آنس معین،،،، دور حاضر کا کیٹس

سائیڈ سٹوری3-

پلیٹ فارم کا ٹکٹ
آنس کی مخصوص فطرت،مزاج اور ان کی اصول پرستی کا یہ عالم تھا کہ وہ مرنے کیلئے جارہا ہے۔اسے معلوم ہے کہ اس نے واپس نہیں آتا۔وہ پلیٹ فارم کا ٹکٹ خریدتا ہے۔جب وہ زندگی سے منہ موڑ لیتا ہے تو پلیٹ فارم کا ٹکٹ اس کی جیب سے برآمد ہوتاہے۔آنس معین بے اصولی اور غیر اخلاقی صورتحال میں نہ تو جی سکتے تھے اور نہ ہی ایسے حالات کو دیکھتے رہنا انہیں گوارا تھا۔
سائیڈ سٹوری1-
آنس معین
تقریری مقابلے میں واہ واہ

آنس معین تب تیسری جماعت کا طالب علم تھا جب ایک تقریری مقابلے میں دوسرے بچوں کے برعکس تقریر رٹنے کے بجائے خودسے قبل تقریرکرنے والے طلبہ کی باتوں کے حوالے دے کر بہت سی باتیں کیں اور دلائل کے ساتھ اپنی بات سامعین تک پہنچائی اور فی البدیہہ تقریر کی۔اس واقعہ نے پورے سکول کو انگشت بدنداں کردیا اور ہر طرف سے اس کے لئے تحسین آمیز کلمات آئے،ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔اس نے اپنی عمر سے کہیں بڑھ کر ذہانت کا ثبوت دیا تھا۔
اس کی ذہانت کے حوالے سے ایک اورواقعہ بھی دلچسپ ہے کہ اس نے جس شخص سے شطرنج سیکھی اسے اسی شام کی نشست میں مات دے دی۔یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ حیرت انگیز ہے کہ شطرنج جیسے پرمغز کھیل میں اس نے عجیب کرشمہ کردکھایا۔
سائیڈ سٹوری2-

آنس معین کا آخری خط
زندگی سے زیادہ عزیز امی اور پیارے ابو جان
خدا آپ کو ہمیشہ سلامت اورخوش رکھے۔
میری اس حرکت کے سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہیں کہ میں زندگی کی یکسانیت سے اُکتا گیا ہوں۔کتاب زیست کا جو صفحہ الٹتا ہوں اس پروہی تحریر نظر آتی ہے جو پچھلے صفحے پر پڑھ چکا ہوتا ہوں۔اسی لئے میں نے ڈھیر سارے اوراق چھوڑ کر وہ تحریر پڑھنے کا فیصلہ کیا ہے جو آخری صفحے پر لکھی ہوئی ہے۔
مجھے نہ تو گھروالوں سے کوئی شکایت ہے نہ دفتر یا باہر والوں سے بلکہ لوگوں نے تو مجھ سے اتنی محبت کی ہے میں اس کا مستحق بھی نہیں تھا۔
لوگوں نے میرے ساتھ اگرکوئی زیادتی کی بھی ہے یا کسی نے میرا کچھ دینا ہے تو میں معاف کرتا ہوں۔خدا میری زیادتیوں اور گناہوں کومعاف فرمائے اور آخر میں ایک خاص بات وہ یہ کہ وقت آخرمیں میرے پاس راہ خدا میں دینے کو کچھ نہیں تو میں اپنی آنکھیںEye BankکوDonateکرتا ہوں۔میرے بعد یہ آنکھیں کسی مستحق شخص کے لگادی جائیں تو میری روح کو حقیقی سکون حاصل ہوسکنے کی امید ہے۔
مرنے کے بعد مجھے آپ کی دعائوں کی پہلے سے زیادہ ضرورت رہے گی۔البتہ غیرضروری رسومات پر پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میںنے کچھ روپے آمنہ کے پاس اسی لئے رکھوا دیئے ہیں کہ اس موقع پر کام آسکیں۔
آپ کا نالائق بیٹا
آنس معین
اسلم خان بلڈنگ،چوک نواں شہر۔ملتان(04-02-1986)
سرگزشت کے’’بے وقت موت نمبر‘‘کیلئے
’’خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور‘‘
اپنے کلام سے بڑے بڑوں کو ہلا کررکھ دینے والے جواں مرگ شاعر کا قصہ
تحریر:۔ وسیم بن اشرف، ڈپٹی نیوز ایڈیٹر۔ دنیا میڈیا گروپ۔ ملتان
    برائے رابطہ:   0322-2314444 - 0345-6520000
