سٹوری بھنور جو آنچ کے نام سے نئے افق میں شائع ہوئی

’’سسپنس ڈائجسٹ کیلئے‘‘
’’بھنور‘‘
تحریر:۔ وسیم بن اشرف، ڈپٹی نیوز ایڈیٹر۔ دنیا میڈیا گروپ۔ ملتان
    برائے رابطہ:   0322-2314444 - 0345-6520000
0345-3333380 - 0321-1112555

ڈور بیل بجے پر جیسے ہی صفدر نے دروازہ کھولا ایک خنجربردار نوجوان نے اسے گریبان سے پکڑ کر جھٹکا دیا، چوکھٹ پر ٹھوکر لگی وہ گرنے سے بچ گیا، جونہی وہ دروازہ سے باہر آیا چٹاخ، پٹاخ، تڑاخ، کی آوازیں گلی میں گونج اٹھیں، نوجوان نے اس پر تھپڑوں کی بارش کر دی، گھونسوں، ٹھڈوں اور ٹکروں سے اس کا انجر پنجر ہلا کر رکھ دیا، ابھی دھنائی جاری تھی کہ اڑوس پڑوس کے چند افراد وہاں جمع ہو گئے، کچھ راہگیر بھی تماشہ دیکھنے کے لئے رُک گئے، محلہ داروں نے بمشکل بیچ بچاؤ کرایا۔ خنجر بردار اسے جان سے مارنے پر تلا ہو تھا، اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر شخص بھی بندوق تھامے کھڑا تھا۔ صفدر سمیت کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ آخر بات کیا ہے؟ خنجر بردار کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا، بندوق تھامے جو شخص کھڑا تھا غصہ سے اس کی تیوریاں بھی چڑھی ہوئی تھیں۔
’’رفیق بھائی کیا ہوا‘‘ ایک محلے دار نے ادھیڑ عمر شخص کو پہچانتے ہوئے پوچھا۔
’’اسی لوفر سے پوچھو، نہیں بتائے گا تو ہم اگلوا لیں گے‘‘ ادھیڑ عمر شخص کے بجائے خنجربردار غصیلے لہجے میں بولا۔
’’کیا بات ہے صفدر، کیوں یہ لوگ تمہیں مارنے پر تُلے ہوئے ہیں‘‘ اس کے ہمسائے بابر انصاری نے پوچھا، صفدر اپنی چوٹوں کو سہلاتے ہوئے نظریں جھکائے کھڑا تھا، منہ میں خون کا ذائقہ محسوس ہو رہا تھا یا تو زبان پر زخم آیا تھا یا پھر تابڑ توڑ مکوں سے ایک دودانت اپنی جگہ سے ہل گئے تھے، اس نے ایک طرف منہ کر کے تھوک اُگلا اور ہکلاتے ہوئے بولا ’’جج، جناب، مم میں کک کیا بتاؤں، اس نے منہ میں جمع ہونے والا خون دوبارہ تھوکا اور کچھ بولنے ہی والا تھا کہ ایک سکوٹر پاس آ کر رُکا، صفدر کے والد عابد علی تھے، کسی نے انہیں فون پر اطلاع کر دی تھی، انہوں نے پہنچن میں دیر نہ لگائی، لوگوں کی بھیڑ میں راستہ بناتے وہ آگے آئے تو بیٹے کی حالت دیکھ کر ششدر رہ گئے، کپڑے لیر و لیر ہو چکے تھے، ہونٹوں پر خون جما ہوا تھا، آنکھوں پر چوٹوں کے نشان نمایاں تھے، رخسار سرخ ہو چکے تھے۔
’’کس نے کیا اس کا یہ حشر؟‘‘ وہ پریشانی کے عالم میں بولے۔
’’ہم نے کیا‘‘ خنجربردار نے دھڑلے سے جواب دیا۔
’’مگر کیوں، کیا ہوا؟‘‘ وہ بھی دوسروں کی طرح حقیقت سے لاعلم تھے۔
’’اپنے اس ہیرو بیٹے سے پوچھو‘‘ رفیق نے بندوق سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
