں کہ میری زندگی برباد کرنے والا سکندر ہے، میرا کلیجہ پھٹنے کو آیا تھا، لیکن مرنا اتنا آسان کہاں ہے۔ سوچوں میں گم میں قالین پر ہی لیٹ گئی کہ کروں تو کیا؟ اچانک دماغ میں خیال آیا، سکندر بھاگ گیا تو کون سا طوفان آ گیا، کل ڈاکٹر کے پاس جا کر ساری کہانی ختم کر ڈالتی ہوں، جیسے میرے سر سے کوئی بوجھ اتر گیا ہو، میں نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا اب اس بے وفا کی شکل نہیں دیکھوں گی، اپنے مما، پپا کے پاس واپس چلی جاؤں گی، یہ کنجری کاکوٹھا ہی چھوڑ دوں گی‘ دوسرے روز میں ڈاکٹر کے پاس گئی، ادھیڑ عمر لیڈی ڈاکٹر نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’فکر کی کوئی بات نہیں، 10 منٹ لگیں گے، میں اگلے ہفتے کا وقت لیکر گھر آ گئی، صرف ایک ہفتے کی مصیبت، پھر میں فری ہو جاؤں گی، فلیٹ چھوڑنے کیلئے میںنے وہ سامان اکٹھا کرنا شروع کر دیا جو میں گھر سے لائی تھی، الماری پر پڑا اٹیچی کیس اٹھانے کیلئے میں کرسی پر چڑھ گئی، اٹیچی کیس بھاری تھا، مجھے کافی زور صرف کرنا پڑ رہا تھا۔
’’کہیں بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، جیسے میرے اندر سے آواز آئی‘‘۔
’’پھر کیا ہے، تم نے کون سا اسے جنم دینا ہے، اچھا ہے جان چھوٹے گی‘‘ یہ دماغ کی آواز تھی۔ دل سے آواز آئی ’’نہیں وہ اور بات ہے لیکن اس طرح زورآزمائی سے بچے کو تکلیف پہنچے گی‘‘ اندر کی اس کشمکش کے نتیجے میں، میں نے اٹیچی کیس پر لعنت بھیجی، نہ جانے ایسا کیا تھا کہ جو مصیبت میرے پیٹ میں تھی مجھے اس سے ہمدردی ہو گئی۔
کام سے میں نے دو ہفتے کی چھٹیاں لے لیں، دل بھر کر کھاتی کہ کہیں بچہ بھوکا نہ رہ جائے، خوب آرام کرتی کہ جتنی دیر وہ ماں کی کوکھ میں ہے آرام سے تو رہے پھر تو… میری آنکھوں سے آنسو چھم چھم برسنے لگے، میرے اندر جیسے کوئی کھلونا وجود میں آ رہا تھا، اٹھتے، بیٹھتے، کھاتے، سوتے ہر وقت توجہ اس کی طرف رہتی، کہیں کوئی عضو نہ ٹوٹ جائے اس کھلونے کا، میں دھرتی کی طرح سرسبز و شاداب ہو گئی، آئینے میں اپنا ہی روپ نہ پہچان سکی، کتنی پیاری لگ رہی تھی میں خود کو۔
’’تم ماں بننے والی ہو شاہین، تمہیں دنیا کا سب سے بڑا رتبہ مل رہا ہے، تیرے حسن کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا‘‘ شیشے میں سے میرے عکس نے کہا۔
’’لیکن یہ بچہ ناجائز ہے، معاشرہ کسی ناجائز بچے کو برداشت نہیں کرتا، یہاں انسان کی بنائی ہوئی روایات ہیں اور قانون کا پہرہ ہے‘‘ میں نے عکس کو جواب دیا، عکس نے جیسے بحث شروع کر دی‘‘ رشتہ کوئی بھی ہو ناجائز نہیں ہوتا، مقصد یہ ہے کہ آپ کسی رشتے کا کتنا تقدس کرتے ہیں، کتنی ایمانداری سے اسے نبھاتے ہیں‘‘۔
پر… پر میں اکیلی… سماج… بچہ… ماں… باپ…رشتے… نہیں نہیں، میں یہ بوجھ اکیلے کیسے برداشت کروں گی، بچے کے باپ کا ہونا بہت ضروری ہے، معاشرہ بچے کے باپ کا نام پوچھتا ہے، میرے تو بچے کے ماتھے پر لکھا ہو گا اس کا باپ چور ہے، نہیں میں اپنے سکون کیلئے اس بچے کو اتنی بی سزا کیوں دوں‘‘ میں آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی۔
مجھے احساس ہوا ان لمحات میں بچے کے باپ کا پاس ہونا کتنا ضروری ہے، میں اکیلی عورت، مجھے رونا آ گیا، نہ سکندر کا فون آیا نہ میں فیصلہ بدل سکی۔
ڈاکٹر کے پاس سے جانے سے ایک رات قبل میں اس عالمہ کے گھر گئی جہاں وہ دین و دنیا کا درس دیا کرتی تھی، دوسری خواتین کے ساتھ میں بھی چپکے سے دوپٹہ اوڑھ کر بیٹھ گئی، معلمہ کا درس جانے کب سے جاری تھا۔ میری سماعت سے یہی جملے ٹکرائے ’’اگر ہم زمین سے پودا بھی اکھاڑیں تو مٹی جڑوں کے ساتھ نکل آتی ہے، جو حمل ضائع کراتی ہیں وہ قتل کی مرتکب ہوتی ہیں، جو روح اﷲ اس دنیا میں بھیجنا چاہتا ہے تم کون ہوتی ہو کہ اس کو آنے سے روک سکو‘‘ رب کے بھید رب ہی جانتا ہے‘‘ میں روتی روتی گھر آ گئی، معلمہ پودے کے اکھاڑنے کی بات کر رہی تھی میری تو کوکھ سے ایک انسانی جان کو علیحدہ کیا جانا تھا، گھر پہنچ کر میں نے دوسرے روز ڈاکٹر کی طرف جانے کی تیاری کرنے لگی۔
رات کا آخری پہر ہو گا کہ میں جیسے سوتی جاگتی کیفیت میں تھی کہ میرے اندر سے آواز آئی ’’تمہاری کوکھ میں ’’میں‘‘ہوں ماں!… ماں… جیسے میں یہ لفظ دوبارہ سنا، جیسے میرے ننگے پیٹ سے کوئی چھوٹا سا بلونگڑہ چمٹا ہوا ہو، اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں کی حرکت میں نے اپنے پیٹ پر محسوس کی، خودبخود ہی میرا ہاتھ پیٹ پر چلا گیا، اپنے اندر میں نے کوئی جیتی جاگتی چیز محسوس کی، جو حرکت کر رہی تھی، اندھیرے میں، میں نے اپنے اندر جھانکا، مجھے لگا جیسے دو چھوٹی چھوٹی آنکھیں مجھے گھور رہی ہیں، ان آنکھوں نے جیسے پکارا ’’ماں‘ مجھے جھرجھری سے آ گئی، جسم میں سنسناہٹ سی محسوس ہوئی، میں جیسے ٹھنڈے پسینے میں بھیگ گئی، پھر میں نے بے خودی کے عالم میں اپنے ہی پیٹ کوزور سے جپھی ڈال لی۔
’’میرے بچے… میں تجھے جنم دوں گی، معاف کر دو، میں تمہیں اپنی خودغرضی کی بھینٹ چڑھانے لگی تھی، تمہارا باپ چور ہے، لیکن تمہاری ماں… تمہاری ہے… ہاں تمہاری ماں تو تمہاری ہے، میرا تکیہ آنسوؤں سے بھیگ گیا… مجھے بہت ہی سکون محسوس ہوا، ایک عجیب سی لذت میرے سراپے میں سرائیت کر گئی، جسے کسی نے میرے جسم میں کوئی جادوئی طاقت داخل کردی ہو۔ میں اسی وقت اٹھی، اپنا سامان سمیٹا، صبح ہی ڈاکٹر کو فون کیا کہ میں نے ارادہ بدل دیا ہے، اس کے بعد کبھی میں نے ماضی میں جھانکا، نہ پچھتائی اور نہ ہی زندگی سے کوئی شکوہ کیا کہ کیا ہو رہا ہے۔
فلیٹ چھوڑ کر میں نے کرائے پر ایک کمرہ لے لیا، کام پر جانا شروع کر دیا، کچھ ہی روز گزرے ہوں گے کہ میرا راز افشا ہونا شروع ہو گیا۔ آخر کب تک میں چھپا سکتی تھی ۔لوگوں نے کنجری کہا، وحشیہ کہا، ساتھیوں نے طنز کے تیروں سے کلیجہ چھلنی کیا، مما کو پتہ چلا تو اپنا سر پیٹ کر رہ گئی، لیکن میرے کانوں نے میرے اندر سے ’’ماں‘‘ کا جو لفظ سنا تھا، اس کے بعد تو دنیا کی ہر آواز میرے لئے چھوٹی ہو کر رہ گئی تھی، میری برداشت بہت بڑھ گئی، میں ’’ماں‘‘ کا لفظ سرعام سننا چاہتی تھی، 9 مہینے میں نے لوگوں کے طعنے سن کر، گالیاں کھا کر نکالے، میں نے ان عورتوں کی کتابیں بھی پڑھیں جنہوں نے میری طرح اکیلے میں بچوں کو جنم دیا تھا… پھر وہ دن آ گیا جب ’’میرے وارث‘‘ نے روتے ہوئے دنیا میں اپنی آمد کا اعلان کیا، مجھے لگا جیسے میری ساری محنت کا ثمر مجھے آج مل گیا ہے، نہ دنیا سے کوئی گلا شکوہ رہا اور نہ ہی سکندر کی بیوفائی یاد رہی، وارث کو دیکھ کر جیسے میرے جسم میری روح کی ساری تھکاوٹ ختم ہو گئی تھی۔
عورت جب ماں بن جاتی ہے تو اس کے لئے دنیا کے سارے رشتے چھوٹے ہو جاتے ہیں، سکندر بے شک مجھے پیٹھ دکھا کر چلا گیا تھا لیکن اس تک جیسے ہی بچے کی خبر پہنچی، ایک روز وہ بھی آ پہنچا۔
’’تمہیں سمجھایا تھا اس مصیبت میں مت پڑو، اب کتنی مشکل میں ہو‘‘ اس نے ہمدردی جتانے کی سعیٔ ناکام کی، میں نے اس کے بات کا جواب دینا گوارا نہ کیا
’’ چلو جو ہونا تھا وہ ہو گیا، فلیٹ میں واپس چلو، میرا بچہ کرائے کے گھروں میں پلے بڑھے مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو گا، ہم زمیندار، جاگیردار ہیں، راجوں مہاراجوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں، ایسی لائف تو ہمارے نوکر چاکر بھی نہیں گزارتے‘‘ اس کے اندر کا باپ بول رہا تھا۔
’’سکندر یہ بچہ وہی ہے جس کے پیدا ہونے کی خبر سن کر تم نے فون کرنا اور سننا بھی بند کر دیا تھا۔ وہ اکیلی ماں کا بچہ ہے… مزدور ماں کا، میں نہیں چاہتی وہ کسی دھوکے میں رہے، میں اس کے من میں ان دیکھی ان چاہی خواہش پیدا نہیں ہونے دینا چاہتی، وہ منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا نہیں ہوا، اس لئے میں چاہتی ہوں وہ جس حال میں ہے اسی میں پلے بڑھے، میں اسے جھوٹے خوابوں کا اسیر نہیں بنانا چاہتی‘‘ میری چبھتی باتیں سن کر سکندر چلا گیا۔
وارث دن بہ دن پرورش پانے لگا، میں نے ایک آیا کا بندوبست کر لیا تھا، وہ میری ڈیوٹی کے اوقات میں اس کو سنبھالتی، شام کو کام سے تھکی ہاری آتی تو وارث کو دیکھ کر جیسے میرے تن بدن میں نئی جان پڑ جاتی، کچھ پیسے ادھار لیکر میں نے چھوٹا سے اپنا گھر خرید لیا۔ سکندر نے بھی جان نہ چھوڑی اور پھر میرا کھوج لگا لیا اور آ کر ایک دن میرے پاؤں پکڑ لئے ’’نہیں رب کا واسطہ میرے گناہ کی سزا میرے بچے کو تو نہ دو، اسے باپ کے پیار کی ضرورت ہے‘‘۔
وہ کبھی کبھی وارث سے ملنے آ جاتا تھا، میں نے نوٹ کیا کہ جب کبھی سکندر نہیں آتا تھا تو وارث آنے بہانے رونے لگتا، اسے بخار ہو جاتا، میں نے بچے کے لئے اتنی بدنامی برداشت کی، اپنی زندگی داؤ پر لگا دی، سکندر کی اداسی مجھ سے سہی نہ گئی تو میں نے اسے گھر آنے جانے کی اجازت دے دی، گھر میں آنا جانا شروع ہوا تو ایک روز سکندر نے میرے ساتھ سونے کی کوشش کی۔