0345-3333380 - 0321-1112555

حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے سید فخرالدین بلے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے تاہم ان کی شناخت کا اصل حوالہ علم و ادب کی دنیا رہی، تصوف تحقیق ان کا خاص موضوع تھے۔وہ کئی اخبارات وجرائد کے بانی ایڈیٹر بھی رہے۔سیدفخرالدین بلے اپنی الوہی سرمستی میں رہنے والے انسان تھے۔فخرالدین بلے کی اہلیہ محترمہ نے اپنی اولاد کی تربیت میں کلیدی کردارادا کیا۔یہ گھرانہ لاہور پھر بہاولپور اور اس کے بعد ملتان میں قیام پذیر رہا۔
اس علمی وادبی گھرانے میں وہ بچہ جنم لیتا ہے جو اپنے فن سے سب کو گرویدہ کرلیتا ہے۔ جب وہ شعر کہتا تھاتو بڑے بڑے شاعر اور نقاد اس کی تعریف کئے بنا نہ رہ سکتے تھے۔جس نے بھی اسے پہلی بار دیکھا تو چشم آہوکے طلسم کا اسیر ہوکررہ گیا۔اتنی زندہ آنکھیں،زندگی کی ایسی چمک دمک اور للک بہت کم چہروں پرسجی آنکھوں میں دیکھی گئی ہوگی۔اس بچے کے گھر کا ماحول انتہائی مذہبی تھا گھر میں مذہبی مجالس کا انعقاد ہوتا تصوف ان کے گھرکا(Subject)اور ورثہ تھا۔ان کے گھر رت جگا رہتا۔فجر کی نماز کے بعد اہل خانہ سوتے،یہ گھرانہ پنجتن پاک کے ماننے والوں میں سے ہے۔سیدفخرالدین بلے کے ہاں5بیٹوں نے جنم لیا،عارف معین بلے،ظفرمعین بلے،علی معین،انجم معین اور آنس معین بلے،آنس معین اس وقت پیدا ہوئے جب یہ گھرانہ لاہور میں متمکن تھا۔ادبی رسائل،جرائد اورکتب میں آنس معین کی تاریخ پیدائش کہیں29نومبر1960ء اور کہیں 1959ء ملتی ہے۔ تاہم  معتبر ذرائع کے مطابق 1959ء میں انہوں نے جنم لیا۔
گھرکے ماحول نے آنس کی زندگی اور ان کی شخصیت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا۔آنس کا عقیدہ بہت مضبوط تھا وہ اللہ اورنبی آخر الزمانؐ پر پختہ یقین رکھتے تھے۔آنس نے ہر طرح کی کتب خصوصاً فلسفہ،تصوف اور نفسیات کا مطالعہ کیا، گھرکے علمی،ادبی اور مذہبی ماحول نے آنس کو کم عمری ہی میں ایک مثبت اور سنجیدہ سوچ عطا کی۔
آنس معین فی الحقیقت بہت ہی پیارا بچہ تھا۔عہد طفلی میںکھیل کے دوران یاکھلونوں اور ٹافیوں وغیرہ پر عموماً بچوں میں جھگڑا ہو جاتا ہے لیکن آنس ایسا صابروشاکر بچہ تھاکہ اس کے بچپنے میں بھی کسی نے اسے بہن،بھائیوں یا کسی اور سے جھگڑتے نہیں دیکھا۔وہ کم آمیز ضرور تھا مگر عموماً مسکراتارہتا تھا۔دھبہ تو دور کی بات وہ اپنے لباس پر شکن تک برداشت نہ کرتا تھا۔اس کے دوست کہا کرتے تھے کہ وہ اتنا نفیس آدمی تھا کہ اگر اس کی زندگی میں ہم سے پوچھا جاتا نفاست کیا ہوتی ہے تو ہم آنس کو لاکھڑا کردیتے ،اس کی زندگی کی ہر چیز میں ایک ترتیب تھی،سلیقہ تھا،حسن تھا۔
آنس نے اپنی شاعری کا آغاز1977ء میں کیا، نوبرس میں ڈیڑھ سو سے زائد غزلیں اور ڈھیروں نظمیں کہیں،جن میں حقیقت ذات وکائنات کی دریافت بہت نمایاں محسوس ہوتی ہے۔وہ سب سے خندہ پیشانی سے ملتا لیکن جس سے ملتا اس سے ایک فاصلہ بھی برقرار رکھتا تھا۔وہ اپنا کلام شائع کرانے، سنانے اورمشاعروں میں شرکت سے گریز کرتا تھا کیونکہ اس کے خیال میں شعر فہمی ہر شاعر کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔
 اس کے اہل خانہ اس کی تخلیقات اور باتوں کومحض شاعری ہی سمجھتے تھے۔اس کے بھائی، بہنیں اوراحباب’’دانشمند‘‘ کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے رہے۔اس کی چھوٹی بہن اس سے اکثر کہتی تھی کہ ’’آنس بھائی!‘‘آپ کی شاعری میں تو بس اندر اور باہرکے آدمی میں جنگ ہوتی رہتی ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا نے اس کی شاعری کو پڑھا تو آنس کی سوچ کو غیر معمولی اور اس کے لہجے کو چونکا دینے والا کہا اور یہ بھی کہا کہ اس کے بعض اشعار سے تو مجھے خوف آتا ہے۔اسی طرح کوئی 5برس قبل اس کے شعر سن کر جوش صاحب اور فیض صاحب نے جہاں بے پناہ داد دی تھی وہاں اس تشویش کا اظہار بھی کیا تھا کہ اس کی سوچیں اور لہجہ نہ صرف بڑا انوکھا بلکہ جھنجھوڑنے والا ہے ان کے والد محترم سید فخرالدین بلے 16مئی1986ء کو ڈاکٹر وزیر آغا کو لکھے اپنے ایک خط میں اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’کاش ہم نے اس وقت اس کے فکری رویے کی طرف دھیان دیا ہوتا اور جس داخلی کرب میںوہ مبتلا ہوگیا تھا اس سے نجات دلانے کی کوئی راہ نکالی ہوتی توشاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
جس کی اپنی عمر صرف27برس اور شاعری کی عمر9برس تھی ادبی دنیامیں دھماکہ کرنے والے اس شاعر کے حالات زندگی کے مختلف گوشوں کو سامنے لانے سے قبل ضروری ہے کہ وادیٔ  ادب کو سونا کرنے والے اس نوجوان کے فن پر نامور ادیبوں کی رائے اور خیالات کا تذکرہ ہونا جائے تاکہ آنس کو جاننے میں انہیں آسانی رہے جو اس جواں مرگ شاعر کی شاعری سے واقف نہیں، دیکھئے تو علم و ادب کے بڑے بڑے نام آنس کے بارے میں کہتے نظر آتے ہیں۔
٭ آنس معین کم سِن سقراط ہے ۔(شبیرحسن خاں جوش ملیح آبادی، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
٭ فیض احمد فیض نے آنس کی شاعری دیکھ کران جانے خدشے کااظہارکیاتھا۔اوربے ساختہ ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے کہ:
٭ I am yet to see a more grown up intellectual.(آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
٭ ’’وہ چھوٹی عمرکابزرگ دانش ورہے ،میں نے ایسا زیرک دانشوراس عمرمیں نہیں دیکھا‘‘۔ (فیض احمدفیض، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
٭  مجھے وہ ننھارومی نظر آتا ہے ۔(جابر علی سید، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
٭ آنس نئی سوچوں کاارسطوہے ۔(نسیمِ لیہ، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
٭ میں آنس معین کے ا شعارپڑھ کردم بخودرہ جاتاہوں اوررشک کرتاہوں کہ اس جیسے شعرکہہ سکوں۔(احمدندیم قاسمی،آوازجرس،ج 2،ش27،لاہور،ص 13)
٭ آنس کی شاعری چونکادینے والی ہے ۔(رازسنتوکھ سری، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
٭ آنس کا شکیب اورمصطفے ٰ زیدی سے موازنہ ادبی غلطی ہوگی۔(انورجمال، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
٭ اس کے اشعارجدیدشاعری پر اثرات مرتب کررہے ہیں۔(تنویر صہبائی، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
