جاسوسی ڈائجسٹ فروری 2018 کے شمارے میں شائع ہوئی

’’دشمن‘‘
(ایسی کہانی جو طویل عرصہ قارئین کے ذہن سے محو نہ ہو گی)
تحریر:۔ وسیم بن اشرف، ڈپٹی نیوز ایڈیٹر۔ دنیا میڈیا گروپ۔ ملتان
    برائے رابطہ:   0322-2314444 - 0345-6520000
0345-3333380 - 0321-1112555

گولیوں کی تڑتڑاہٹ، دھماکوں کی گونج، توپوں سے داغے سماعت شکن گولے، جا بہ جا فائرنگ سے ہر طرف دہشت پھیلی ہوئی تھی، شہر بھر میں سراسیمگی کا عالم تھا، انسان تو انسان کتے بھی کونوں کھدروں میں جان بچانے کے لئے چھپ گئے تھے، سڑکوں، گلیوں، بازاروں میں ہو کا عالم تھا، کبھی خاموشی کا یہ عالم ہوتا کہ سوئی گرنے کی آواز بھی سنائی دیتی اور کسی وقت فائرنگ اور دھماکوں سے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوتے تھے۔ جون کا سورج اپنی تمازت و تپش کی گٹھڑی لپیٹے آخری جھلک دکھا کر دور دریائے لِفی (آئرلینڈ) کے کناروں میں گم ہو چکا تھا، بادلوں سے جھانکتا چاند ماحول کی خوفناک تاریکی سے اپنے طور پر نبرد آزما تھا، رات اپنا دامن پھیلائے ہر چیز کو اندھیرے میں لپیٹ رہی تھی، ڈینی ایک مکان کی چھت پر بڑے محتاط انداز میں لیٹا آنے والے لمحات پر غور کر رہا تھا، یہ سول وار کے دن تھے، جوں جوں اندھیرا اپنے پھن پھیلا رہا تھا توں توں آگ اور بارود کی بارش میں تیزی آتی جا رہی تھی، ری پبلکن اور فری سٹیٹرز کے درمیان جاری اس جنگ نے آئرلینڈ کے فورکورٹ شہر کو بھی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
٭……………٭
جس مکان کی چھت پر ڈینی نے پوزیشن سنبھال رکھی تھی وہ پل کے قریب تھا۔ ڈینی نے رائفل کو تیار حالت میں ساتھ ہی رکھا ہوا تھا، اس کے پاس ایک چھوٹی دوربین تھی، اس جدید دوربین سے اندھیرے میں بھی دیکھا جا سکتا تھا، طاقتور رینج کا پسٹل پتلون میں اُڑسا ہوا تھا اور تیز دھار خنجر کمر کے ساتھ چمڑے کے کور میں موجود تھا، دو ہینڈ گرنیڈ بھی ایک مضبوط تھیلے میں ڈال کر وہ چھوٹا سا تھیلا بلکہ اسے تھیلی کہنا زیادہ مناسب ہو گا مضبوط ڈوری کے ساتھ کمر سے باندھ رکھی تھی۔ وہ ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے اور مرنے یا مارنے کی مکمل تیاری کے ساتھ چھت پر دم سادھے لیٹا تھا۔ اس نے لیٹے لیٹے تھوڑا سا زاویہ بدلا اور چھت سے نیچے جھانکا، اس کا چہرہ کالج کے نئے طالب علم کی طرح معصوم اور سماج کے ظلم و ستم، جبر و استبداد سے پاک صاف معلوم ہوتا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں غضب کی چمک تھی، محسوس ہوتا تھا وہ کسی بھی لمحے، جنونی کیفیت میں موت کی طرح اپنے دشمنوں پر جھپٹ پڑے گا، اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ بقاء اور فناء کی اس جنگ میں وہ ہر لمحہ چوکس و چوکنا ہے، وہ صبح سے بھوکا تھا، کسی فاقہ کش کی طرح اس نے لیٹے لیٹے ہی سینڈوچ نگلنا شروع کر دیا، زور کی بھوک لگ رہی تھی اسے، نہ جانے دوسرا سینڈوچ اس کے نصیب میں بھی ہو یا نہ ہو، یہ سوچ کر اس نے دوسرے سینڈوچ س بھی پٹ کا جہنم سرد کیا، اس نے جیب سے وھسکی کی فلاسک نکال کر ایک گھونٹ لیا، تھوڑے سے توقف کے بعد اسے تمباکو کی طلب ہوئی، اس نے سوچا کیا اس کھلی چھت پر وہ سگریٹ سلگانے کا رسک لے سکتا ہے، سامنے متعددعمارتیں تھیں کسی بھی چھت پر دشمن ہو سکتا تھا اور روشنی دیکھتے ہی فائر نہ ہو یہ کیسے ممکن تھا۔ اس نے اپنی اس خواہش کو کچل دیا، فطرت کو کون مات دے، کسی خواہش کو دبانے کی کوشش کی جائے تو اس کی سرکشی اور بڑھ جاتی ہے، اسے لگا زندگی دھوئیں کے چند مرغولوں سے زیادہ اہم نہیں رہی… بالآخر اس نے خطرہ مول لینے کا فیصلہ کر ہی لیا۔