’’تمیز سے رہو اگر میں نے وارث کی وجہ سے تمہیں گھر آنے جانے کی اجازت دی ہے تو گھر والا بننے کی کوشش نہ کرو، تم کیا سمجھتے ہو میں ماضی کو دہراؤں گی، یہ مت سمجھنا میں کمزور پڑ گئی ہوں اور مجھے تمہارے سہارے کی ضرورت ہے، میں اپنے بچے کو اداس نہیں دیکھ سکتی، اور تمہارا اس کے ساتھ خون کا رشتہ ہے، تمہارے بغیر وہ روتا ہے تو مجھ سے دیکھا نہیں جاتا‘‘ میرے لہجے کی تپش نے اسے ہلا کر رکھ دیا۔
’’میری غلطی معاف کر دو‘‘ اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔
’’فضول ڈسٹرب نہ کرو مجھے، کنجری سمجھ رکھا ہے مجھے؟ میں کسی عشرت کدے میں سجی بساط کا مہرہ نہیں ہوں کہ جہاں چاہا اٹھا کر رکھ دیا، اس عذر خواہی سے بہتر ہے کہ کہیں سے عشق کے عرفان کا درس حاصل کرو، محبت تجارت نہیں، نہ ہی کاروبار ہے۔ لگتا ہے اپنے سرور کیلئے اس طرح کی سرمایہ کاری کرنا تم جیسوں کی سرشت ہے‘‘ میرے طنز کے تیروں، اندر کے غبار سے اٹے اور زہر میں بجھے الفاظ نے اس کے اوسان خطا کر دئیے۔
’’جب نبھانی نہیں تھی تو لگائی کیوں تھی، آج کے بعد مجھے چھوا بھی تو ہاتھ توڑ کے رکھ دوں گی‘‘ بچے سے ملو اور جاؤ، میرا غصہ ٹھنڈا ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ میں نے اسے باہر کا رستہ دکھایا، اس نے چپ سادھ لی، بچہ اس کی کمزوری تھی، پھر وہ چپ چاپ آتا وارث سے کھیلتا اور چلا جاتا۔
بالآخر بات سکندر کی بیوی تک پہنچ ہی گئی، وہ غصے میں جلی بھنی میرے گھر آ پہنچی۔ گھر گھستے ہی اس نے تین چار تھپڑ مجھے رسید کر دئیے، میرے بال پکڑ کر کھینچے، ’’بدذات تمہیں میرا ہی گھر ملا تھا اجاڑنے کو، تھوڑی دنیا ہے، کسی اور کے گھر ڈاکہ ڈال لیتی، ایک یہ پیدا کر لیا ہے، حصہ مانگنے کے لئے، وہ وارث کی طرف بڑھی۔
’’بہن جی! میں بھاگ کر بیچ میں آ گئی، مجھے جو مرضی کہہ لیں، میں آپ کی چور ہوں، پر بچہ…‘‘۔
’’چپ کر کلموہی، زیادہ اچھا بننے کی کوشش نہ کر میرے سامنے، میں تم جیسی عورتوں کو اچھی طرح سے جانتی ہوں، دوسروں کے خاوند اپنے بس میں کر لینا تو تمہاری جیسی عورتوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن میں بھی کسی گئے گزرے خاندان سے نہیں ہوں، بڑی ڈاڈھی عورت ہوں میں، تم جیسی کئی آئیں اور گئیں پر سکندر کو مجھ سے نہیں چھین سکیں، میں ان عورتوں میں سے نہیں ہوں جو پریشان ہو کر دوسرے دن ہی خلع کا کیس کر دیتی ہیں یا طلاق مانگ لیتی ہیں۔ میں یہی سمجھتی ہوں کہ میرا آدمی دو گھنٹے کنجری کے کوٹھے پر جاتا ہے، پر رات کو میرے پاس میرے گھر ہی آتا ہے نا، تمہارے جیسی دس بھی آ جائیں تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، پرائی آگ پر کتنے روز خود کو سینک لو گی، آخر آدمی تو میرا ہی رہے گا‘‘ وہ انگار ے برساتی، دل پر چرکے لگاتی چلی گئی۔
مجھے اس پر ترس آیا، دھوکہ تو اس کے ساتھ بھی ہوا تھا، میرے من میں تھا کہ حدیقہ بدصورت سی ہو گی، لیکن وہ تو من موہنی صورت، پتلے پتلے نین نقش اور بھرے بھرے جسم والی خوبصورت خاتون تھی، میںخود کو کوسنے لگی، انجانے میں ایک شادی شدہ مرد سے پیار کر کے میں نے کتنی بھیانک غلطی کی تھی، شاید میں حالات کے دھارے میں بہہ گئی تھی، لیکن میرا قصور کیا تھا، سکندر نے ہی حدیقہ کا ایسا غلط نقشہ میرے سامنے کھینچا تھا، میں اس غلط فہمی کے راستے پر ایسے چلی کہ ہر رہگزر سے بلاسوچے سمجھے گزرتی گئی۔
حدیقہ نے پوری کمیونٹی میں ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ میں اس کے شوہر کو لوٹ کر کھا رہی ہوں، ایک روز سکندر کہیں باہر گیا ہوا تھا کہ اس کا لڑکا آ گیا، میں نے دروازہ کھولا ’’آنٹی میرے ڈیڈ آج باہر گئے ہوئے ہیں، اگر تمہارا گزارا نہیں ہوتا تو آج کی رات میں آ جاؤں آپ کے پاس… وہ طنزیہ ہنسی ہنسا، اس نے مجھے اتنی بڑی گالی دی تھی کہ میرے ہوش اڑ گئے، لیکن میں اسے کیا کہتی، پر اس دن سے مجھے حدیقہ سے بھی شدید نفرت ہو گئی۔
میرے نزدیک تو پیسے کی پہلے ہی کوئی اہمیت نہیں تھی، لیکن اب پیسے والے بری طرح میرے سامنے ننگے ہو گئے تھے، مجھے لگا ضروری نہیں اچھے پیرہن کے پیچھے شخصیت بھی اچھی ہو۔ امیروں سے میرا جی کھٹا ہو گیا اور میں نے پہلے سے بھی زیادہ محنت شروع کر دی، اوورٹائم لگانا شروع کر دیا۔ میں وارث کو بہت اچھی تعلیم دلوانا چاہتی تھی، میرے من کی خواہش تھی کہ وہ بہترین سکولوں میں پڑھے اور ایک شاندار، سلجھی ہوئی شخصیت کا مالک بنے۔
مجھ سے ہر بندے نے نفرت کی صائمہ، ہر آدمی نے مجھے ہی غلط سمجھا، شاید میرا بیٹا بھی بڑا ہو کر مجھے ہی قصوروار سمجھے، لیکن اپنے خون پسینے سے اسے پال پوس رہی ہوں، اس میں ساری عادتیں اپنے باپ والی ہیں، وہی آنکھیں، وہی ہونٹ، وہی مسکان، جب یہ گھنٹہ گھنٹہ میرے ساتھ کھیلتا ہے ،میرے پاؤں پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے سکندر میرے سامنے بیٹھا ہے، سکندر کو تو معاف نہیں کر سکتی، معاف بھی کیا کروں میں کون سا اس سے نفرت کرتی ہوں، نفرت بھی تو اس سے کی جاتی ہے جس کی آپ کی نظروں میں کوئی اہمیت ہو، جو بندہ نظروں سے گر جائے وہ نفرت کے قابل بھی نہیں رہتا، کسی نے سچ ہی کہا کہ انسان پہاڑ سے گر کر تو شاید اٹھ جانے لیکن کسی کی نظروں سے گر جائے تو پھر جیون کا انت ہی سمجھے، اب میں اور میرا بیٹا، بس یہی میری زندگی ہے… اگر یہ نہ ہوتا تو پتہ نہیں میں آج کہاں ہوتی‘‘ شاہین نے اپنی کہانی کا اختتام کیا۔
’’شاہین تمہارا بچہ بہت کیوٹ ہے کیا تجھے کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ ایک دیندار شخص بنے اپنے رب کو اور اس کے دین کو سمجھنے، صائمہ… ’’ایک دفعہ جب وارث 6 سال کاتھا، سکول سے آیا، رات کو اسے سلانے کیلئے میں جب اسے کہانی سنانے لگی تو اس نے کہا ’’مم ٹیل می سم تھنگ اباؤٹ اسلام اینڈ ہاؤس آف گاڈ‘ آئی وانٹ تو سی دی ہاؤس آف گاڈ‘ وین وی گو ٹو دیئر‘‘۔
جب اس نے میری گردن کو اپنی چھوٹی چھوٹی بانہوں میں لپیٹا تو مجھے تب لگا کہ جیسے میرا بھی کوئی گن میرے بیٹے میں ہے، مجھے اس پر بے تحاشہ پیار آیا۔ میں چاہتی تھی کہ اسے اﷲ کا گھر (خانہ کعبہ) بھی دکھاؤں۔ میں پہلے پاکستان لے جا کر اسے وہاں کا ماحول، جگہ جگہ موجود اﷲ کے گھر (مساجد) دکھانا چاہتی تھی، وارث کی پرورش کے ساتھ ساتھ میں نے باقاعدگی سے دین کی تعلیم بھی لینا شروع کر دی، میرے اندر ایمان کا دیا روشن ہو چکا تھا، ایک روز عالمہ بیان کر رہی تھی ’’بے پردہ عورتیں جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکیں گی۔ 1792ء میں لندن میں ایک عورت تھی جن کا نام میری دول سٹون کران تھا۔ اس نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ عورت کو آزاد کیا جائے، اس سے قبل یورپ کی عورت بھی آزاد نہ تھی، پھر لندن میں 1998ء میں ایک سروے ہوا جس میں عورتوں سے پوچھا گیا کہ وہ گھریلو زندگی جینا چاہتی ہیں یا مادر پدر آزادی کی ہی خواہاں ہیں، تو 98 فیصد خواتین نے جواب دیا تھا ہم گھر لوٹنا چاہتی ہیں، لیکن ہمیں خاوند کوئی نہیں ملتا، بوائے فرینڈ ملتے ہیں، جو استعمال کرتے ہیں پھر ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں‘‘۔
میرے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا، لیکن میں نے توبہ کا دامن پکڑ لیا، دن میں کئی بار اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی، اب میرے دل میں ایمان کی شمع جل اٹھی تھی، اندر کی ویرانیوں میں بہار آ رہی تھی تو ساتھ قرار بھی آ رہا تھا۔
بحرکیف! میں نے اپنے وارث کو پاکستان لے جانے کیلئے چند روز بعد کے ٹکٹ بک کرا لئے، سکندر کو معلوم ہوا تو اول فول بکتا رہا۔
’’بچے کو لے کر کہاں جاؤ گی، اس گرمی میں! بیمار ہو جائے گا‘‘ لیکن میری ضد کے آگے اس کی ایک نہ چلی، وہ بھی ساتھ جانے کو تیار ہو گیا۔
وہ مجھے اپنے گاؤں لے گیا، میرے اندر جیسے کوئی دیا روشن ہو گیا ہو، شاید وہ مجھے اپنے والدین کے گھر لے جائے گا، شاید وہاں جا کر ہی وہ اس رشتے کو کوئی نام دے دے، میرا مان سمان رکھ لے، لیکن وہ مجھے ایک کھوہ والی حویلی میں لے گیا، کھیتوں میں کھوہ کے قریب ایک کچا پکا گھر تھا، وہیں شاید خاص مہمانوں کو ٹھہرانے کیلئے گیسٹ ہاؤس بنا ہوا تھا۔ مجھے پھر اپنی اوقات یاد آ گئی، دل میں روشن ہونے والا دیا نفرت کے جھونکے نے بجھا دیا، نہ تو اس کے گھر والوں سے کوئی مجھے ملنے آیا اور نہ ہی وہ مجھے گھر لیکر گیا، شاید لوگ کہتے ہوں گے انگلینڈ سے کوئی گرل فرینڈ آئی ہو گی۔
ہم نے سارا پنجاب دیکھا، ملتان میں اولیاء اﷲ کے مزاروں پر گئے، لاہور میں بادشاہی مسجد دیکھی، داتا دربار جا کر دعا مانگی، اسلام آباد میں فیصل مسجد دیکھی، وارث یہ سب دیکھ کر مبہوت سا تھا۔ واپسی سے ایک روز قبل میں وارث کو لیکر ایک ولی اﷲ کے دربار پر حاضری کیلئے گئی کہ اﷲ سے دعا مانگوں میری کوتاہیاں معاف کر دے، میرے ساتھ گھر میں کام کرنے والی ماسی بھی تھی، وہ ہر جگہ وارث کو گود میں اٹھائے میرے ساتھ ہوتی تھی، میں قریب ہی ایک ایسی مسجد میں گئی جہاں خواتین کے جمعہ کی ادائیگی کا بھی انتظام تھا، مسجد کا اوپر والا حصہ خواتین کے لئے مخصوص تھا، وہ بھی جمعہ کا دن تھا، جمعہ کی ادائیگی کے بعد معلمہ نے پوچھا ’’یہ بچہ کون ہے؟‘‘۔