٭ آنس کو شکیب اورن م راشد کے حوالے سے سمجھناافسوس ناک ہے ۔(محمدفروز شاہ، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
٭ مجھے جواں سال آنس کی موت پرشکیب جلالی بہت یاد آیا۔(انورسدید، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
٭ لہجے کی الگ پہچان کے باعث ،اس کی شاعری زندہ رہے گی۔(عاصی کرنالی، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
٭ اگروہ چندبرس اور زندہ رہ جاتاتومجھے یقیں ہے کہ اس کاادبی مرتبہ کیٹس سے کم نہ ہوتا۔(ڈاکٹر وزیر آغا، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
٭ آنس معین چھوٹی عمرکااتنابڑاشاعرنکلا کہ اس کی قدوقامت کاجائزہ لینے کے لیے گردن اٹھاکردیکھناپڑے تواپنی دستارضرورسنبھالنی پڑتی ہے ۔(طفیل ہوشیارپوری،اظہاریہ،آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
٭ آنس معین جدیداسلوب ہی کا نہیں بلکہ منفردتوانالہجے کاخوب صورت شاعر تھا۔(مسعود ملک، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
٭ آنس معین نے چھوٹی عمر میں ذات اورکائنات کے اسرارِرموزکوسمجھ کراتنے رنگوں میں بیان کیاہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔(بیدارسرمدی، گہراب، گوشہ ٔ آنس معین)
٭ اسے زندگی حرف ناتمام کی صورت نظر آئی اوراس نے اپنے ادھورے پن کادکھ اپنی موت سے ختم کرلیا۔(مقصودزاہدی، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
٭ آنس نے اپنے اندر بسی ہوئی لامتناہی دنیاکاسفریونہی نہیں بلکہ بہ تقاضائے جستجو اختیار کیااوراس سفرکے دوران کبھی وہ وجودی مناظر سے ماوراء ہوکرچلااورکبھی قلزمِ روح میں غوطہ زن ہوا۔(فخرالدین بلے ،گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
٭ آنس معین کی کتابِ شعر بجنسہٖ ایک سمندرہے جس کاہرورق ایک موجِ لغت اورگنجینۂ معنی ہے۔ وہ اس حیرت کدے تک بہت کم وقت میں پہنچا،جس کی مسافت طے کرتے ہوئے گیانیوں کو صدیاں لگ جاتی ہیں۔(پروفیسرانورجمال، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
٭ آنس معین کاہرشعری اظہاربھرپور،ایسامکمل اورایسا spontaneousہے کہ اسے سوائے ایک تخلیقی معجزے کے کچھ اورنہیں کہاجاسکتا۔اس کے قطعی منفرداور چونکا دینے والے لہجے میں ایسے اشعارملتے ہیں کہ ان میں سے ایک شعر بھی کوئی کہہ پائے تو اس کاسر فخر سے بلندہوجائے ۔(اسلم انصاری،آنس معین نمبر، محفل،ایضاً، ص11)
٭ ڈاکٹرخورشیدرضوی نے اس خوف کااظہارکیا کہ آنس معین کے اندر ایک جوالا مکھی سلگ رہاہے ۔جو خدانہ کرے کہیں اسے بھسم کر دے ۔ (محفل،ایضا!،ص35)
٭ پروفیسر غلام جیلانی اصغر کے خیال میں لمحہ آنس معین کوقید کیے ہوئے تھا اوروہ اس قیدسے نکلنے کے لیے بے تاب ومضطرب تھا۔ (آنس معین نمبر،محفل،ایضا!،ص35)
٭ "توڑاجو توآئینہ تمثال دارتھا"،آنس آئینہ خانۂ دنیامیں ایک ایسی بے چین روح تھی،جس کے لیے زمان ومکاں کی وسعتیں بے معنی تھیں۔وہ عرفانِ ذات کی اس سرحدپرتھا،جہاں تک پہنچتے پہنچتے سانس اکھڑجاتی ہے ،گیانیوں کااگیان حرف غلط ہوجاتاہے ۔سیدآنس معین بلے ،خانوادۂ چشتیہ کاچشم وچراغ تھا۔ اس آئینہ خانہ میں اسے کیاکچھ نظر آیا،اوروہ کون سے حالات تھے کہ زیست نے ممات کالبادہ پہن لیا۔اس سوال کوتوکوئی حل نہیں کرسکتا۔اس کاکچھ جواب دے سکتے تھے تو ان کے والد،والدہ یابہن بھائی تھے ۔جن کے سامنے اس کی تمام زندگی تھی۔آنس معین کچھ بھی تھا یانہیں تھا مگر"آنس"ضرور تھا۔