٭……………٭
خواہشات خطرات کو خاطر میں نہ لائیں تو نتائج بھیانک بھی ہو سکتے ہیں، اس نے سگریٹ سلگانے کیلئے جونہی لائٹر جلایا ایک گولی سنسناتی ہوئی عین اس کے سر کے اوپر سے گزر گئی، اس کے ہاتھ سے لائٹر گر گیا، بڑبڑانے کے انداز میں مغلظات بکنے لگے، گولی سامنے والی چھت سے چلائی گئی تھی، قسمت یاوری کر گئی ورنہ اس کی کھوپڑی پاش پاش ہو چکی ہوتی، اس نے تلملاتے ہوئے سگریٹ کو ہاتھ سے مسل کر پھینک دیا، وہ رائفل کو سینے سے لگائے سرکتا ہوا چھت کے آخری سرے پر موجود چمنی کی طرف گیا، چمنی کی اوٹ لیکر اس نے خود کو تھوڑا سا اوپر اٹھایا، سڑک کے پار سامنے والی چھت کا جائزہ لیا، اسے کچھ دکھائی نہ دیا، گویا اس چھت پر بھی جو کوئی تھا وہ اسی کی طرح اندھیرے میں چھپا ہوا تھا۔
ڈینی نے پل کی طرف دیکھا، اس طرف سے ایک بکتربند گاڑی سڑک کی جانب آتی دکھائی دی… گاڑی مکان سے کچھ دور رک گئی، اسے بکتربند گاڑی کے انجن کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی، اس کا دل زور سے دھڑکنے لگا، گاڑی دشمنوں کی تھی، اس نے سوچا گاڑی پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دے، پھر اسے اپنی بیوقوفی کا احساس ہوا، ایسا کرنا بے سود تھا، اس کی چلائی گئی گولیاں گاڑی کے آہنی خول کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی تھیں۔دفعتاً ایک گھر کا دروازہ کھلا اور بوڑھی عورت وہاں سے نکل کر گاڑی کے قریب گئی، اس کا سر اور منہ ایک شال سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس نے گاڑی میں موجود شخص سے کوئی بات کی اور پھر اس چھت کی طرف اشارہ کیا جہاں ڈینی چھپا ہوا تھا، ’’تو یہ بڑھیا بھی مخبر ہے‘‘ اس نے تلخی سے سوچا، فوراً ہی بکتربند گاڑی کا دروازہ کھلا، ایک شخص نے اپنا آدھا دھڑ نکالا اور چھت کی طرف دیکھا، ڈینی نے چشم زدن میں رائفل سیدھی کی اور فائر کر دیا، گاڑی سے جھانکنے والے کا سر پائیدان پر جھول گیا، مخبر بڑھیا نے فرار کی کوشش کی اور دوسری سمت کے فٹ پاتھ پر چلی گئی، ڈینی کے دوسرے فائر نے بڑھیا کو وادی عدم روانہ کر دیا، گولی لگتے ہی وہ اچھل کر فٹ پاتھ پر موجود کھلے مین ہول پر اوندھے منہ گر گئی،… اچانک سامنے والی چھت سے گولی چلی، رائفل ڈینی کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی، چھت پر رائفل گرنے سے آواز پیدا ہوئی اور پھر وہی پہلے والا سناٹا چھا گیا، ڈینی نے رائفل اٹھانے کی کوشش نہیں کی وہ ایسا کر بھی نہیں سکتا تھا، گولی نے اس کے ہاتھ کو ناکارہ کر دیا تھا، ’’اوہ میرے خدایا‘‘… وہ بڑبڑایا۔ ’’مجھے بھی گولی چاٹ گئی‘‘ وہ آہستگی سے چمنی کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا، بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ کے زخم کو ٹٹولنے لگا، اسے تکلیف محسوس نہیں ہو رہی تھی بلکہ ایک ایسی سنسنی کا احساس ہو رہا تھا جو ہاتھ کٹ جانے پر پورے جسم میں پھیل جاتی ہے، اس نے بائیں ہاتھ سے دائیں جیب میں موجود چاقو نکالا اور اس سے آستین چیر ڈالی، اس کے ہاتھ میں جس جگہ گولی گھسی تھی وہاں ایک سوراخ تھا، اس نے ہاتھ گھما کر دیکھا، دوسری جانب کوئی سوراخ نہ تھا، گویا گولی اس کی ہتھیلی کی کسی ہڈی میں اٹک کر رہ گئی تھی۔ یقینا وہ ہڈی بھی چٹخ چکی ہو گی، اس نے زخم کے نیچے سے ہاتھ کو گھمایا تو وہ جھول گیا، درد کی شدت پر قابو پانے کے لئے اس نے سختی سے نچلے دانتوں پر اوپر والے دانت جما لئے‘‘۔