عابد علی 55 سال کے زیرک شخص تھے، حالات و واقعات ایک خاص سمت اشارہ کر رہے تھے، ’’چلو بھئی جاؤ اپنا اپنا راستہ ناپو‘‘ اندر آ جائیں، بیٹھ کر بات کرتے ہیں‘‘ انہوں نے نوجوان، اس کے باپ اور محلہ ک جمع ہونے والے معززین کو بھی اندر بلا لیا، بیٹھک میں پنچایت کا ماحول بن گیا، ’’جاؤ منہ دھو کر کپڑے بدل کر آؤ‘‘ انہوں نے بیٹے کو حکم دیا، 20 منٹ بعد صفدر بھی بیٹھک میں موجود تھا۔
بابر انصاری نے عابد علی کو بتایا ’’یہ رفیق بھائی ہیں، مویشی منڈی میں جانوروں کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں، یہ ان کا بیٹا جاوید ہے، صفدر کے ساتھ ان کی مار پیٹ کی وجہ ہمیں نہیں معلوم، ابھی ہم نے بیچ بچاؤ کرایا ہی تھا کہ آپ پہنچ گئے، حقیقت تو یہی بتائیں گے‘‘۔
’’ہاں بھائی بتاؤ کیوں صفدر سے مار پیٹ کی‘‘ ایک بزرگ محلے دار نے پوچھا۔
’’دیکھو بزرگو، ایک بات بتاؤ! کیا بہن بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں‘‘ رفیق بولا۔
’’ہاں پُتر تو درست کہتا ہے، عزت سب کی برابر ہوتی ہے‘‘ بزرگ خورشید بیگ نے جواب دیا، لیکن اس لڑکے کو اس کے بڑوں نے شاید یہ بات نہیں سمجھائی‘‘ رفیق نے بات جاری رکھی۔
میری بیٹی یونیورسٹی جاتی ہے اور یہ روزانہ اس کے راستے میں ہیرو بن کر عشق جھاڑنے کھڑا ہو جاتا ہے، جو آج صبح ہوا وہ اسی کی زبانی سن لیں اور پھر یہاں موجود تمام لوگ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ کیا غلط اور کیا صحیح ہوا‘‘۔
’’بتا پُتر صفدر، جھوٹ بولنے کی تمہارے پاس گنجائش نہیں‘‘ بزرگ نے کہا۔ وہ شرم سے زمین میں گڑا جا رہاتھا، بالآخر بولا ’’گلی میں سے جو لڑکی گزرتی تھی، مجھے بہت اچھی لگتی تھی، میں نے آج اس سے اظہار محبت کر دیا، لڑکی نے مجھے تھپڑ دے مارا اور اب جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے‘‘ عابد علی کا سر اور جھک گیا۔ بیٹے کے کرتوت نے ان کی عزت کی دھجیاں بکھیر دی تھیں، محلے دار انور علی جو کسٹم میں ملازم تھے بولے ’’رفیق صاحب! اس لڑکے کی اس بے ہودہ حرکت پر ہم سب آپ سے معافی مانگتے ہیں، آئندہ آپ کو شکایت نہیں ملے گی، اس کو جو سزا مل گئی، میرا خیال ہے اس کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے، اب آپ اسے معاف کردیں‘‘۔
’’آپ سب معزز افراد ہیں، محلے دار بھی ہیں، ہم نے اسے معاف کیا لیکن یہ اپنی زبان سے میری بیٹی کو بہن بولے‘‘ رفیق مشروط معافی دے کہا تھا، عابد علی گم سم بیٹھے تھے، اتنے میں ایک لڑکا مشروب کی بوتلیں لے آیا، سب کو پیش کرنے کے بعد چلا گیا، صفدر نے سب کے سامنے باپ بیٹے سے معافی مانگی اور لڑکی کو بہن بول دیا، معاملہ ٹھپ ہو گیا، رفیق اور اس کا بیٹا جا وید چلے گئے، بیٹھک میں بزرگ خورشید بیگ، انور علی، بابر انصاری رہ گئے۔