وہ کم سِن سقراط ہو،یاننھارومی ہو،نئی سوچوں کاارسطوہویاچھوٹی عمرکابزرگ دانش ورہو ،وہ ایک ایسا عبقری تھا کہ وقت کی طنابیں اس کے سامنے ہیچ تھیں۔اسرارِ رموز کاایساپارکھ کہ عقل وخرد بے بس نظر آتے ہیں۔ورنہ اس عمر کاایسا شاعر آج تک کسی نے دیکھاہے ؟یہ خوبی غالب میں تھی کہ اس کاپہلادیوان "گلِ رعنا"جب شائع ہوا تو غالباً’’غالب‘‘کی عمر 21سال تھی۔
آنس پرلکھے گئے مضامین میں سے سب سے بہترمضمون ’’فخرالدین بلے ‘‘کاہے ۔اس کا مطلب ہے کہ انھیں آنس کے بارے میں بہت کچھ معلوم تھا۔لیکن ’’عشق کی ایسی جست‘‘شاید ان کے وہم وگماں میں نہ تھی۔
نہ تھی زمیں میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
انھوں نے آنس معین کے ایسے خیالات کوشاعرکاذہنِ رساخیال کیا۔کم سن سقراط ،جیسے الفاظ سن کرخوش ہوئے ۔چھوٹی عمرکابزرگ دانش ور سمجھتے رہے ۔ ننھارومی اورنئی سوچوں کے ارسطو کو سمجھنے کی کوشش نہ کی۔وہ جوالا مکھی جواس کے شعورولاشعورمیں پک رہاتھا اسے کسی ہم دمِ نرینہ کی تلاش تھی،جونہ ملا۔وہ کم گودل میں ہزاروں اندیشے ،ارماں اورراز لیے چلتابنا۔سب منہ دیکھتے رہ گئے ۔
آنس کے بعض افکارنہ صرف چونکادیتے ہیں بلکہ اندرسے ہلا دیتے ہیںاس لئے کوئی بات تیقن سے نہیں کہی جاسکتی۔لیکن چند نظمیں یا نظموں کے ٹکڑے ایسے ضرورہیں جن میں اس کی روح کی پرواز کون ومکاں کی حدیں پھلانگ گئی ہے ۔اوروہ ’’راز درونِ مے خانہ‘‘کا واقف نظر آتاہے ۔
آنس کی شاعری کو سامنے رکھ کر اس کی شعری جہات اورشخصیت کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔بقول شبیرحسین جعفری آنس کی زندگی کاپہلاشعر یہ تھا:
آخر کو روح توڑ ہی دے گی حصارِ جسم
کب تک اسیر خوش بو رہے گی گلاب میں
تحّیر کی وہ دنیا،جسے تسخیرکرنے میں زمانہ لگتاہے ،یہاں پہلے ہی شعرکے انداز سے ظاہر وباہرہے ۔آنس نے شاعری کی ابتدا وہاں سے کی جہاں اکثر شعرا کے دیوان ختم ہوجاتے ہیں۔ایسی اڑان کا یہ اختتام،یہ سب حیران کن نہیںکیونکہ جب غنچہ پھول بنا،اس کے مصھف سے نہ صرف حسن کے جلوے افروزاں ہوئے بلکہ اس کی روح(خوش بوپھول کی روح ہوتی ہے )آب وگل کی اس دنیاکومہکانے پرمصر ہوتی ہے ۔اسے اس حقیقت کاادراک ہوتاہے کہ یہ عمل اسے ایک ایسی وادی میں لے جائے گا،جووادیٔ عدم ہے ۔لیکن یہ اس کی فطرت ہے اور فطرت تبدیل ہونا تقریباًناممکن ہوتاہے ۔ لہٰذا آنس بھی اپنی روح کو کائناتی تناظر میں قربان کرنے کی جلدی میں تھا۔اس لیے جلد ہی ایک ایسی دنیاکی طرف روانہ ہوگیا۔جس کے اسرارِرموز سے ہم قریباً غافل ہیں۔فنی اعتبارسے دیکھا جائے تو آنس پہلے مصرع میں اپنی بات کہہ چکاہے ۔لیکن شعری پیکر کی مجبوری نے اسے مجبورکردیا اوراس نے یہ تلازمہ تراشا کہ جیسے خوش بو 'پابند نہیں رہ سکتی'اسی طرح روح کو مقیدرکھناناممکن ہے ۔
جیون کو دکھ ، دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے ،کس سے کہانی کہتے