’’ولیت سے چھوٹی چودھرانی جی آئی ہیں، بی بی جی اپنے سکندر بابو کی گھروالی ہیں یہ بچہ انہی کا ہے‘‘ معلمہ نے وارث کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا، ماسی اور مجھے بھی دعائیں دیں، مسجد کے صحن میں آ کر میرے دل کی جو حالت ہوئی وہ میں ہی جانتی تھی، ماسی نے مجھے وہ رتبہ دے دیا تھا جو کوئی بھی دینے کو تیار نہ تھا، میرے اندر پھر دئیے روشن ہو گئے۔ میں ماسی کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی، اور جی بھر کر روئی، وارث کی پیدائش کے بعد آج میں پہلی بار روئی تھی، ماسی نے مجھے آنکھوں پر جگہ دی تھی۔
’’آفرین ہے ماسی تم پر، تم نے ماں کا منصب تو جانا، میرے منہ پر شفق پھوٹ پڑی تھی لیکن آنسو رکنے کا نام نہ لے رہے تھے‘‘۔
’’بس کرو چودھرانی جی، ہمیں کیا نہیں پتہ، سب جانتے ہیں! پر کہہ نہیں سکتے، منہ کو قفل لگے ہوئے ہیں، بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، ہم تو کمی کمین ہیں لیکن پتہ ہر کسی بات کا ہے، بھلا دائی سے پیٹ بھی کبھی چھپا ہے، میں کیوں جھوٹ بولوں، رب کے گھر میں کھڑی ہوں‘‘ پتہ نہیں وہ کیا کیا بولے جا رہی تھی، لیکن میرے کانوں میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی
سکندر کے گھر والی ۔۔۔۔۔۔۔۔سکندر ۔۔۔۔۔۔ کے ۔۔۔۔۔۔ گھر ۔۔۔۔۔۔۔والی ۔۔۔۔۔۔۔چھوٹی چودھرانی ۔۔۔۔۔۔۔چودھرانی ۔۔۔۔۔۔۔سکندر کا ’’کاکا‘‘۔۔۔۔۔۔۔سکندر کا ’’کاکا‘‘۔۔۔۔۔۔۔سکندر ۔۔۔۔۔۔۔چودھرانی ۔۔۔۔۔۔۔’’کاکا ‘‘۔۔۔۔۔۔۔ماسی کے مقدس الفاظ نے جیسے میرے سارے دکھ ،درد ،غم ، گلے،شکوے جڑ سے ختم کر دیئے تھے،تبھی میں فیصلہ کرلیا کہ میں اپنے ’’وارث‘‘کو اس رب کا نیک بندہ بنائوں گی جس رب کے گھر میں پہلی بار کسی نے مجھے پہچانا تھا،عزت و توقیر کی چادر سے میرا گناہ گار سر ڈھانپا تھا ، ماسی کا چہرہ میں بڑا ہی مقد س لگا ،میں نے نم آنکھوں سے ماسی کو دیکھااور بے خودی کے عالم میں آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔
……………ختم شد……………
٭… وسیم بن اشرف، ڈپٹی نیوز ایڈیٹر روزنامہ ’’دنیا‘‘
948 سرور روڈ ملتان، 0321-1112555
’’تم میری کہانی کب لکھو گی صائمہ‘‘متعدد بار اس نے مجھ سے پوچھا تھا، لیکن میں ہر بار ٹال مٹول کر جاتی، لیکن وہ بھی ٹالے نہ ٹلتی تھی۔ منہ بناتی اور کبھی ماتھے پر تیوریاں ڈال کر چلی جاتی، پھر جب ملتی تو اس کو یہی شکوہ ہوتا کہ میں اس کی بات کو اہمیت نہیں دے رہی، ایک دن تو اپنی خوبصورت آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے میرے خوب لتے لئے اور بولی ’’اگر لکھنی ہے تو لکھو میں بار بار نہیں کہوں گی‘‘۔
مجھے یوں محسوس ہوتا جیسی وہ کہہ رہی ہو میرا بھی سویٹر بُن دے، یا قمیض سی دے، میں جانتی ہوں تمہیں سویٹر بُننا آتا ہے اور قمیض کی سلائی بھی، اگر سلائی کرنی ہے تو کر دو نہیں تو کسی اور سے کرا لوں گی‘‘ مجھے اپنے ہی خیال پر ہنسی آ جاتی، لیکن آج میں اس کی بات ہنسی میں نہیں ٹال سکتی تھی۔
آج تو اس کے بیٹے کی سالگرہ تھی جب میں اس کو مبارک باد دے رہی تھی تو اس نے بھری محفل میں پھر اپنا سوال دہرا دیا۔ ’’میری کہانی کب لکھو گی‘‘، مجھے کوئی جواب نہ سوجھا، میں نے لمحہ بھر سوچا اور کہا ’’شاہین مجھے نہیں پتا کہ تم پر کیا بیتی ہے، میں سب کچھ نہیں جانتی، تمہاری کہانی کا آغاز تو کر لوں گی مگر ختم کہاں کروں گی؟ اور مجھے…‘‘
اس نے مجھے ٹوکا اور اپنی خوبصورت گول مٹول آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولی ’’دیکھ صائمہ! مجھ جیسی عورتوں کی کہانیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں، شروع ہوتی ہیں اور پھر چلتی رہتی ہیں، اس جیسی لاتعداد آپ بیتیاں ہوں گی، ایسی آپ بیتیوں کا کوئی اختتام ہوتا ہے نہ انجام‘‘۔
اس نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا، ’’پھر بھی جب تک تمام حالات کا علم نہ ہو تو خدشہ رہتا ہے قلم سے کوئی ایسی ویسی بات نہ نکل جائے، شاید تمہیں میری یہ بات بری لگے‘‘ صائمہ نے جواب دیا۔
’’اس میں برا لگنے والی کون سی بات ہے اور میں کون سی نیک پروین ہوں، جو مجھ پر گزری، جو میں نے کیا وہی سچ تو لکھ دے‘‘۔
’’لیکن مجھے تمہارا پورا سچ نہیں پتہ‘‘۔
اچھا تو آج تم نہ جاؤ، میرے پاس رُک جاؤ، آج سب بتاؤں گی‘‘۔ اس نے جیسے مجھے حکم دیا دے دیا ہو، اور خود پارٹی میں مصروف ہو گئی۔
نصف شب تک خوب ہلا گلا رہا، 12 بجے کے بعد وہ فارغ ہو کر صوفہ پر پھیل کر لیٹ گئی اور اپنے خوبصورت کالے لمبے بال کھول لئے، میں نے دیکھا لال رنگ کی قمیض اور شلوار اس کے سرخ گالوں کے ساتھ کتنی میچ کر رہی تھی، لگتا تھا اس کے کپڑوں کا رنگ اس کے سرخ گلابی چہرے پر اتر آیا ہے یا پھر چہرے کے رنگ نے اس کے کپڑے رنگ دئیے ہیں، گلے میں مصنوعی موتیوں کی مالا اس کی صراحی دار گردن سے لپٹی سچے موتیوں کی مالا لگ رہی تھی، لمبے لمبے ہاتھ پاؤں، لمبا قد، یوں لگ رہا تھا جیسے میرے سامنے کوئی الپسر ا بیٹھی ہوئی ہے، میں مبہوت رہ گئی، کتنی خوبصورت تھی وہ، پتہ نہیں کیوں اسے دیکھ کر مجھے تاج محل یاد آ گیا، شاید وہ مجھے تاج محل جتنی ہی خوبصورت اور اداس لگی تھی، اگر وہ مرد ہوتی تو……‘‘۔
’’کہاں گم ہو گئی ہو‘‘ اس نے میرے خیالات کی مالا توڑ دی۔
’’ تمہارے حسن کا جلوہ دیکھ رہی تھی، آفتاب ہو، مہتاب ہو، کسی شاعر کا خواب ہو، تم کتنی لاجواب ہو، جی چاہتا ہے تمہیں دیکھتی رہوں، یہ حسن گلوسوز، جی چاہتا ہے تمہیں تکتی رہوں‘‘ میرا جواب سن کر وہ کھلکھلا کے ہنسی تو اس کے دانت موتیوں کی طرح چمک اٹھے۔
’’میری کہانی بھی سنو گی یا مجھے دیکھتی رہو گی‘‘ وہ مسکرائی۔
’’ہاں شروع کرو‘‘۔
’’صائمہ! معلوم نہیں کہ مجھ پر جو بیتی اس کا آغاز کہاں سے کروں، نہ ہی زندگی کا پہلا باب یاد ہے اور نہ ہی آغاز کا اتہ پتہ، ہاں اتنا یاد ہے کہ میں ایک ٹوٹے ہوئے گھر میں پیدا ہوئی‘‘۔
’’ٹوٹے ہوئے گھر میں؟ میں نے استفسار کیا۔
اس نے نیم کھلی آنکھوںسے مجھے دیکھا ’’ہاں! امی اور ابو کی آپس میں بنتی نہیں تھی، شاید میری عمر اس وقت 10 برس ہو گی جب ہم اسلام آباد سے انگلینڈ چلے گئے، میں نے کچھ تو اسلام آباد کے ایک اچھے نجی سکول میں پڑھا تھا اور کچھ تعلیم گوروں کے دیس میں ہی مکمل کی، میں آج تک نہ جان پائی کہ پپا کو انگلینڈ جانے کی کیا سوجھی تھی! پپا اور ممادونوں ملازمت کرتے تھے، پپا فیکٹری سے جو بھی کما کر لاتے وہ شراب اور گوریوں پر اڑا دیتے، اور مم ڈیڈ کی گالیاں بھی کھاتی اور گھر کا خرچہ بھی چلاتی، آنے بہانے ڈیڈ مما کو روز ہی پیٹتے، اس کے باوجود مما ڈیڈی کو کسی طور پر بھی چھوڑنے پر تیار نہ تھی‘‘۔
میں نے کئی بار ضد کی، چلو مما! پاکستان چلتے ہیں، لیکن ڈیڈ اور مما کو اب پاؤنڈز سے زیادہ شاید کوئی چیز پیاری نہیں تھی، پاکستان جانا تو دور کی بات وہ تو پاکستان کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے، ہے نہ اچنبھے کی بات، لیکن یہ بھی کھرا سچ ہے کہ میں اپنے وطن کو ایک دن بھی نہیں بھولی تھی، میں اپنی سہیلیوں، رشتہ داروں، اپنے پنجاب کے اسلام آباد کو ہر رات سپنے میں دیکھی، ایسی شاید ہی کوئی رات گزری ہو گی جب مجھے میرے اپنے خواب میں نہ آئے ہوں، گھر کا ماحول ہی ایسا تھا کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکی۔ کالج کی پڑھائی کے دوران ہی ایئرپورٹ پر جاب مل گئی‘‘۔
’’مجھے لگا جیسے میں اس گھٹن زدہ گھر سے نکل کر رنگ برنگے میلے میں آ گئی ہوں، روزانہ ہزاروں مسافر جہازوں پر چڑھتے اور اترتے، ایسے ہی جیسے روز نئے پنچھی آتے اور اڈاری مار جاتے، میں طرح طرح کے لوگوں کو آتے جاتے دیکھتی، انہیں گلے ملتے دیکھتی تو میرے اندر توڑ پھوڑ سی شروع ہو جاتی، لوگ کتنے خوش ہیں، ایک دوسرے کو کتنا چاہتے ہیں، جب کوئی میاں بیوی الگ ہوتے تو ایک دوسرے کی بانہوں میں سما جاتے، بیوی روتی تو شوہر اسے سینے سے لگا لیتا اور اس کی آنکھیں بھی نم ہو جاتیں، مجھے اچھی تنخواہ ملتی تھی، لیکن جس روز تنخواہ ملنا ہوتی تھی میں اداس ہو جاتی، سوچوں کے جال میں جکڑی جاتی کہ پیسے مما کو دوں گی تو ڈیڈ شراب کے لئے پیسے مانگے گا، مما کہے گی بچی کے پیسے شراب پر نہ بہا ،دونوں میں جھگڑا ہو گا یہ ایسے ہی تھا کہ جیسے پیسہ ہمارے گھر کی لڑائی کی آگ میں پٹرول کام دے رہا ہو، تم دھیان سے سن رہی ہو نا؟ وہ بات کرتے کرتے پل بھر کیلئے رُکی۔
’’رُکو مت‘ بولتی رہو، داستان کو بریکیں نہ لگاؤ، میں سب سن رہی ہوں میری مکمل توجہ تمہاری باتوں پر ہے‘‘ صائمہ نے ایک ہی سانس میں جواب دیا۔