’’صفدر تو نے اپنے باپ کی پگ کو داغ لگا دیا‘‘ انور علی نے کہا، محلہ میں، بازار میں تیرے باپ کی بہت عزت ہے، تو نے ساری عزت خاک میں ملا دی، کیا گزر رہی ہو گی تیرے باپ کے دل پر، پاؤں پڑ جا باپ کے، اور توبہ کر کہ آئندہ کبھی شکایت کا موقع نہ دے گا‘‘ بزرگ خورشید بیگ نے ڈانٹنے کے انداز میں کہا، صفدر اپنی جگہ سے اٹھا اور باپ کے پاؤں میں بیٹھ کر آنسو بہانے لگا، ’’ابا معاف کر دو، میں نے آپ کا دل دکھایا‘‘ اس نے پاؤں پکڑ لئے، باپ کی آنکھیں بھی نم آلود تھیں، آئندہ کبھی آپ کو دُکھ نہ دوں گا، ایک بار معاف کر دیں‘‘ عابد علی نے اسے دونوں شانوں سے پکڑ کر اٹھایا اور اپنے پاس بٹھایا اور غمگین لہجے میں بولے ’’جا اپنے چاچا بابر کے ساتھ، ڈاکٹر کو چیک کرا کے آ، کہیں کوئی گہری چوٹ نہ لگ گئی ہو‘‘۔
’’خورشید صاحب، بھائی انور آپ کا شکریہ، آپ نے بات بڑھنے سے بچا لی، غیرت کے نام پر لوگ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں، یہ جب کبھی آپ کو ملے تو اس کو سمجھاتے رہا کریں، میں نے باپ ہونے کے ناطے اس کو ہر اونچ نیچ سے آگاہ کیا، اولاد ناخلف ہو تو والدین کیا کریں‘‘ دونوں محلے دار عابد علی کو دلاسہ دیتے ہوئے چلے گء، عابد علی دکان پر نہ گئے۔ فون کر کے ملازمین کو دکان بند کرنے کا کہہ کر اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئے، ذہن الجھا ہوا تھا، سوچوں نے یلغار کر دی، آنکھیں موند کر لیٹ گئے۔
٭……………٭
عابد علی کی عمر 55 سال کے لگ بھگ تھی، بڑی آسودہ زندگی گزار رہے تھے، 10 سال قبل ان کو اس وقت زبردست شاک پہنچا جب ان کی شریک حیات داغ مفارقت دے گئیں، نیک بخت کو کینسر تھا، موذی مرض سے نجات کیلئے عابد علی نے پانی کی طرح پیسہ بہایا لیکن جان بھی گئی اور پیسہ بھی، بیوی کے اﷲ کو پیارے ہونے کے بعد عابد علی نے غم بھلانے کیلئے اپنی ساری توجہ دونوں بچوں پر مرکوز کر دی، بیٹی رخشندہ کو ایم اے کرایا اور تین برس قبل اس کے ہاتھ پیلے کر کے اس فرض س سبکدوش ہو گئے، ان کے لاکھ جتن کے باوجود بیٹا صفدر ایف اے سے آگے نہ پڑھ سکا، بالآخر اسے اپنے ساتھ کپڑے کی دکان پر لے جانا شروع کر دیا، مین بازار میں عابد علی کی کپڑے کی دکان تھی، کاروبار اچھا تھا، تین ملازم بھی رکھے ہوئے تھے، عابد علی کی بازار میں بہت عزت تھی اور محلے میں ان کا شمار معززین میں ہوتا تھا۔ اہل محلہ ان کی بہت عزت کرتے تھے، گھر کے کام کاج اور کھانے پکانے کیلئے محلہ ہی کے گھروں میں کام کرنے والی ماسی نذیراں کو وہ ماہانہ 3 ہزار روپے دیتے تھے، گھر کی صفائی، کھانا پکانا، کپڑے دھونا ماسی کے ذمے تھا، چھوٹے موٹے کام باپ بیٹا خود ہی کر لیتے تھے، بیٹی پرائی ہو چکی تھی اور پرائے شہر میں ہی جا بسی تھی۔ صفدر 22 ویں سال میں داخل ہو چکا تھا، عابد علی محسوس کرتے تھے کہ پڑھائی کی طرح دکان میں بھی اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی، وہ آوارگی کی طرف مائل تھا، عابد علی کی عادت تھی کہ وہ صبح 9 سے ساڑھے 9 بجے دکان کھول لیتے تھے لیکن صفدر 12 بجے سے پہلے کبھی دکان پر نہیں آتا تھا اور رات کو دکان بند کرانے سے بہت پہلے ہی دوستوں کے ساتھ نکل جاتا، عابد علی باپ ہونے کے ناطے اکثر اسے اچھے بھلے کی تمیز اور زمانے کی اونچ نیچ سمجھاتے رہے تھے، خوف محسوس کرتے تھے بیٹا ہاتھوں س نکل نہ جائے اور سختی اس لئے نہیں برتتے تھے کہ اکلوتی جوان اولاد تھی کوئی ایسا ویسا کام نہ کر بیٹھے جو اس کی سبکی کا باعث بنے، زندگی یونہی رواںدواں تھی۔
٭……………٭
ڈاکٹر سے واپسی پر صفدر گھر پہنچا، باپ کے کمرے میں جھانکا، وہ لائٹ بند کر کے لیٹے ہوئے تھے، وہ پشیمان سا اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا، صبح اس من موہنی، گلابی گال، کالے لانبے بالوں والی کے نرم و نازک ہاتھ کے تھپڑکی کسک دور نہیں ہوئی تھی کہ شام کو اس کے بھائی اور والد نے سب کے سامنے اسے ذلت کے گڑھے میں دھکیل دیا، وہ خود کو باپ سمیت رسوائی کی دلدل میں دھنستا ہوا محسوس کر رہا تھا، وہ اس لڑکی سے محبت کا جرم کر بیٹھا تھا، محبت یکطرفہ تھی، دوطرفہ کرنے کا صلہ اسے مل گیا تھا، چوٹوں سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں تو دل میں ہول اٹھ رہا تھا کہ اب وہ گلی کی نکڑ پر کھڑے ہو کر اسے دیکھ بھی نہیں سکے گا، انہی سوچوں کے دھارے میں بہتے بہتے وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
٭……………٭
عابد علی دوسرے کمرے میں اگرچہ آنکھیں بند کئے لیٹے تھے لیکن خیالات کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، آج ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ صفدر دکان پر دیر سے کیوں آتا تھا اور جلدی کیوں چلا جاتا تھا، کاش اس کی ماں زندہ ہوتی تو شاید یہ دن انہیں نہ دیکھنا پڑتا، وہ کس منہ سے گلی محلے والوں کا سامنا کریں گے، بالآخر سونے سے قبل انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ آئندہ وہ صفدر کی کڑی نگرانی رکھیں گے۔
٭……………٭
حالات معمول پر آ گئے، دو ماہ گزر گئے، اس دوران صفدر نے اپنے کردار اور گفتار سے ثابت کر دیا کہ وہ ایک بھول تھی جو اس سے ہو گئی۔ اس نے تمام ملنے جلنے والوں پر اچھا تاثر چھوڑا، دکان پر وقت سے جانا اور آنا، باپ کی خدمت اور اطاعت میں کوئی کسر نہ چھوڑی، یہ سب ظاہر میں تھا، باطن میں کیا تھا یہ کوئی نہ جان سکا، اس کے اندر بھڑکی آگ اب الاؤ کی صورت اختیار کر چکی تھی، ان دو ماہ میں انتہائی خفیہ طریقے سے جو وہ کر چکا تھا اس کی خبر اس کے سائے کو بھی نہ تھی۔
٭……………٭