چوں کہ " وا کر دیے ہیں، شوق نے ، بندِ نقابِ حسن "آنس نے آئینہ خانۂ حیرت میں جب نگاہ کی تو اسے کئی رنگ اورانگ نظر آئے ۔اب جو اس کے دل پر شگاف ہوئے تھے ان میں سب کو شامل کرنے کی لگن میں ،دنیا کی طرف متوجہ ہوتاہے ۔لیکن اسے دنیامحوِ خواب اور مدہوش نظر آئی۔
ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق
یعنی ہنوز منّتِ طفلاں اٹھائیے
(اسداللہ خاں غالب) 
آنس کااندازاتنانیااوراچھوتاہونے کے ساتھ ساتھ روایت کوبھی اس طرح اخذ کرتاہے کہ شعربالکل نیامعلوم ہوتاہے ۔گھرمیں علوم وفنوں کا ایک سرمایہ موجود تھا۔آنس نے اس علم وفن کو حرزِ جاں کرلیا۔اسے بدن کی کٹھالی سے گزارکرایساکندن کیاکہ فارس اوراردو زبان وادب کاعطرکشیدکرکے رکھ دیا۔
تیرا لہجہ اپنا یا اب ،دل میں حسرت سی ہے
اپنی کوئی بات کبھی تو اپنی زبانی کہتے
جولوگ لہجہ بدلنے کومعمولی سی چیز یافن سمجھتے ہیں۔ان کے لئے سوچنے کامقام ہے کہ لہجہ بدلنے سے سوچ اور پھرلاشعوری طورپرجو فرق پڑتا ہے وہ اہلِ علم جانتے ہیں۔آنس کوخودبھی اس بات کاادراک تھاکہ وہ ایک نئے طرز کے اسلوبِ شاعری کو رواج دے رہاہے ۔اس نے زندگی،زمان ومکاں اورانسانی روابط کی سائیکی کو اس آسانی سے اشعارمیں بیان کیاہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔اس عمر میں زنگی کاایساانوکھا اظہار، سوائے عطائے ربی کے علاوہ کیاکہاجاسکتاہے ۔عملی زندگی میں وہ ادب کاطالب نہیں تھا۔وہ ایک بینکرتھا،لیکن اشعارمیں ایسی باریک باتوں کااس سہولت سے اظہاریہ ظاہرکرتاہے کہ جہاں ظاہری علم نے اس کی رہنمائی کی،وہیں باطنی علم کے خزانوں سے بھی اسے وافرحصہ ملاتھا۔
چپ رہ کر اظہار کیا ہے ،کہہ سکتے تو آنس
ایک علیحدہ طرز سخن کا تجھ کوبانی کہتے
جس معاشرے میں اسے رہنے اوردیکھنے کاموقع ملاتھا۔وہ اس معاشرے کے کھوکھلا پن، تصنع، دکھاوا،ریاکاری، فریب،جھوٹ اورمنافقت سے بدظن تھا۔اس کی روح جو خوش بو تھی،اس تعفن زدہ ماحول میں گھٹ کررہ گئی۔ممکن ہے وہ کچھ اوردن زندہ رہ جاتا،لیکن ظاہروباطن کے تضادات اور لوگوں کے رویوں نے اسے وقت سے پہلے آخری فیصلہ کرنے پرمجبورکردیا تھا۔ تعلقات کوبھی،ریا سمجھتاتھا۔اس لیے کہ:
ہو جائے گی جب تم سے ، شناسائی ذرا اور
بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی ذرا اور
کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور
پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکو گے
یہ الجھی ہوئی ڈور جو سلجھائی ذرا اور
اب وہ معاشرے کے ان زخم خوردہ حصوں کو سدھانہ اورسہلاناچاہتاہے ۔لیکن لوگ اسے ناسور ماننے کوتیارنہیں ہیں۔اس لئے "وہ الجھی ہوئی ڈورکوباوجوداس کے کہ سلجھاناچاہتاہے ،نہیں سلجھاسکتا"۔اس کربِ مسلسل نے شکستِ ذات میں کلیدی کرداراداکیا۔اس لیے وہ کہہ اٹھتاہے ۔ میرے ہاتھوں پہ زخموں کی تعداد تمھارے تصور سے زیادہ ہوگی۔
پتھرہیں سبھی لوگ ،کریں بات توکس سے ؟
اس شہرِ خموشاں میں صدادیں توکسے دیں؟
ہے کون کہ جوخودکوہی جلتاہوادیکھے ؟
سب ہاتھ ہیں کاغذکے دیادیں توکسے دیں؟
سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ!