’’ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ کانٹوں بھری زندگی کے تین برس گزر گئے، تن من میں جو چبھن تھی وہ دور نہ ہو سکی، ایک روز پاکستان جانے والی فلائٹ تاخیر کا شکار ہو گئی، سارا سٹاف مسافروں کی خدمت میں لگا ہوا تھا، انہیں مسافروں میں مجھے سکندر ملا، میں تھکی ہاری ایک کرسی پر تھوڑی دیر آرام کے لئے بیٹھی ہی تھی کہ وہ میرے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھا، میں نے سرسری نظروں سے اسے دیکھا اور پھر نظر نہ ہٹی، دل میں اُتھل پتھل سی ہونے لگی، ایسے لگا جیسے اس نے مجھے ہپناٹائز کر دیا ہو، میں جیسے نظر جھپکنا بھول چکی تھی، ایئرپورٹ پر خوبصورت لوگ تو میں روز دیکھتی تھی، لیکن سکندر کیلئے جیسے خوبصورت جیسا لفظ بھی چھوٹا تھا، گورا چٹا رنگ، گھنگھریالے بال، ہونٹ گلابی اور درویشوں جیسی آنکھیں، چھیل چھبیلا، بانکا، سنجیلا، طرحدار ، مجھے اپنا وجود پگھلتا محسوس ہوا، میں اس کی آنکھوں میں کھو گئی، وہ مسکرایا تو مجھے اپنا خیال آیا اور تھوڑا سا سنبھلی کہ اٹھ کر چلی جاؤں لیکن میرے تو پاؤں میں جیسے جان ہی نہیں رہی تھی‘‘۔
’’کیا نام ہے آپ کا؟ اس نے آہستہ سے پوچھا۔
چہرے مہرے کی طرح اس کی آواز بھی خوبصورت تھی۔
’’شاہین‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’بہت پیارا نام ہے لیکن اتنا نہیں جتنی پیاری تم خود ہو، تمہارا نام تو تصور ہونا چاہیے تھا یا تصویر، جان بہار، کسی مصور کا شاہکار دکھتی ہو تم ‘‘
وہ بات کر رہا تھا اور مجھے لگ رہا تھا اس کی آنکھوں کا سحر مجھے دھیرے دھیرے جکڑ رہا ہے، اس سرو قد کے منہ سے اپنی تعریف سن کر یوں لگا جیسے دل و دماغ پر خمار سا چھا رہا ہو، لیکن میں نے کوشش کہ اسے میری اندر کی توڑ پھوڑ کارتی بھر بھی احساس نہ ہو۔
’’کہاں جا رہے ہیں آپ؟‘‘
’’پاکستان اور ملتان، ملتان کے قریب ہمارا گاؤں ہے، گھر بار ہے، والدین ہیں، زمین جائیداد ہے، سارا گاؤں ہی ہمارا ہے، ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں، سال میں چار چکر وطن کے لگا لیتا ہوں،وہ ملتان کا بتا رہا تھا، وہ شہر جو اولیاء اﷲ کی سرزمین کہلاتا ہے، جہاں حضرت بہاء الدین زکریا، حضرت شاہ رکن عالم، بی بی پاک دامن، حضرت شاہ شمس تبریز اور بڑی بڑی برگزیدہ ہستیوں کے مزار ہیں، دربار ہیں، خانقاہیں ہیں۔
’’تم نے دیکھا ملتان‘‘۔
’’نہیں! میں 10 سال کی تھی جب گوروں کے دیس کے باسی بن گئے، نام سنا ہے، جان پہچان والوں سے سنا ہے ملتان بزرگان دین کا شہر ہے، بڑا جی چاہتا ہے کہ وہاں جاؤں، اﷲ کے نیک بندوں کے درباروں پر حاضری دوں‘‘۔ میں اداس سے لہجے میں بولی۔
’’چلو آج ہی لے چلتا ہوں‘‘ اس نے مذاق میں کہا اور میں شرما کر رہ گئی‘‘۔
’’میرا نام سکندر ہے، 7تاریخ کو واپس آؤں گا، ملو گی مجھے یہیں ایئرپورٹ پر، وہ ایک ماہ کے لئے جا رہا تھا۔
’’پتہ نہیں‘‘، میں وہاں سے اُٹھ گئی، سکندر چلا گیا اورمیرے لئے ایک ماہ جیسے ایک صدی بن گیا، ایسی ویسی کوئی بات بھی نہیں تھی لیکن لگ رہا تھا کہ وقت جیسے تھم گیا ہے، گھڑی کی سوئیاں جیسے گھومنا بھول گئی ہیں، وہ مجھے اپنے سحر میں جکڑ کر چلا گیا، لگ رہا تھا جیسے اس نے مجھ پر جادوئی پھونک مار دی ہو، جب بھی پاکستان کی فلائٹ آتی میں دائیں بائیں نظریں گھماتی کہ کہ شاید وہ پہلے نہ آ جائے اور گزر نہ جائے، یہ مجھے کیا ہو گیا تھا؟ من اداس، میلے میں ویرانی، جگ سنسان لگنے لگا تھا، دن کو چین نہ رات کو سکون، سوتی تو خوابوں میں گھس آتا، جاگتی تو جیا بے کل رہتا، دھیرے دھیرے تین ہفتے گزر گئے اور پھر مہینہ کی 7 تاریخ آ گئی، میں جان بوجھ کر ایک شاپ میں جا کر بیٹھ گئی کہ دیکھوں تو وہ مجھے تلاش بھی کرتا ہے یا صرف باتیں ہی کرتا ہے، سارے مسافر گزر گئے، سکندر آخر میں آیا۔
وہ دائیں بائیں آنکھیں گھماتا مجھے ہی تلاش کر رہا تھا، پندرہ منٹ تک وہ مجھے ڈھونڈتا رہا اور میرے من میں پھول کھل رہے تھے، میں اس صورتحال سے لطف اندوز ہو رہی تھی، پھر اس نے اپنے کوٹ کی جیب سے رومال نکالا، شاید پریشانی سے اسے پسینہ آ گیا تھا، اس نے پیشانی کو رومال سے صاف کیا اور بالآخر کسی ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح اس نے بیگ اٹھایا اور سر جھکائے چل پڑا، میں شاپ سے نکلی اور اسے عقب سے آواز دی۔
سکندر!
وہ رک گیا ۔
ایسے لگ رہا تھا جیسے بیک وقت ہزاروں گلاب اس کے چہرے پر کھل اٹھے ہیں، ’’مجھے پتہ تھا تم ضرور آؤ گی‘‘ اس نے مجھ سے معانقہ کیا، زندگی میں پہلا موقع تھا کہ کسی مرد نے مجھے اپنی بانہوں میں لیا تھا، اس کے جسم سے مجھے عجیب طرح کی تپش سی نکلتی محسوس ہوئی، مجھے لگا اس تپش سے میں پگھل رہی ہوں، گم سم، بے خبری اور بے خودی کا سا عالم تھا، میں نے بھی اس کی بازوؤں کی گرفت سے نہ نکلناچاہا،
’’چلو سامنے بیٹھ کر چائے پیتے ہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ریستوران کی طرف قدم بڑھانے لگا، مجھے لگا کہ میں گونگی بہری ہو گئی ہوں، کیفیت ایسی تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، اپنے اندر کی کیفیت سے شکست کھا کر میں اس کی باتوں کا ’’ہوں، ہاں! اچھا‘‘ جیسے الفاظ سے جواب دے رہی تھی، وہ میرے لئے پاکستان سے سونے کی ایک خوبصورت چین لیکر آیا تھا، اس نے اپنے ہاتھوں سے چین میری گردن میں ڈالی، وہاں ہم کتنی دیر بیٹھے رہے، گزرتے سمے کا پتہ ہی نہ چلا، بادل نخواستہ ہمیں اٹھنا ہی پڑا۔ اس نے ویک اینڈ پر ملاقات کا وعدہ کیا اور بائے بائے کرتا چلا گیا۔
میری بیابان دنیا میں جیسے جا بہ جا رنگارنگ پھول اُگ آئے تھے، بے مزا زندگی میں سرور کی لہریں میرے انگ انگ میں سرایت کر گئیں، میں خود سے بے خود ہوتی جا رہی تھی، میں محسوس کر رہی تھی جیسے عام دنیا سے نکل کر کسی اور ہی دنیا میں رہنے لگی ہوں، سکندر کا خیال ایک نشے کی طرح مجھے مخمور رکھتا، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے وہی نگاہوں میں رہتا، گھر میں مما پپا کی چیخ چنگھاڑ، تو تو میں میں، کام کا دباؤ، جیسے سب مجھے بھول گیا، ہفتے کے روز میں نے اپنا سب سے خوبصورت سوٹ نکالا، زیب تن کیا، آئینہ میں خود کو دیکھا اور پھر سکندر سے ملنے چلی گئی، وہ جیسے پہلے سے میرا منتظر تھا، اس کی نگاہیں مجھ سے چار ہوئیں تو جیسے چراغ جل اٹھے ہوں، سفید رنگ کی مرسڈیز میں بڑے کروفر سے بیٹھا وہ کوئی راجکمار لگ رہا تھا۔ مجھے اپنی قسمت پر رشک آنے لگا، ہم نے باتیں شروع کیں تو پھر بات سے بات نکلتی گئی، اور وقت نکلنے کا احساس تک نہ ہوا، ہم بہت کم وقت میں ایک دوسرے کے بارے میں بہت زیادہ جان لینا چاہتے تھے۔ میں نے اسے بتایا کہ گھر بار ہوتے ہوئے بھی میں کس قدر تنہا ہوں، میرے مما، پپا کیسے ایک دوسرے کی ضد اور دشمن ہیں۔
’’شاہین! بات دشمنی کی نہیں ہوتی، دراصل ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھوتہ کرنے کی بات ہوتی ہے، لیکن اگر میاں بیوی کا میل ہی ٹھیک نہ ہوا تو پھر زندگی کی گاڑی کو زبردستی نہیں کھینچا جا سکتا، اندر کی دوریوں کے پنکچر زندگی کی گاڑی کو رواں رکھنے میں بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں، کیل کانٹے چبھتے بھی ہیں اور سوراخ بھی کر دیتے ہیں، زندگی کے ایسے گھاؤ بھرنے سے بھی نہیں بھرتے، بے مزا زندگی کانٹوں کی سیج بن کر رہ جاتی ہے جس میں زخموں سے چور انسان لوٹ پوٹ ہوتے رہتے ہیں، بے جوڑ شادیوں کی سزا بچے بھگتے ہیں، اس کی باتوں سے مجھے لگاجیسے وہ کہیں کھو گیا ہے۔
’’کیوں سکندرر! کیا تمہارے والدین بھی؟‘‘ میں حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگی۔
’’نہیں! نہیں! وہ جیسے خیالوں کے بھنور سے نکل آیا ہو‘‘۔ میرے امی، ابو تو شاہوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں، وہ پرانے دور کے ہیں جب شادی ایک لاٹری کی طرح ہوا کرتی تھی، اور ان کی لاٹری لگ گئی تھی، وہ بہت خوش و خرم زندگی جی رہے ہیں‘‘ اس نے سوفٹ ڈرنک کا کین ٹیبل پر رکھا اور خاموش ہو گیا۔
’’تو تم اس قدر اداس کیوں ہو گئے ہو؟‘‘
’’میں دراصل اپنی بپتا سنا رہا تھا‘‘۔
’’میری اور میری وائف کی کبھی نہیں بنی، ہر وقت ان بن رہتی ہے، وہ ایک امیر گھرانے کی ایک خوبصورت لڑکی ہے لیکن سو فیصد انگریز ہے، میاں بیوی کے رشتے کے تقدس کو سمجھتی ہے نہ مشرقی روایات کو، مجال ہے جو اس کی اجازت کے بغیر گھر میں پتہ بھی ہل جائے، میں جانتا ہوں وہ مجھے چاہتی ہے، مجھ سے پیار کرتی ہے لیکن وہ میرے دل میں گھر نہیں کر سکی، نہ جانے کیوں؟ میں نے کبھی دل کی گہرائیوں سے اسے نہیں چاہا، صرف بچوں کی وجہ سے جئے جا رہے ہیں‘‘ وہ بولتے بولتے خاموش ہو گیا۔