جس محلے میں عابد علی کا گھر تھا، چند گلیاں چھوڑ کر عمران اور وقاص دو نوجوان رہتے تھے، ایک نمبر کے لوفر تھے، ہیروئن بھی پیتے تھے، کبھی ہیروئن کے پیسے نہ ہوتے تو چوری چکاری بھی کر لیتے تھے، دونوں نے جاوید سے مراسم بڑھانا شروع کر دئیے، تعلق دوستی میں بدل گیا، پھر دوستی دن بدن گہری ہوتی چلی گئی، ایک روز لوہا گرم دیکھ کر انہوں نے چوٹ لگا دی۔
’’جاوید بابو، خالی خولی سگریٹ خاک مزا دیتا ہو گا‘‘ عمران اپنی چرب زبانی سے اسے مائل کرنے لگا، کبھی ہمارے والے سگریٹ کے دو کش تو لیکر دیکھو، لذت اور سرور تو ایک طرف خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس نہ کرو پھر کہنا، چند کش ہی دنیا بھر کے غم بھلا دیتے ہیں۔
’’نا بابا نا‘‘ میں باز آیا ایسی سگریٹ سے جو خود سے بیگانہ کر دے۔ جاوید نے صاف انکار کر دیا، ’’کیا باپ کرتے ہو بابو‘‘ وقاص نے لقمہ دیا، بندہ چند کش لینے سے بیگانہ نہیں ہوتا، صرف سرور کی لہر محسوس ہوتی ہے، ہاں دو چار سگریٹ اکٹھے پی لو تو پھر واقعی بندہ اپنے آپ میں نہیں رہتا۔
’’نا بھئی، منہ سے بدبو آئے گی، کسی کو پتہ چل جائے گا‘‘ جاوید کو نیم رضامند ہوتے دیکھ کر دونوں نے مزید کوئی بات نہ کی۔
٭……………٭
ایک رات تینوں جاوید کی بیٹھک میں بیٹھے تھے، جاوید نے سگریٹ سلگایا، عمران اور وقاص نے بھی اس کی ڈبی سے دو دو سگریٹ نکالے، سگریٹ سے تمباکو نکال کر اس میں ہیروئن پاؤڈر ملایا، تمباکو دوبارہ سگریٹوں میں بھرا اور سلگا لئے، جاوید سے رہا نہ گیا انہیں سرزنش کے انداز میں بولا ’’یار یہ تم کس گندے کام میں پڑ گئے ہو‘‘ ’’پہلے ہم بھی اسے انتہائی برا سمجھتے تھے، لیکن گرو کی قسم پی کر دیکھا تو محسوس ہوا دنیا میں اس سے مزیدار چیز ہی کوئی نہیں ہے‘‘ وقاص نے پراعتماد لہجے میں کہا۔
’’لو ایک دو کش لگا لو‘‘ عمران نے اسے پیشکش کی۔
’’نا بابا‘‘ ابا کو پتہ چل گیا تو بڑے چھتر پڑیں گے‘‘ جاوید نے انکار کر دیا۔
’’نہیں پتہ چل گا جاوید بابو، ہم گارنٹی دیتے ہیں‘‘ عمران نے اسے مائل کرنا چاہا۔ جاوید ہچکچا رہا تھا اور دونوں لوفر اسے چند کش لگانے کیلئے مجبور کئے جا رہے تھے، بالآخر ان کی چرب زبانی کے جال میں پھنس کر اس نے چند کش لے لئے، بربادی کا آغاز ہو رہا تھا، کانپتے ہاتھوں سے جاوید نے سگریٹ واپس کر دیا اور خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا، اس نے سوچا دونوں ٹھیک ہی تو کہہ رہے تھے، عاقبت نااندیش نہیں جانتا تھا کہ وہ تباہی کی سیڑھی کے پہلے زینے پر قدم رکھ چکا ہے۔
’’بڑا مزا آ رہا ہے یارو‘‘ جاوید نے سگریٹ لیکر ایک اور کش لگاتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو! دوست آج تم نے پہلی بار ہیروئن پی ہے، رات کو چکر وکر آئیں تو گھبرانا نہیں‘‘ عمران نے اس کا حوصلہ بڑھایا، تھوڑی دیر بعد دونوں چلے گئے، جاوید بستر پر لیٹ گیا، اسے پسینہ اور چکر آنے لگے تاہم وہ گھبرانے کی بجائے سرور محسوس کرتا رہا، صبح وہ بیدار ہوا تو سر چکرا رہا تھا۔ آنکھوں میں سرخی تھی۔