اورپاس ہے بس ایک ردادیں توکسے دیں؟
جب ہاتھ ہی کٹ جائیں،توتھامے گابھلاکون؟
یہ سوچ رہے ہیں کہ عصادیں توکسے دیں؟
بازارمیں خوش بوکے خریدارکہاں ہیں؟
یہ پھول ہیں بے رنگ بتادیں توکسے دیں؟
٭…………٭
باہربھی اب اندرجیساسناٹاہے
دریاکے اس پاربھی گہراسناٹاہے
کس سے بولوں ،یہ تواک صحرا ہے جہاں پر
میں ہوں یاپھرگونگابہراسناٹاہے
محوِ خواب ہیں ساری دیکھنے والی آنکھیں
جاگنے والابس اک اندھاسناٹاہے
ڈ رناہے توانجانی آوا ز سے ڈ ر نا
یہ توآنس دیکھابھالاسناٹاہے
آنس معین کی شاعری معاشرتی رویوں پرنشترتوچلاتی ہے ۔اوران ناسوروں کاعلاج بھی چاہتاہے ۔لیکن گونگے ،بہرے لوگوں میں وہ کس سے کہے ۔اک طرف شورِشر انگیزہے ۔جس سے سناٹابھی سہم گیاہے ۔اس پر ستم یہ کہ جودیدۂ بینا ہیں،وہ خوابِ خرگوش میں مدہوش ہیں۔آنس کی شاعری قنوطی نہیں ہے ۔ اس کے اشعار زندگی کی للک سے معمورہیں۔آنس بارہا زیست کی طرف پلٹتااور لپکتاہے ۔ کہ یہ سناٹاکوئی نئی چیز نہیں۔یہ تواب ہمارے ماحول کا حصہ ہے ۔لہٰذااس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ہاں ایک بات خوف وخطرسے خالی نہیں ہے کہ"کوئی انجانی آواز"جو محبت کالبادہ اوڑھ کرنفرتوں کے بیج بو دے ۔اس سے احتیاط لازم ہے ۔ مایوسیاں آنس پر سوارنہیں ہوتیں،پرآنس انتہائی محتاط شاہ شوارہے ۔وہ وقتی فتح پریقین نہیں رکھتا۔اسے دائمی فتح سے پیارہے ۔لیکن چاروں اور"اندھاسناٹا"ہونے کی وجہ سے خود میں سمٹ کررہ جاتاہے ۔اسے کہیں سے کمک نہیں ملتی۔اندرکی روشنی اسے بار بار راستہ دیتی ہے ۔
بدن کی اندھی گلی توجائے امان ٹھہری
میں اپنے اندرکی روشنی سے ڈراہواہوں
نہ جانے باہربھی کتنے آسیب منتظرہوں
ابھی بس اندرکے آدمی سے ڈراہواہوں
 آنس اب تھک چکاہے ۔اپنی ذات سے جنگ،معاشرتی اقدار کو کھوکھلاکرتی ہوئی رسموں سے جنگ اور بہت سے نادیدہ جال جوہرفردکوجکڑے رکھتے ہیں۔شاعرکوبے دست وپاکرچکے ہیں۔اوروہ سوچنے پرمجبورہوگیا ہے ۔
شایدادھورے پن کاہودکھ ختم موت سے
اک حرفِ ناتمام کی صورت ہے زندگی
اب زندگی ’’حرفِ ناتمام‘‘نظرآنے لگی اورادھورے پن کادکھ’’موت‘‘سے ختم ہونے کی امیدپیداکرنے لگا۔پھربھی اک"یادکے بے نشاں جزیروں"سے آتی
ہوئی کرن کہیں کس مسارہی تھی۔
ہونٹ پتھرہوچکے اوربجھ چکی آنکھیں مگر
تیرے اندرکون زندہ ہے اسے بھی ختم کر
٭……………٭
انجام کوپہنچوں گامیں انجام سے پہلے
خودمیری کہانی بھی سنائے گاکوئی اور
امیدِ سحربھی تووراثت میں ہے شامل
شایدکہ دیااب کے جلائے گاکوئی اور
آنس نے واضح کردیاکہ اب آخری منظر آنے والاہے ۔کہانی کاانجام سامنے ہے ۔یہ انجام طے شدہ نہیں تھا،لیکن کہیں اس کھیل میں کوئی ایسی تبدیلی واقع ہوئی کہ آخری منظر چل گیا۔اب ایساکیوں ہو؟یہ کوئی اوربتائے گا۔زندگی کاتسلسل برقراررہے گا۔دیئے جلتے رہیں گے ۔کیوں کہ "شمع ہررنگ میں جلتی ہے سحرہونے تک"۔
آنس معین کے فن پر بات کرنے کیلئے سینکڑوں صفحات بھی کم ہیں۔اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ یہ خوبصورت نوجوان ے عین جوانی میں خود کو موت کے سپرد کیوں کردیتا ہے۔