’’سکندر آپ کے بچے بھی ہیں، دیکھنے میں تو بالکل کنوارے لگتے ہو‘‘ شاہین نے حیرانی سے کہا ’’نہیں شاہین! میرا بڑا بیٹا 15 سال کا ہے اور بیٹی 11 سال کی، میں شادی کر کے انگلینڈ آیا تھا، میری شادی رشتہ داروں میں ہوئی تھی، میں نے سوچا تھا کہ حدیقہ پڑھی لکھی ہے، میری اور میرے گھر والوں کی قدر کرے گی، لیکن اس نے مجھے ہمیشہ گھر کے سامان کی طرح سمجھا، جیسے میں اس کا نوکرہوں، جب میں اپنے گھر تھا تو شہزادوں کی طرح زندگی کو بسر کیا، لیکن یہاں آ کر جیسے کمی کمین بن گیا ہوں، سالا، ڈارلنگ، ڈارنگ، پلیز، پلیز کہتے منہ دکھنے لگ جاتا ہے، وہ یہی سمجھتی ہے جیسے میں اس کا غلام ہوں، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ میں اس کی ٹکے جتنی بھی قدر نہیں کرتا، لوگ تو جانوروں کو بھی پیار سے اپنا بنا لیتے ہیں، اپنے بس میں کر لیتے ہیں، وہ بھی کیا بیوی ہوئی جو مرد کو نہ جیت سکے، زندگی میں اتنا بڑا خلا ہے کہ یہی لگتا ہے کہ میں زندگی کو نہیں بلکہ زندگی مجھے بسر کر رہی ہے، بڑی خشک اور صحرا کی طرح ویران زندگی جی رہا ہوں‘‘ یہ بتا کر اس نے چپ سادھ لی، خاموشی طویل ہو گئی تو میں نے اسے متوجہ کیا۔
’’کیا بات ہے، میری شادی کا سن کر تمہارا موڈ خراب ہو گیا‘‘ پر یہ بھی کیا شادی ہے، وہ الگ کمرے میں ہوتی ہے اور میں الگ کمرے میں، جب دل ہی نہ ملتے ہوں تو جسمانی ملن کیا معنی رکھتا ہے؟ وہ مجھے اپنے دکھڑے سناتا رہا۔
’’میرا موڈ خراب نہیں ہوا، میں تو سوچ رہی تھی کہ ہر دوسرے گھر کا حال ایسا ہی ہے، یہاں لوگ ادھوری زندگی جی رہے ہیں‘‘ مجھے اپنا گھر یاد آ گیا۔
’’ہاں یہی سمجھ لو، نامکمل زندگی! پانی بھی برسے اور بندہ بھیگے بھی نہ، یہ ادھوری زندگی پوری بھی ہو سکتی ہے اگر کوئی اچھا جیون ساتھی مل جائے تو‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں اداسی کی پرچھائیں دیکھیں۔
’’کیا مطلب آپ کا؟‘‘
’’مطلب یہ کہ بچوں کی وجہ سے میں بیوی سے علیحدگی اختیار نہیں کر سکتا‘ میری وجہ سے ان معصوموں کی زندگی کیوں خارزار بن جائے، ٹوٹے بکھرے گھروں کے بچے کس طرح کے ہوتے ہیں یہ تم سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے! پرہاں! ان سب تلخ حقائق کے باوجود مجھے کوئی اپنے پیار کی گھنی چھاؤں میں رہنے کی بھیک دے دے تو میں آخری سانسوں تک اس کا ساتھ نبھانے کو تیار ہوں‘‘ اس نے یہ کہتے ہوئے میرا ہاتھ تھام لیا۔
’’زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ، وہ کیسے؟ آپ شادی شدہ ہو، کیا آپ کی بیوی آپ سے علیحدگی اختیار کر لے گی؟ شادی کے بغیر زندگی بھر کا ساتھ کیسے نبھایا جا سکتا ہے؟‘‘ یہ بات میرے گلے سے اتر نہیں رہی تھی‘‘۔
’’پیار تو ایک لافانی جذبہ ہے شاہین! اس کا شادی سے کوئی تعلق نہیں، شادی سے پیار نہیں خریدا جا سکتا ہے، وہ اپنے فلسفے سے مجھے رام کرنے کی کوشش کر رہا تھا، وہ مجھے لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا، سیف الملوک اور نہ جانے کون کون سی عشق و محبت کی لوک کہانیاں سنا کر میرے دل میں اترنے کی جستجو کررہا تھا۔
میں اس کی بات کا مفہوم سمجھ رہی تھی اور شش و پنج میں تھی کہ اسے کہوں تو کیا؟ میں تو خود اس پر عاشق ہو گئی تھی لیکن ہم دونوں کے ایک ہونے کا کوئی درمیانی راستہ سجھائی نہ دے رہا تھا۔
’’نہ جانے کیوں تمہیں دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ ہماری جوڑی کتنی فٹ رہے گی، کتنی پیاری ہو تم، تمہیں دیکھ کر تو کسی کا بھی ایمان ڈانواں ڈول ہو سکتا ہے‘‘ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جب یہ کہا تو مجھے لگا وہ دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے نہ مجھے پھانسنے کیلئے مکھن لگا رہا ہے، مجھے راہ چلتے دیکھ کر کئی بندے میرے حسن میں کھو جاتے تھے، یہ میں نے کئی بار محسوس کیا تھا، میں اپنی خوبصورتی کے قصیدے نہیں پڑھ رہی، مجھے رب نے بنایا ہی خوبصورت تھا۔
’’میری محبوبہ بنو گی‘‘ وہ جیسے میرے ترلے کررہا ہو۔
’’پتہ نہیں‘‘۔
یہ کہہ کر میں گھر چلی آئی اور پھر کئی روز میں سکندر سے نہ ملی لیکن اس کو بھولی بھی نہ، بے چین سی کیفیت میں میرا دل کہیں بھی نہ لگ رہا تھا، اس کی یاد کسی کل آرام نہ لینے دیتی تھی، جو اس نے کہا تھا وہ قابل قبول نہ تھا، لیکن دل مر جانے نوں پتہ نئیں کی ہویا سی کہ اس کی طرف ہی کھنچا چلا جاتا تھا، میری زندگی جیسے کسی طوفان میں گھر چکی تھی۔
کبھی میں نقش دیوار ہو جاتی تو کبھی دل میں پیارے کی ہلکی ہلکی ٹیس محسوس کرنے لگتی۔ مجھے رہ رہ کر اس کی نگاہ ناز کچوکے سے لگاتی تھی، نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا معاملہ تھا ،رات بھر میں سکندر کے بارے میں سوچتی رہی، اس کو بھولنا شاید میرے لئے مشکل ہو گیا تھا، مجھے دنیا کے کئی بڑے افراد یاد آئے جنہوں نے دو دو شادیاں کی تھیں، اور کئی شادی شدہ آدمی ذہن میں آئے جن پر کنواری لڑکیاں مرتی تھیں۔
دماغ دل کا ساتھ نہیں دے رہا تھا، کیا غلط ہے، کیا صحیح ہے کے چکر میں ایک ہفتہ گزر گیا، ایک روز میں ڈیوٹی ختم کر کے ایئرپورٹ سے نکلی تو سامنے سکندر کار میں موجود تھا، شیو بڑھی ہوئی تھی، سر کے بال الجھے الجھے اور اس کی درویشوں جیسی آنکھوں میں جیسے برسوں کی اداسی تھی، اس کو دیکھتے ہی میرے دل میں خوشی کی لہر سی ابھری لیکن میں نے اس پر ظاہر نہ ہونے دیا۔
’’تمہیں ایک بار بھی یاد نہیں آیا میں، کتنی بے مروت ہو تم‘‘ اس نے نم آنکھوں سے شکوہ کیا۔
میں کچھ نہ بولی، اسکی چشم تر دیکھ کر میرا دل اداسی سے بھر گیا، لیکن ساتھ ہی یہ احساس بھی جاگزیں ہوا کہ سکندر مجھے کتنا چاہتا ہے۔
’’مجھے بھولے نہیں آپ‘‘ میں اس کے من میں جھانکنا چاہتی تھی۔
’’تم کوئی بھولنے والی چیز ہو؟ اس نے سوال داغ دیا۔
پھر وہ رات ہم نے اکٹھے گزاری، وہ مجھے چھوتا تو میرے رگ و پے میں سرور کی لہریں اٹھنے لگتیں، امنگوں، ترنگوں کا تلاطم برپا ہو جاتا، جب میں اس کے کاندھے پر سر رکھتی تو بے حد سکون محسوس ہوتا، میں اس کی محبت کی حوالات میں قید ہو چکی تھی۔
پھر تو جیسے یہ معمول بن گیا، وہ بزنس کے بہانے اور میں کام کے بہانے اکثر راتیں باہر گزارنے لگے، صبح جب لمحہ جدائی آتا تو لگتا جسم سے روح جدا ہو رہی ہے ’’آپ اپنا فلیٹ لے لو‘‘ ایک روز سکندر نے میرے دل کی بات کہہ دی، پے منٹ میں کروں گا، اپنی پسند کا گھر تم تلاش کرو گی‘‘۔
میں نے سنگل بیڈ روم کا چھوٹا سا فلیٹ پسند کر لیا، سکندر اور میں نے مل کر خرچہ کیا، مہینہ بھر میں میں لینڈ لیڈی بن چکی تھی۔ سکندر نے گھر کو سامان سے بھر دیا، گھر میں عیش و آرام کی ہر وہ چیز موجود تھی جس کا میں ارمان کر سکتی تھی، مما پپا کو جب پتہ چلا تو انہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، دونوں مجھ سے جھگڑ بیٹھے۔ ’’آپ کی جھک جھک سے چھٹکارا پانے کیلئے ہی میں نے یہ قدم اٹھایا ہے‘‘ مجھ سے رہا نہ گیا، یہ ہر وقت کی ٹر ٹر نے میرا سکون برباد کر دیا ہے، میری اپنی بھی کوئی لائف ہے، گھر چھوڑ رہی ہوں دنیا نہیں، آتی جاتی رہوں گی اگر آپ کو پسند ہو تو‘‘ یہ میرے آخری الفاظ تھے اس کے بعد میں نے وہ چار دیواری چھوڑ دی جہاں میں نے زندگی کی بہاریں کم اور خزاں جیسا عرصہ زیادہ بتایا تھا۔
سکندر کے پیار نے مجھے دنیا کے ہر رشتے سے جیسے بے نیاز کر دیا تھا، میں اس کی محبت میں ایسی گم ہوئی کہ سارے غم جیسے دفن ہو کر رہ گئے ہوں۔
وہ روزانہ شام کو گھر جانے سے قبل تین چار گھنٹے میرے ساتھ گزارتا، میں اس کیلئے کھانا بناتی، اس کے کپڑے دھوتی، استری کرتی، پوری عورت بن کر میں اس کی خدمت کرتی، اس کی سیوا میں کوئی کسر نہ چھوڑتی تھی، میں نہیں چاہتی تھی جو کمی اس نے بیوی میں محسوس کی تھی وہ کمی مجھ میں بھی ہو، میں اس کے جذبات و احساس کی قدر کرتی، اسے سر آنکھوں پر بٹھاتی، جب نصف شب کو وہ مجھے چھوڑ کر جاتا تھا تو میں اکثر رو پڑتی‘‘۔
’’سن رہی ہو نہ صائمہ‘‘ اس نے اچانک ہی جیسے بم پھوڑ دیا ہو مجھے جھٹکا لگا، ہوں، ہاں،، ہاں… میں تو اس کی کہانی میں ایسی کھوئی کہ اس نے مجھے متوجہ کیا تو جیسے میں کسی حصار میں سے نکل آئی ہوں۔
’’رکو مت، جاری رکھو، میں ہمہ تن گوش ہوں، میرے اتنا کہتے ہی اس نے سلسلہ وہیں سے جوڑا‘‘۔
’’روتی کیوں ہو؟ جتنا پیار ہے، سارا تو تمہارا ہے، تمہیں دے کر جا رہا ہوں، اس کے لئے کیا بچا ہے؟‘‘ وہ مجھے تسلی دیتا۔
میں چاہتی ہوں کہ تم صرف میرے بن کے رہو، کب آئے گا وہ وقت‘‘ میں شکوہ کرتی۔
’’میں نے تو تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اپنی وائف کو نہیں چھوڑ سکتا‘‘ جب وہ میری گود میں سر رکھ کر یہ کہتا تو میں برف کی طرح سرد پڑ جاتی۔
’’میرا ایک دوست کہتا ہے، مانگی ہوئی سگریٹ، اخبار اور مانگی ہوئی بیوی کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے، میں نے کبھی اخبار اور سگریٹ تو مانگا نہیں پر بیوی…‘‘ جب وہ شرارت سے ایسا کہتا تو میں اس کا کان پکڑ کر مروڑ دیتی۔
’’تو پھر مانگی ہوئی چیز کتنے دن چلتی ہے؟ آخر تمہاری مالکن تمہیں مجھ سے چھین کر لے جائے گی‘‘ ایک ڈر میرے اندر سے اٹھتا۔