٭……………٭
کچھ دیر بعد تکلیف کی شدت کچھ کم ہوئی تو اس نے کندھا سے لٹکا ابتدائی طبی امداد کا تھیلا چاقو کی مدد سے کھولا۔ چاقو کی مدد سے ہی بوتل کا ڈھکن کھول کر زخم پر پائیوڈین انڈیلی تو درد کی شدید لہر سے اس کا پورا وجود ہل کر رہ گیا۔ اس نے ہمت کر کے زخم پر روئی رکھی، پٹی لپیٹنے کا دشوار مرحلہ طے کرنے کے بعد دانتوں کی مدد سے اچھی طرح گرہ باندھ دی، وہ چھت پر لیٹ گیا اور درد کی شدت پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔
نیچے سڑک ایک بار پھر سائیں سائیں کر رہی تھی، سناٹے کا دور دورہ تھا، بکتربند گاڑی کا ڈرائیور اسے تیزی سے پل کی طرف دوڑا کر لے گیا تھا، اس مخبر بڑھیا کا بے جان جسم ابھی تک گٹر کے اوپر ساکت پڑا تھا۔ ڈینی چھت پر لیٹا درد میں کمی کا انتظار کررہا تھا،گولی نے ہتھیلی کو جس طرح متاثر کیا تھا اس سے نہیں لگتا تھا کہ تکلیف کم ہو جائے گی، اس کا ذہن وہاں سے فرار کے بارے میں سوچ رہا تھا، اس کا خیال تھا کہ دشمنوں سے گھرے اس علاقے میں اسے سورج کا سامنا نہیںکرنا چاہیے، کیوں ایسے میں اس کے فرار کے امکانات صفر ہو جاتے اور وہ بے موت مارا جاتا، لیکن سامنے کی چھت پر موجود سنائپر بھی ان لمحات میں اس کے فرار کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گیا تھا، وہ سوچنے لگا اسے ہر حال میں اس دشمن کو موت کے گھاٹ اتارنا ہو گا کیونکہ اس کی موت ہی اس کی زندگی کی ضمانت تھی، وہ زخمی بھی تھا اور اس حالت میں بھاری اسلحہ کا استعمال اس کے لئے محال تھا۔ اس کے پاس صرف ایک ریوالور رہ گیا تھا، اس کے ذریعے اسے اپنے دشمن کا کام تمام کرنا تھا، اسے کچھ حوصلہ محسوس ہوا کہ حفاظت کیلئے کچھ تو اس کے پاس ہے بصورت دیگر جو قدرت کو منظور۔
اچانک اسے ایک ترکیب سوجھی، دشمن کا قلع قمع کرنے کا شاندار اور محفوظ راستہ، کامیابی نے قدم چومے تو اس کا راستہ صاف ہو جائے گا، اس نے سر سے کیپ اتاری اور آہستہ آہستہ اسے رائفل کے درمیانی حصے میں وہاں لٹکا دیا جہاں رائفل کا کندا ختم ہوتا تھا۔ اس نے لبلبی دبائی تو نتیجہ فوراً سامنے آیا، فائر کی آواز کے ساتھ ہی رائفل اور اس کی کیپ دونوں سڑک پر جا گریں، اس نے اپنا دھڑ چمنی سے نیچے سرکاتے ہوئے آہستہ سے چھت پر گرا دیا، گرنے کے بعد وہ کرالنگ کے انداز میں بائیں جانب گھسٹا چلا گیا۔ اس کی تدبیر کارگر رہی، جیسے ہی ٹوپی اور رائفل سڑک پر گرنے سے گہرے سناٹے میں ہلکا سا شور ہوا، چند لمحوں بعد ہی سامنے والی چھت پر چھپا دشمن چمنی کی اوٹ سے نکل آیا اس نے اندازا لگا لیا کہ اس کا دشمن ہلاک ہو چکا ہے، اب وہ کھلے آسمان تلے، اپنی چھت پر بے فکری سے کھڑاسامنے والی چھت پر چمنی کے قریب اندھیرے میں ڈینی کی لاش ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔ باغی مسکرایا، اس نے بائیں ہاتھ میں تھاما ہوا ریوالور سیدھا کیا، ہدف اور اس کے درمیان بمشکل 50 فٹ کا فاصلہ ہو گا، اس نے اپنی پوری قوت مجتمع کر کے ریوالور دائیں ہاتھ میں منتقل کیا اسے ایسے لگا جیسے کسی نے اس کی ہتھیلی میں تیز دھار خنجر گھونپ دیا ہو، اس نے نشانہ لیا، نچلے لب پہ بالائی لب جمایا، ناک سے گہرا سانس کھینچا اور ٹرائیگر دبا دیا، دھماکہ ہوا، ساتھ ہی ہتھیلی میں تکلیف کی اتنی شدید لہرا اٹھی کہ درد کے مارے چند لمحوں کے لئے اندھا سا ہو گیا۔