آنس کے اہل خانہ کے مطابق گھریلو اور ذاتی زندگی میں وہ سب کے لئے ہمدرد، مخلص، تمام رشتوں کے مطابق ہرجذبے سے سرشار،حصول روزگار میں مشغول،لکھنے لکھانے میں منہمک، گویا آنس کے اہل خانہ کہیں بھی اس امرکا اظہار کرتے نظر نہیں آتے کہ آنس کی زندگی میں سرکاری یا جذباتی ونفسیاتی سطح پر کوئی ایسی الجھنیں تھیں جنہوںنے رفتہ رفتہ آنس جیسے حساس شاعر کے لئے مسائل کا روپ دھار لیا لیکن دوران تحقیق ایک بات سامنے آتی ہے کہ آنس کا اپنے دفتر میں کام کرنے والی ساتھی خاتون سے جذباتی تعلق قائم ہو گیا تھا۔دونوں  میں سنجیدگی سے شادی سے متعلق بات چل رہی تھی لیکن یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ ان کے گھرانے میں بیٹوں ا ور بیٹیوں سے پوچھ کررشتے کیے جاتے تھے آنس نے کبھی اظہار نہیں کیا تھا کہ وہ کسی کو پسند کرتا ہے آنس نے شادی کامعاملہ یہ کہہ کر گھروالوں پر چھوڑ دیا تھا کہ جو لڑکی گھروالوں کی نظر میں بہتر ہو اور کنبے میں ایڈجسٹ کرے اس سے شادی کردی جائے۔آنس ایک بینکار تھا۔اس کے بینک میں غبن ہوگیا ایک خفیہ ایجنسی تحقیقات پر مامور تھی کسی ملازم نے سرکاری رقم30ہزار خورد برد کرلئے۔آنس اس شاخ کے انچارج تھے تفتیش میں آنس کو بھی شامل کیا گیا،وہ  انتہائی ایماندار شخص تھا،اپنی عزت کو نیلام ہوئے دیکھنا اس کیلئے اہم مسئلہ تھا لیکن اس کے ہاتھ صاف تھے۔
جس روز آنس خود کو موت کے حوالے کرتا ہے اس روز وہ دفتر آتا ہے۔احباب سے بے ربط اور الجھی باتیں کرتا ہے۔آنس کے والد خود بتاتے تھے کہ جس بینک میں وہ کام کرتا تھا چھوٹے بڑے سب اس کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔اس نے فارن ایکسچینج میں امتیاز حاصل کیا تھا اور اس کی فارن پوسٹنگ متوقع تھی۔
موت سے دو دن قبل آنس ہیٹر کے پاس بیٹھا آخری خط لکھ رہا تھاکہ اپنے بڑے بھائی عارف معین بلے کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا،موت کے روز وہ بینک گیا اور اس ساتھی خاتون جس سے ان کا جذباتی تعلق تھا، ایک کاغذ لیا اس پر کچھ لکھا اور جیب میں ڈال دیا۔
5فروری1986ء کو ان کے والد اسلام آباد میں تھے اوروالدہ کراچی گئی ہوئی تھیں۔ گھر پر ان کی چھوٹی بہن اور بھائی عارف اور ظفرتھے۔وہ4فروری کی رات گئے تک ان کے ساتھ ہنستا بولتا رہا،5 فروری کو ملتان ریلوے سٹیشن پر آتا ہے اور خود کو خیبرمیل کے سپرد کردیتا ہے۔27سال کے خوش پوش نوجوان کو پلیٹ فارم پر موجود افراد نے دیکھ کر یہی خیال کیا ہوگا کہ یہ نوجوان کسی سفر پرروانہ ہونے والا ہے۔ہاں وہ ایک سفر پر ہی تو جارہا تھا لیکن وہاں سے واپسی ناممکن تھی۔ہنستے بولتے گھر سے جانیوالا آنس خون میں نہائے گھر آیا۔ آنس کی غیر معمولی موت سے گھرکے سبھی افراد ٹوٹ پھوٹ گئے، بکھر کررہ گئے اور آہستہ آہستہ خودکو سنبھالا،سمیٹا اور اس غم کے ساتھ جینے کی کوششوں میں لگ گئے۔آنس کو نور شاہ بخاری قبرستان بہاولپور میں سپرد خاک کردیاگیا۔
(اللہ اس کی لحد پرشبنم افشانی کرے)۔















ماخذ

مانوس اجنبی: از :مظہر فریدی
راگ رت ،خواہش مرگ اور تنہا پھول: از ڈاکٹر صفیہ عباد
معلم اردو: شمارہ فروری1992ء
گردوپیش: ویب سائٹ
جسم وجاں سے آگے: از: زیبا نورین
ثروت حسین،شخصیت اور ادبی خدمات: از: عدنان بشیر


Comments

Popular posts from this blog

اردو ناول کا ارتقا

اردو محاورے۔۔۔۔۔۔ وسیم بن اشرف

واٹس ایپ کی سرجری۔۔معلومات ہی معلومات