’’وہ میری مجبوری ہے شاہین، اور تم میرا عشق ہو، مجبوری کبھی بھی عشق سے جیت نہیں سکتی‘‘ وہ میرا دل رکھنے کے لئے کہتا تو میں مجبوری اور عشق کی اس منطق میں سب کچھ بھول جاتی، یاد رہتا تھا تو صرف سکندر کا پیار اور ساتھ، جس کے لئے میں ہر قربانی دینے کو تیار تھی، وہ پھر دیر تک میرے لمبے بالوں سے کھیلتا رہتا، یا پھر میرے پاؤں اپنی گود میں رکھ کے بیٹھ جاتا، عورت کا چاہنے والا اس کے قدموں میں بیٹھا ہو تو وہ اپنے آپ کو نور جہاں سمجھنے لگتی ہے، اس حکومت کا نشہ بھی تخت طاؤس سے کم نہیں ہوتا، اس نشے میں، میں گناہ اور ثواب سب بھلا بیٹھی تھی۔
گرمیوں کی چھٹیاں تھیں، سکندر دو ہفتے کیلئے کاروباری دورے پر گیا ہوا تھا، اچانک ایک صبح میرا دل گھبرایا، مجھے لگا میں ماں بننے والی ہوں۔ میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، حواس باختہ سی ہو گئی، سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ خوشی سے جھوموں یا اداسی کی کالی چادر اوڑھوں، ہنسو ں یا روؤں، میں اندھیروں، اجالوں میں گم سم سی کھو گئی، پھر جھٹ پٹ میں نے سکندر کے دفتر فون کیا، لیکن پتہ چلا وہ ابھی واپس نہیں آیا، کئی روز گزر گئے، کچھ ایسا احساس تھا جو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ صرف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ سکندر کو پتہ چلے گا تو خوشی سے پاگل ہو جائے گا، میں فوراً اس کو یہ خوشخبری سنانا چاہتی تھی، مجھے اس لمحے کا بے چینی سے انتظار تھا لیکن اس کا کچھ معلوم نہیں پڑ رہا تھا کہ وہ کہاں گیا ہے، جب بھی فون کرتی تو جواب ملتا ضروری کام سے باہر گئے ہوئے ہیں، موبائل پر ملاتی تو نمبر بند ملتا تھا۔ اچانک ایک روز اس کا فون آیا، وہ ایئرپورٹ سے ہی بول رہا تھا، میں نے آن کی آن میں اسے خوشخبری سنا دی، کچھ لمحوں کے لئے اس نے چپ سادھ لی۔
’’آج ڈاکٹر کے پاس چلی جانا، وہ سب ٹھیک کر دے گا‘‘ اس کے الفاظ ہتھوڑے کی طرح میرے دماغ پر لگے‘‘۔
’’کیا ٹھیک کر دے گا‘‘ میں کچھ کچھ سمجھتے ہوئے بے چینی سے بولی۔
’’اس ہفتے جا کر ابورشن کرا لو، پہلے ہی دیر ہو چکی ہے، مزید دیر مناسب نہیں‘‘ اس نے جیسے حکم دیا ہو۔
’’ابورشن ! پر کیوں‘‘ میں بوکھلا گئی۔
’’کیوں کا کیا مطلب؟‘‘ میں فارسی بول رہا ہوں جو تمہیں سمجھ نہیں آ رہی‘‘ وہ پہلی بار مجھ سے تلخ اور اونچے لہجے میں مخاطب ہوا تھا۔
’’لیکن میں اس بچے کو جنم دینا چاہتی ہوں، یہ تو ہمارے پیار کی نشانی ہے، سچے پیار کی نشانی‘‘ میں نے اپنی وکالت خود ہی کرنا چاہی۔
’’اوہ، شٹ اپ! میں پہلے ہی دکھی ہوں، ڈونٹ گو می دِس بُل شٹ‘ ایک عورت نے پہلے زندگی جہنم بنا رکھی ہے، اب دوسری آ گئی ہے‘‘ وہ آپے سے باہر ہو گیا۔
’’پر سکندر‘‘ میں بولنے لگی تو اس نے دھاڑنے کے انداز میں مجھے ٹوکا اور بولا ’’فضول باتیں سننے کے لئے میرے پاس وقت نہیں، میں ا ور بہت سے کاروباری معاملات میں الجھا ہوا ہوں، چپ چاپ ڈاکٹر کے پاس جاؤ، خرچہ میں برداشت کروں گا، اس نے یوں مشورہ دیا کہ جیسے میرے سر میں درد ہے اور جا کر گولی لے آؤں‘‘۔
’’بات سنو سکندر، میں ماں بننا چاہتی ہوں، آپ کے بچے کی ماں، جب آپ میرے پاس نہیں ہو نگے تو آپ کی نشانی مجھے آپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دے گی، بلاوجہ غصہ نہ کرو‘‘۔
’’اُلو کی پٹھی، ماں بننا چاہتی ہے، ہزاروں عورتیں روز ماں بنتی ہیں، یہ کوئی نیا کام ہے؟ تیرے ماں بننے سے کون سے سرخاب کے پر لگ جائیں گے تمہیں ، بے وقوفی چھوڑ، عقل سے کام لے، مجھے تمہارا سہارا چاہیے، جب میں تمہارے پاس آتا ہوں تو غم بھاگ جاتے ہیں، دکھ بھول جاتا ہوں، میرے لئے درد سر نہ بنو، اور پھر تم کنواری ہو، ناجائز بچے کو معاشرہ کبھی قبول نہیں کرتا، سبھی اسے حرام کا کہیں گے، تم کہیں منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہو گی‘‘ وہ مسلسل بولے جا رہا تھا، مجھے لگ رہا تھا میرے سر میں کوئی کیل ٹھونک رہا ہے
’’حرام کا کیوں، تم باپ ہو اس بچے کے، ہماری شادی نہیں ہوئی تو کیا ہوا، رب تو جانتا ہے کہ میں تیرے بچے کی ماں ہوں‘‘ میں نے بڑے یقین سے کہا قانون کے مطابق تم میری بیوی ہونہ میں اس بچے کا باپ، مجھے جذباتی بلیک میلنگ پسند نہیں، اور نہ ہی میں نے کسی کورٹ کچہری میں جا کر کہنا ہے کہ میں تمہارے بچے کا باپ ہوں، تمہیں گھر لے دیا، سیٹل کر دیا، بس اس سے زیادہ مجھ سے کوئی امید نہ رکھنا، تمہارے ماں بننے کے شوق میں میں اپنا گھر اجاڑ لوں، لاکھو ں کا بزنس ڈبو لوں، میرے بچوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا، کبھی سوچا تم نے‘‘ وہ مزید بھڑک گیا۔
اپنے ارمانوں کا یوں بے دردی سے خون ہوتا دیکھ کر میں نے حوصلہ مجتمع کیا اور بھیک مانگنے کے سے انداز میں بولی۔
’’پھر بھی آپ سوچ سمجھ کر بتاؤ، گرم ہونے کے بجائے نرم ہو کر احساس کرو کہ آپ کہہ کیا رہے ہو‘‘
’’فالتو باتیں سوچنے کا میرے پاس وقت نہیں، میں ان چھٹیوں میں بچوں کو لیکر امریکہ جا رہا ہوں، مجھے فون نہ کرنا‘‘ یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا، مجھے لگا جیسے میرے دل کی دھڑکن بند ہوتے ہوتے رہ گئی ہو۔
وہ ہو گیا تھا جو میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، میرے کبھی وہم و خیال میں بھی نہیں آیا تھا کہ بیل یوں منڈھے چڑھے گی، میرے اوسان خطا ہو گئے، میں ’سم‘‘ بکم‘‘ کی عملی تصویر بن کر رہ گئی، بے حیائی کا جو برقع میں نے منہ پر لے لیا تھا، اس نے یہی چند چڑھانا تھا، مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ سکندر مجھے یوں زندگی کے بھنور میں چھوڑ کر چلا جائے گا، وہ ایسے پیٹھ دکھائے گا، میری آنکھوں سے بے بسی کے آنسو نکلے اور میرے گال بھگوتے گردن میں جذب ہو گئے، مجھے خود پر ترس آیا، میں کیا گُل کھلا بیٹھی تھی، گھر سے باغی بن کر نکلی، پیار میں ایسی دیوانی ہوئی کہ سماج کی بھی پروانہ کی اور اپنی سونے جیسی جوانی سکندر کے سپرد کر دی، وہ مجھے حرام کا مال سمجھ کر استعمال کرتا رہا، اور موقع آنے پر چوروں کی طرح منہ چھپا کر بھاگ گیا، مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گری میں رو رہی تھی نہ ہنس رہی تھی، لیکن آنکھیں نم ہو رہی تھیں، فلیٹ میں تنہا بیٹھی تھی، اسی فلیٹ میں جس میں میرے سکندر کی تصاویر آویزاں تھیں، یہ فلیٹ مجھے کسی عبادت گاہ کی طرح لگتا تھا، آج اسی فلیٹ میں، میں خود کو کسی کوٹھے والی کی طرح محسوس کر رہی تھی۔ میرے دل میں ٹیس سی اٹھی، میں اپنی ہی نظروں میں گری جا رہی تھی، مجھے خود سے بدبو آنے لگی، نفرت محسوس ہونے لگی، دل چاہا کسی گاڑی کے نیچے جا کر سر دے دوں یا بلڈنگ سے چھلانگ لگا کے اس نجاست والے جسم کو موت کے سپرد کر دوں اور ایک خط لکھ کر رکھ جاؤں کہ میری زندگی برباد کرنے والا سکندر ہے، میرا کلیجہ پھٹنے کو آیا تھا، لیکن مرنا اتنا آسان کہاں ہے۔ سوچوں میں گم میں قالین پر ہی لیٹ گئی کہ کروں تو کیا؟ اچانک دماغ میں خیال آیا، سکندر بھاگ گیا تو کون سا طوفان آ گیا، کل ڈاکٹر کے پاس جا کر ساری کہانی ختم کر ڈالتی ہوں، جیسے میرے سر سے کوئی بوجھ اتر گیا ہو، میں نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا اب اس بے وفا کی شکل نہیں دیکھوں گی، اپنے مما، پپا کے پاس واپس چلی جاؤں گی، یہ کنجری کاکوٹھا ہی چھوڑ دوں گی‘ دوسرے روز میں ڈاکٹر کے پاس گئی، ادھیڑ عمر لیڈی ڈاکٹر نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’فکر کی کوئی بات نہیں، 10 منٹ لگیں گے، میں اگلے ہفتے کا وقت لیکر گھر آ گئی، صرف ایک ہفتے کی مصیبت، پھر میں فری ہو جاؤں گی، فلیٹ چھوڑنے کیلئے میںنے وہ سامان اکٹھا کرنا شروع کر دیا جو میں گھر سے لائی تھی، الماری پر پڑا اٹیچی کیس اٹھانے کیلئے میں کرسی پر چڑھ گئی، اٹیچی کیس بھاری تھا، مجھے کافی زور صرف کرنا پڑ رہا تھا۔
’’کہیں بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، جیسے میرے اندر سے آواز آئی‘‘۔
’’پھر کیا ہے، تم نے کون سا اسے جنم دینا ہے، اچھا ہے جان چھوٹے گی‘‘ یہ دماغ کی آواز تھی۔ دل سے آواز آئی ’’نہیں وہ اور بات ہے لیکن اس طرح زورآزمائی سے بچے کو تکلیف پہنچے گی‘‘ اندر کی اس کشمکش کے نتیجے میں، میں نے اٹیچی کیس پر لعنت بھیجی، نہ جانے ایسا کیا تھا کہ جو مصیبت میرے پیٹ میں تھی مجھے اس سے ہمدردی ہو گئی۔
کام سے میں نے دو ہفتے کی چھٹیاں لے لیں، دل بھر کر کھاتی کہ کہیں بچہ بھوکا نہ رہ جائے، خوب آرام کرتی کہ جتنی دیر وہ ماں کی کوکھ میں ہے آرام سے تو رہے پھر تو… میری آنکھوں سے آنسو چھم چھم برسنے لگے، میرے اندر جیسے کوئی کھلونا وجود میں آ رہا تھا، اٹھتے، بیٹھتے، کھاتے، سوتے ہر وقت توجہ اس کی طرف رہتی، کہیں کوئی عضو نہ ٹوٹ جائے اس کھلونے کا، میں دھرتی کی طرح سرسبز و شاداب ہو گئی، آئینے میں اپنا ہی روپ نہ پہچان سکی، کتنی پیاری لگ رہی تھی میں خود کو۔
’’تم ماں بننے والی ہو شاہین، تمہیں دنیا کا سب سے بڑا رتبہ مل رہا ہے، تیرے حسن کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا‘‘ شیشے میں سے میرے عکس نے کہا۔