لمحاتی درد کا ریلا گزر گیا تو اس نے پلکیں جھپکا کر دیکھا، اس کے حلق سے خوشی کا نعرہ نکلا، دشمن چھت سے لڑھکتا ہوا نیچے گر رہا تھا، گولی نے اپنا کام کر دکھایا تھا، دشمن کا بے جان جسم رائفل سمیت نیچے حجام کی دکان کے سامنے والے کھمبے سے ٹکرایا اور فٹ پاتھ پر آڑھا ترچھا گر پڑا۔
ڈینی نے لاش کو دیکھا تو اسے جھرجھری سی آ گئی، لڑائی ختم ہو چکی تھی، لہٰذا وہ ہنگامی صورتحال بھی اختتام کو پہنچ گئی جس نے اسے کچھ اور سوچنے سے اپاہج بنا رکھا تھا۔ اس کی پیشانی اور دونوں ہاتھ پسینے سے تر ہو چکے تھے، انہی لمحات میں اسے ہر چیز سے بے زاری کا احساس ہونے لگا، اپنے دشمن سے،سول وار سے، حتیٰ کہ اپنے آپ سے بھی بے زاری محسوس ہونے لگی۔
فائر کرنے کے بعد اس نے ریوالور بائیں ہاتھ میں تھام لیا، اس نے ریوالور والے ہاتھ کی طرف دیکھا جو پسینے سے تربتر تھا، دشمن انجام کو پہنچ چکا تھا چنانچہ عدم تحفظ بھی اس خیال کے ساتھ ہی رخصت ہو گیا، ریوالور پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑگئی، ذہن سے خوف کے بادل چھٹ گئے اور وہ مسکرانے لگا۔
اس نے جیب سے فلاسک نکالا اور ایک ہی سانس میں ختم کر دیا۔ اس  سے پاس تو کیا بجھنی تھی تاہم انگور کی بیٹی نے تھوڑی دیر کیلئے اسے مفلوج سا کر کے رکھ دیا۔ اس نے سوچا اب چھت کو چھوڑ دینا چاہیے، یہاں سے فرار ہو کر اپنے کمپنی کمانڈر کے پاس جانا چاہیے، اور جس قدر جلد ممکن ہو اس واقعہ کی رپورٹ دینی چاہیے، نیچے اب سناٹا تھا اور پل کے مخالف رخ جانے میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس نے ریوالور جیب میں ڈالا اور سیڑھیاں اترتا اس خالی گھر سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔
سڑک پر آتے ہی اس نے سوچا مکمل رپورٹ دینے کیلئے کم از کم اپنے دشمن کو ایک نظر دیکھ لے تو بہتر ہو گا، مرنے والا اس سے کم اچھا نشانے باز نہیں تھا، ممکن ہی وہ اپنی ہی کمپنی سے بھاگا ہوا کوئی سپاہی ہو، وہ جیسے ہی سڑک کے درمیان پہنچا اچانک ہی ایک مشین گن نے موت کا قہقہہ لگایا، ڈینی نے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں خود کو سڑک پر گرالیا، فائرنگ بہت دور پل کی طرف سے کی گئی تھی، اس لئے کوئی گولی کارگر ثابت نہ ہوئی۔
لیٹے ہی لیٹے وہ کھسک کر لاش کے قریب ہو گیا، پھر پاؤں سے اوندھی پڑی لاش کو سیدھا کیا، اسے زوردار جھٹکا لگا، زمین نیچے سے کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی، دیدے پھٹنے کی حد تک پھیل گئے، اس کا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا، جسم میں سرد لہریں دوڑنے لگیں، وہ آنکھوں میں دنیا جہان کا غم سموئے اپنے چھوٹے بھائی کارل کی بے نور آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔

٭……………٭

Comments

Popular posts from this blog

اردو ناول کا ارتقا

اردو محاورے۔۔۔۔۔۔ وسیم بن اشرف

واٹس ایپ کی سرجری۔۔معلومات ہی معلومات