’’لیکن یہ بچہ ناجائز ہے، معاشرہ کسی ناجائز بچے کو برداشت نہیں کرتا، یہاں انسان کی بنائی ہوئی روایات ہیں اور قانون کا پہرہ ہے‘‘ میں نے عکس کو جواب دیا، عکس نے جیسے بحث شروع کر دی‘‘ رشتہ کوئی بھی ہو ناجائز نہیں ہوتا، مقصد یہ ہے کہ آپ کسی رشتے کا کتنا تقدس کرتے ہیں، کتنی ایمانداری سے اسے نبھاتے ہیں‘‘۔
پر… پر میں اکیلی… سماج… بچہ… ماں… باپ…رشتے… نہیں نہیں، میں یہ بوجھ اکیلے کیسے برداشت کروں گی، بچے کے باپ کا ہونا بہت ضروری ہے، معاشرہ بچے کے باپ کا نام پوچھتا ہے، میرے تو بچے کے ماتھے پر لکھا ہو گا اس کا باپ چور ہے، نہیں میں اپنے سکون کیلئے اس بچے کو اتنی بی سزا کیوں دوں‘‘ میں آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی۔
مجھے احساس ہوا ان لمحات میں بچے کے باپ کا پاس ہونا کتنا ضروری ہے، میں اکیلی عورت، مجھے رونا آ گیا، نہ سکندر کا فون آیا نہ میں فیصلہ بدل سکی۔
ڈاکٹر کے پاس سے جانے سے ایک رات قبل میں اس عالمہ کے گھر گئی جہاں وہ دین و دنیا کا درس دیا کرتی تھی، دوسری خواتین کے ساتھ میں بھی چپکے سے دوپٹہ اوڑھ کر بیٹھ گئی، معلمہ کا درس جانے کب سے جاری تھا۔ میری سماعت سے یہی جملے ٹکرائے ’’اگر ہم زمین سے پودا بھی اکھاڑیں تو مٹی جڑوں کے ساتھ نکل آتی ہے، جو حمل ضائع کراتی ہیں وہ قتل کی مرتکب ہوتی ہیں، جو روح اﷲ اس دنیا میں بھیجنا چاہتا ہے تم کون ہوتی ہو کہ اس کو آنے سے روک سکو‘‘ رب کے بھید رب ہی جانتا ہے‘‘ میں روتی روتی گھر آ گئی، معلمہ پودے کے اکھاڑنے کی بات کر رہی تھی میری تو کوکھ سے ایک انسانی جان کو علیحدہ کیا جانا تھا، گھر پہنچ کر میں نے دوسرے روز ڈاکٹر کی طرف جانے کی تیاری کرنے لگی۔
رات کا آخری پہر ہو گا کہ میں جیسے سوتی جاگتی کیفیت میں تھی کہ میرے اندر سے آواز آئی ’’تمہاری کوکھ میں ’’میں‘‘ہوں ماں!… ماں… جیسے میں یہ لفظ دوبارہ سنا، جیسے میرے ننگے پیٹ سے کوئی چھوٹا سا بلونگڑہ چمٹا ہوا ہو، اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں کی حرکت میں نے اپنے پیٹ پر محسوس کی، خودبخود ہی میرا ہاتھ پیٹ پر چلا گیا، اپنے اندر میں نے کوئی جیتی جاگتی چیز محسوس کی، جو حرکت کر رہی تھی، اندھیرے میں، میں نے اپنے اندر جھانکا، مجھے لگا جیسے دو چھوٹی چھوٹی آنکھیں مجھے گھور رہی ہیں، ان آنکھوں نے جیسے پکارا ’’ماں‘ مجھے جھرجھری سے آ گئی، جسم میں سنسناہٹ سی محسوس ہوئی، میں جیسے ٹھنڈے پسینے میں بھیگ گئی، پھر میں نے بے خودی کے عالم میں اپنے ہی پیٹ کوزور سے جپھی ڈال لی۔
’’میرے بچے… میں تجھے جنم دوں گی، معاف کر دو، میں تمہیں اپنی خودغرضی کی بھینٹ چڑھانے لگی تھی، تمہارا باپ چور ہے، لیکن تمہاری ماں… تمہاری ہے… ہاں تمہاری ماں تو تمہاری ہے، میرا تکیہ آنسوؤں سے بھیگ گیا… مجھے بہت ہی سکون محسوس ہوا، ایک عجیب سی لذت میرے سراپے میں سرائیت کر گئی، جسے کسی نے میرے جسم میں کوئی جادوئی طاقت داخل کردی ہو۔ میں اسی وقت اٹھی، اپنا سامان سمیٹا، صبح ہی ڈاکٹر کو فون کیا کہ میں نے ارادہ بدل دیا ہے، اس کے بعد کبھی میں نے ماضی میں جھانکا، نہ پچھتائی اور نہ ہی زندگی سے کوئی شکوہ کیا کہ کیا ہو رہا ہے۔
فلیٹ چھوڑ کر میں نے کرائے پر ایک کمرہ لے لیا، کام پر جانا شروع کر دیا، کچھ ہی روز گزرے ہوں گے کہ میرا راز افشا ہونا شروع ہو گیا۔ آخر کب تک میں چھپا سکتی تھی ۔لوگوں نے کنجری کہا، وحشیہ کہا، ساتھیوں نے طنز کے تیروں سے کلیجہ چھلنی کیا، مما کو پتہ چلا تو اپنا سر پیٹ کر رہ گئی، لیکن میرے کانوں نے میرے اندر سے ’’ماں‘‘ کا جو لفظ سنا تھا، اس کے بعد تو دنیا کی ہر آواز میرے لئے چھوٹی ہو کر رہ گئی تھی، میری برداشت بہت بڑھ گئی، میں ’’ماں‘‘ کا لفظ سرعام سننا چاہتی تھی، 9 مہینے میں نے لوگوں کے طعنے سن کر، گالیاں کھا کر نکالے، میں نے ان عورتوں کی کتابیں بھی پڑھیں جنہوں نے میری طرح اکیلے میں بچوں کو جنم دیا تھا… پھر وہ دن آ گیا جب ’’میرے وارث‘‘ نے روتے ہوئے دنیا میں اپنی آمد کا اعلان کیا، مجھے لگا جیسے میری ساری محنت کا ثمر مجھے آج مل گیا ہے، نہ دنیا سے کوئی گلا شکوہ رہا اور نہ ہی سکندر کی بیوفائی یاد رہی، وارث کو دیکھ کر جیسے میرے جسم میری روح کی ساری تھکاوٹ ختم ہو گئی تھی۔
عورت جب ماں بن جاتی ہے تو اس کے لئے دنیا کے سارے رشتے چھوٹے ہو جاتے ہیں، سکندر بے شک مجھے پیٹھ دکھا کر چلا گیا تھا لیکن اس تک جیسے ہی بچے کی خبر پہنچی، ایک روز وہ بھی آ پہنچا۔
’’تمہیں سمجھایا تھا اس مصیبت میں مت پڑو، اب کتنی مشکل میں ہو‘‘ اس نے ہمدردی جتانے کی سعیٔ ناکام کی، میں نے اس کے بات کا جواب دینا گوارا نہ کیا
’’ چلو جو ہونا تھا وہ ہو گیا، فلیٹ میں واپس چلو، میرا بچہ کرائے کے گھروں میں پلے بڑھے مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو گا، ہم زمیندار، جاگیردار ہیں، راجوں مہاراجوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں، ایسی لائف تو ہمارے نوکر چاکر بھی نہیں گزارتے‘‘ اس کے اندر کا باپ بول رہا تھا۔
’’سکندر یہ بچہ وہی ہے جس کے پیدا ہونے کی خبر سن کر تم نے فون کرنا اور سننا بھی بند کر دیا تھا۔ وہ اکیلی ماں کا بچہ ہے… مزدور ماں کا، میں نہیں چاہتی وہ کسی دھوکے میں رہے، میں اس کے من میں ان دیکھی ان چاہی خواہش پیدا نہیں ہونے دینا چاہتی، وہ منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا نہیں ہوا، اس لئے میں چاہتی ہوں وہ جس حال میں ہے اسی میں پلے بڑھے، میں اسے جھوٹے خوابوں کا اسیر نہیں بنانا چاہتی‘‘ میری چبھتی باتیں سن کر سکندر چلا گیا۔
وارث دن بہ دن پرورش پانے لگا، میں نے ایک آیا کا بندوبست کر لیا تھا، وہ میری ڈیوٹی کے اوقات میں اس کو سنبھالتی، شام کو کام سے تھکی ہاری آتی تو وارث کو دیکھ کر جیسے میرے تن بدن میں نئی جان پڑ جاتی، کچھ پیسے ادھار لیکر میں نے چھوٹا سے اپنا گھر خرید لیا۔ سکندر نے بھی جان نہ چھوڑی اور پھر میرا کھوج لگا لیا اور آ کر ایک دن میرے پاؤں پکڑ لئے ’’نہیں رب کا واسطہ میرے گناہ کی سزا میرے بچے کو تو نہ دو، اسے باپ کے پیار کی ضرورت ہے‘‘۔
وہ کبھی کبھی وارث سے ملنے آ جاتا تھا، میں نے نوٹ کیا کہ جب کبھی سکندر نہیں آتا تھا تو وارث آنے بہانے رونے لگتا، اسے بخار ہو جاتا، میں نے بچے کے لئے اتنی بدنامی برداشت کی، اپنی زندگی داؤ پر لگا دی، سکندر کی اداسی مجھ سے سہی نہ گئی تو میں نے اسے گھر آنے جانے کی اجازت دے دی، گھر میں آنا جانا شروع ہوا تو ایک روز سکندر نے میرے ساتھ سونے کی کوشش کی۔
’’تمیز سے رہو اگر میں نے وارث کی وجہ سے تمہیں گھر آنے جانے کی اجازت دی ہے تو گھر والا بننے کی کوشش نہ کرو، تم کیا سمجھتے ہو میں ماضی کو دہراؤں گی، یہ مت سمجھنا میں کمزور پڑ گئی ہوں اور مجھے تمہارے سہارے کی ضرورت ہے، میں اپنے بچے کو اداس نہیں دیکھ سکتی، اور تمہارا اس کے ساتھ خون کا رشتہ ہے، تمہارے بغیر وہ روتا ہے تو مجھ سے دیکھا نہیں جاتا‘‘ میرے لہجے کی تپش نے اسے ہلا کر رکھ دیا۔
’’میری غلطی معاف کر دو‘‘ اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔
’’فضول ڈسٹرب نہ کرو مجھے، کنجری سمجھ رکھا ہے مجھے؟ میں کسی عشرت کدے میں سجی بساط کا مہرہ نہیں ہوں کہ جہاں چاہا اٹھا کر رکھ دیا، اس عذر خواہی سے بہتر ہے کہ کہیں سے عشق کے عرفان کا درس حاصل کرو، محبت تجارت نہیں، نہ ہی کاروبار ہے۔ لگتا ہے اپنے سرور کیلئے اس طرح کی سرمایہ کاری کرنا تم جیسوں کی سرشت ہے‘‘ میرے طنز کے تیروں، اندر کے غبار سے اٹے اور زہر میں بجھے الفاظ نے اس کے اوسان خطا کر دئیے۔
’’جب نبھانی نہیں تھی تو لگائی کیوں تھی، آج کے بعد مجھے چھوا بھی تو ہاتھ توڑ کے رکھ دوں گی‘‘ بچے سے ملو اور جاؤ، میرا غصہ ٹھنڈا ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ میں نے اسے باہر کا رستہ دکھایا، اس نے چپ سادھ لی، بچہ اس کی کمزوری تھی، پھر وہ چپ چاپ آتا وارث سے کھیلتا اور چلا جاتا۔
بالآخر بات سکندر کی بیوی تک پہنچ ہی گئی، وہ غصے میں جلی بھنی میرے گھر آ پہنچی۔ گھر گھستے ہی اس نے تین چار تھپڑ مجھے رسید کر دئیے، میرے بال پکڑ کر کھینچے، ’’بدذات تمہیں میرا ہی گھر ملا تھا اجاڑنے کو، تھوڑی دنیا ہے، کسی اور کے گھر ڈاکہ ڈال لیتی، ایک یہ پیدا کر لیا ہے، حصہ مانگنے کے لئے، وہ وارث کی طرف بڑھی۔
’’بہن جی! میں بھاگ کر بیچ میں آ گئی، مجھے جو مرضی کہہ لیں، میں آپ کی چور ہوں، پر بچہ…‘‘۔
’’چپ کر کلموہی، زیادہ اچھا بننے کی کوشش نہ کر میرے سامنے، میں تم جیسی عورتوں کو اچھی طرح سے جانتی ہوں، دوسروں کے خاوند اپنے بس میں کر لینا تو تمہاری جیسی عورتوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن میں بھی کسی گئے گزرے خاندان سے نہیں ہوں، بڑی ڈاڈھی عورت ہوں میں، تم جیسی کئی آئیں اور گئیں پر سکندر کو مجھ سے نہیں چھین سکیں، میں ان عورتوں میں سے نہیں ہوں جو پریشان ہو کر دوسرے دن ہی خلع کا کیس کر دیتی ہیں یا طلاق مانگ لیتی ہیں۔ میں یہی سمجھتی ہوں کہ میرا آدمی دو گھنٹے کنجری کے کوٹھے پر جاتا ہے، پر رات کو میرے پاس میرے گھر ہی آتا ہے نا، تمہارے جیسی دس بھی آ جائیں تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، پرائی آگ پر کتنے روز خود کو سینک لو گی، آخر آدمی تو میرا ہی رہے گا‘‘ وہ انگار ے برساتی، دل پر چرکے لگاتی چلی گئی۔
مجھے اس پر ترس آیا، دھوکہ تو اس کے ساتھ بھی ہوا تھا، میرے من میں تھا کہ حدیقہ بدصورت سی ہو گی، لیکن وہ تو من موہنی صورت، پتلے پتلے نین نقش اور بھرے بھرے جسم والی خوبصورت خاتون تھی، میںخود کو کوسنے لگی، انجانے میں ایک شادی شدہ مرد سے پیار کر کے میں نے کتنی بھیانک غلطی کی تھی، شاید میں حالات کے دھارے میں بہہ گئی تھی، لیکن میرا قصور کیا تھا، سکندر نے ہی حدیقہ کا ایسا غلط نقشہ میرے سامنے کھینچا تھا، میں اس غلط فہمی کے راستے پر ایسے چلی کہ ہر رہگزر سے بلاسوچے سمجھے گزرتی گئی۔
حدیقہ نے پوری کمیونٹی میں ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ میں اس کے شوہر کو لوٹ کر کھا رہی ہوں، ایک روز سکندر کہیں باہر گیا ہوا تھا کہ اس کا لڑکا آ گیا، میں نے دروازہ کھولا ’’آنٹی میرے ڈیڈ آج باہر گئے ہوئے ہیں، اگر تمہارا گزارا نہیں ہوتا تو آج کی رات میں آ جاؤں آپ کے پاس… وہ طنزیہ ہنسی ہنسا، اس نے مجھے اتنی بڑی گالی دی تھی کہ میرے ہوش اڑ گئے، لیکن میں اسے کیا کہتی، پر اس دن سے مجھے حدیقہ سے بھی شدید نفرت ہو گئی۔
میرے نزدیک تو پیسے کی پہلے ہی کوئی اہمیت نہیں تھی، لیکن اب پیسے والے بری طرح میرے سامنے ننگے ہو گئے تھے، مجھے لگا ضروری نہیں اچھے پیرہن کے پیچھے شخصیت بھی اچھی ہو۔ امیروں سے میرا جی کھٹا ہو گیا اور میں نے پہلے سے بھی زیادہ محنت شروع کر دی، اوورٹائم لگانا شروع کر دیا۔ میں وارث کو بہت اچھی تعلیم دلوانا چاہتی تھی، میرے من کی خواہش تھی کہ وہ بہترین سکولوں میں پڑھے اور ایک شاندار، سلجھی ہوئی شخصیت کا مالک بنے۔
مجھ سے ہر بندے نے نفرت کی صائمہ، ہر آدمی نے مجھے ہی غلط سمجھا، شاید میرا بیٹا بھی بڑا ہو کر مجھے ہی قصوروار سمجھے، لیکن اپنے خون پسینے سے اسے پال پوس رہی ہوں، اس میں ساری عادتیں اپنے باپ والی ہیں، وہی آنکھیں، وہی ہونٹ، وہی مسکان، جب یہ گھنٹہ گھنٹہ میرے ساتھ کھیلتا ہے ،میرے پاؤں پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے سکندر میرے سامنے بیٹھا ہے، سکندر کو تو معاف نہیں کر سکتی، معاف بھی کیا کروں میں کون سا اس سے نفرت کرتی ہوں، نفرت بھی تو اس سے کی جاتی ہے جس کی آپ کی نظروں میں کوئی اہمیت ہو، جو بندہ نظروں سے گر جائے وہ نفرت کے قابل بھی نہیں رہتا، کسی نے سچ ہی کہا کہ انسان پہاڑ سے گر کر تو شاید اٹھ جانے لیکن کسی کی نظروں سے گر جائے تو پھر جیون کا انت ہی سمجھے، اب میں اور میرا بیٹا، بس یہی میری زندگی ہے… اگر یہ نہ ہوتا تو پتہ نہیں میں آج کہاں ہوتی‘‘ شاہین نے اپنی کہانی کا اختتام کیا۔
’’شاہین تمہارا بچہ بہت کیوٹ ہے کیا تجھے کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ ایک دیندار شخص بنے اپنے رب کو اور اس کے دین کو سمجھنے، صائمہ… ’’ایک دفعہ جب وارث 6 سال کاتھا، سکول سے آیا، رات کو اسے سلانے کیلئے میں جب اسے کہانی سنانے لگی تو اس نے کہا ’’مم ٹیل می سم تھنگ اباؤٹ اسلام اینڈ ہاؤس آف گاڈ‘ آئی وانٹ تو سی دی ہاؤس آف گاڈ‘ وین وی گو ٹو دیئر‘‘۔
جب اس نے میری گردن کو اپنی چھوٹی چھوٹی بانہوں میں لپیٹا تو مجھے تب لگا کہ جیسے میرا بھی کوئی گن میرے بیٹے میں ہے، مجھے اس پر بے تحاشہ پیار آیا۔ میں چاہتی تھی کہ اسے اﷲ کا گھر (خانہ کعبہ) بھی دکھاؤں۔ میں پہلے پاکستان لے جا کر اسے وہاں کا ماحول، جگہ جگہ موجود اﷲ کے گھر (مساجد) دکھانا چاہتی تھی، وارث کی پرورش کے ساتھ ساتھ میں نے باقاعدگی سے دین کی تعلیم بھی لینا شروع کر دی، میرے اندر ایمان کا دیا روشن ہو چکا تھا، ایک روز عالمہ بیان کر رہی تھی ’’بے پردہ عورتیں جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکیں گی۔ 1792ء میں لندن میں ایک عورت تھی جن کا نام میری دول سٹون کران تھا۔ اس نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ عورت کو آزاد کیا جائے، اس سے قبل یورپ کی عورت بھی آزاد نہ تھی، پھر لندن میں 1998ء میں ایک سروے ہوا جس میں عورتوں سے پوچھا گیا کہ وہ گھریلو زندگی جینا چاہتی ہیں یا مادر پدر آزادی کی ہی خواہاں ہیں، تو 98 فیصد خواتین نے جواب دیا تھا ہم گھر لوٹنا چاہتی ہیں، لیکن ہمیں خاوند کوئی نہیں ملتا، بوائے فرینڈ ملتے ہیں، جو استعمال کرتے ہیں پھر ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں‘‘۔
میرے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا، لیکن میں نے توبہ کا دامن پکڑ لیا، دن میں کئی بار اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی، اب میرے دل میں ایمان کی شمع جل اٹھی تھی، اندر کی ویرانیوں میں بہار آ رہی تھی تو ساتھ قرار بھی آ رہا تھا۔
بحرکیف! میں نے اپنے وارث کو پاکستان لے جانے کیلئے چند روز بعد کے ٹکٹ بک کرا لئے، سکندر کو معلوم ہوا تو اول فول بکتا رہا۔
’’بچے کو لے کر کہاں جاؤ گی، اس گرمی میں! بیمار ہو جائے گا‘‘ لیکن میری ضد کے آگے اس کی ایک نہ چلی، وہ بھی ساتھ جانے کو تیار ہو گیا۔
وہ مجھے اپنے گاؤں لے گیا، میرے اندر جیسے کوئی دیا روشن ہو گیا ہو، شاید وہ مجھے اپنے والدین کے گھر لے جائے گا، شاید وہاں جا کر ہی وہ اس رشتے کو کوئی نام دے دے، میرا مان سمان رکھ لے، لیکن وہ مجھے ایک کھوہ والی حویلی میں لے گیا، کھیتوں میں کھوہ کے قریب ایک کچا پکا گھر تھا، وہیں شاید خاص مہمانوں کو ٹھہرانے کیلئے گیسٹ ہاؤس بنا ہوا تھا۔ مجھے پھر اپنی اوقات یاد آ گئی، دل میں روشن ہونے والا دیا نفرت کے جھونکے نے بجھا دیا، نہ تو اس کے گھر والوں سے کوئی مجھے ملنے آیا اور نہ ہی وہ مجھے گھر لیکر گیا، شاید لوگ کہتے ہوں گے انگلینڈ سے کوئی گرل فرینڈ آئی ہو گی۔
ہم نے سارا پنجاب دیکھا، ملتان میں اولیاء اﷲ کے مزاروں پر گئے، لاہور میں بادشاہی مسجد دیکھی، داتا دربار جا کر دعا مانگی، اسلام آباد میں فیصل مسجد دیکھی، وارث یہ سب دیکھ کر مبہوت سا تھا۔ واپسی سے ایک روز قبل میں وارث کو لیکر ایک ولی اﷲ کے دربار پر حاضری کیلئے گئی کہ اﷲ سے دعا مانگوں میری کوتاہیاں معاف کر دے، میرے ساتھ گھر میں کام کرنے والی ماسی بھی تھی، وہ ہر جگہ وارث کو گود میں اٹھائے میرے ساتھ ہوتی تھی، میں قریب ہی ایک ایسی مسجد میں گئی جہاں خواتین کے جمعہ کی ادائیگی کا بھی انتظام تھا، مسجد کا اوپر والا حصہ خواتین کے لئے مخصوص تھا، وہ بھی جمعہ کا دن تھا، جمعہ کی ادائیگی کے بعد معلمہ نے پوچھا ’’یہ بچہ کون ہے؟‘‘۔
’’ولیت سے چھوٹی چودھرانی جی آئی ہیں، بی بی جی اپنے سکندر بابو کی گھروالی ہیں یہ بچہ انہی کا ہے‘‘ معلمہ نے وارث کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا، ماسی اور مجھے بھی دعائیں دیں، مسجد کے صحن میں آ کر میرے دل کی جو حالت ہوئی وہ میں ہی جانتی تھی، ماسی نے مجھے وہ رتبہ دے دیا تھا جو کوئی بھی دینے کو تیار نہ تھا، میرے اندر پھر دئیے روشن ہو گئے۔ میں ماسی کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی، اور جی بھر کر روئی، وارث کی پیدائش کے بعد آج میں پہلی بار روئی تھی، ماسی نے مجھے آنکھوں پر جگہ دی تھی۔
’’آفرین ہے ماسی تم پر، تم نے ماں کا منصب تو جانا، میرے منہ پر شفق پھوٹ پڑی تھی لیکن آنسو رکنے کا نام نہ لے رہے تھے‘‘۔
’’بس کرو چودھرانی جی، ہمیں کیا نہیں پتہ، سب جانتے ہیں! پر کہہ نہیں سکتے، منہ کو قفل لگے ہوئے ہیں، بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، ہم تو کمی کمین ہیں لیکن پتہ ہر کسی بات کا ہے، بھلا دائی سے پیٹ بھی کبھی چھپا ہے، میں کیوں جھوٹ بولوں، رب کے گھر میں کھڑی ہوں‘‘ پتہ نہیں وہ کیا کیا بولے جا رہی تھی، لیکن میرے کانوں میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی
سکندر کے گھر والی ۔۔۔۔۔۔۔۔سکندر ۔۔۔۔۔۔ کے ۔۔۔۔۔۔ گھر ۔۔۔۔۔۔۔والی ۔۔۔۔۔۔۔چھوٹی چودھرانی ۔۔۔۔۔۔۔چودھرانی ۔۔۔۔۔۔۔سکندر کا ’’کاکا‘‘۔۔۔۔۔۔۔سکندر کا ’’کاکا‘‘۔۔۔۔۔۔۔سکندر ۔۔۔۔۔۔۔چودھرانی ۔۔۔۔۔۔۔’’کاکا ‘‘۔۔۔۔۔۔۔ماسی کے مقدس الفاظ نے جیسے میرے سارے دکھ ،درد ،غم ، گلے،شکوے جڑ سے ختم کر دیئے تھے،تبھی میں فیصلہ کرلیا کہ میں اپنے ’’وارث‘‘کو اس رب کا نیک بندہ بنائوں گی جس رب کے گھر میں پہلی بار کسی نے مجھے پہچانا تھا،عزت و توقیر کی چادر سے میرا گناہ گار سر ڈھانپا تھا ، ماسی کا چہرہ میں بڑا ہی مقد س لگا ،میں نے نم آنکھوں سے ماسی کو دیکھااور بے خودی کے عالم میں آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔
……………ختم شد……………
Comments
Post a Comment