٭……………٭
دن میں تینوں کی ملاقات نہ ہوئی، عمران اور وقاص دانستہ اس سے دور رہے لیکن رات کو پھر اس کے گھر آ دھمکے، ’’کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا، جاوید بابو‘‘ عمران نے پوچھا، نہیں تو، بڑے مزے کی نیند آئی، صبح آنکھوں میں سرخی اور سر چکرا رہا تھا، ماں نے پوچھا تو میں نے سر درد کا بہانہ بنا دیا‘‘ جاوید نے بتایا۔
’’پہلی سگریٹ پینے سے آنکھیں لال ہو جاتی ہیں اس کے بعد کوئی سرخی شرخی نہ درد مرد‘ صرف مزہ ہی مزہ‘‘ عمران نے چسکورے لیتے ہوئے کہا۔ ’’یہ لو پیو، ہماری طرف سے تحفہ سمجھو‘‘ وقاص نے اس کی طرف سگریٹ بڑھایا۔ ’’یار یہ نشہ کہیں لگ ہی نہ جائے‘‘ اس نے ڈرتے ڈرتے سگریٹ لے لیا۔
’’نہ جاوید بابو! کیسی بات کرتے ہو، جب دل کرے چھوڑ دو‘‘ وقاص نے اس کی ہمت بڑھائی، آج اس نے بربادی کی سیڑھی کے دوسرے زینے پر قدم رکھ دیا تھا، اس ن سگریٹ سلگایا اور گہرے گہرے کش لینے لگا، آج اسے گزشتہ روز سے بھی زیادہ لطف آیا۔
٭……………٭
جاوید کی بیٹھک ان کا مستقل ٹھکانہ بن گیا۔ تیسرے روز دونوں جان بوجھ کر تاخیر سے آئے، تیلی تو دکھا چکے تھے اب دیکھنا چاہتے تھے چنگاری الاؤ بن رہی ہے کہ نہیں، جاوید اپنا جسم ٹوٹتا ہوا محسوس کر رہا تھا،اسے جمائیاں آ رہی تھیں، بے چینی اور ہیجان کی سی کیفیت تھی، دونوں کو دیکھتے ہی غصیلے لہجے میں بولا ’’کہاں مر گئے تھے‘‘ ’’جاوید بابو، جس سے خریدت ہیں وہ کہیں گیا ہوا تھا، جیسے ہی آیا ہم لیکر پہنچ گئے‘‘ وقاص نے معذرت خواہانہ لہجے میں خوب اداکاری کی، ’’میں ایک گھنٹہ سے سولی پر لٹکا ہوا ہوں، بڑی تروڑ ہو رہی تھی، لاؤ دو سگریٹ‘‘ جاوید کی بات پوری ہونے تک عمران سگریٹ سلگا چکا تھا، اس نے ایک کش لیکر اس کی طرف بڑھا دیا، جاوید جیسے جیسے کش لے رہا تھا، طبیعت معمول پر آتی جا رہی تھی، نشے نے اثر دکھایا تو ایک اور سگریٹ ان سے لیا اور مزید میٹھا زہر اپنے اندر اتارنے لگا، دونوں چلے گئے، جاوید کو اب کسی کی پرواہ نہ تھی، وہ سرور میں تھا۔ وہ تباہی کی سیڑھی چڑھ چکا تھا، واپسی کے راستے مسدود تھے، اس کے گھر والے اس ساری واردات سے لاعلم تھے، پہلے بھی اس کے دوست احباب آتے تھے لیکن انہوں نے کبھی پوچھ تاش کی نہ اس کے معاملات میں مداخلت کرتے تھے، اس کا باپ مویشی منڈی میں جانوروں کی فروخت کا کام کرتا تھا، مہینہ میں ایک دو بار وہ دوسرے شہروں میں جاتا، جانور خریدتا اور مقامی منڈی میں فروخت کر کے اچھا خاصا منافع حاصل کر لیتا تھا، ایسے معمولات میں جاوید جیسے ناپختہ ذہن کے لڑکوں کو بگڑنے اور بری عادتوں کو اپنانے کے مواقع خود بخود میسر آ جاتے ہیں، اسے ہیروئن کی لت لگ چکی تھی، نہیں جانتا تھا کہ کوئی اسے بھسم کرنے پر تلا ہوا ہے۔
٭……………٭
عمران اور وقاص اپنے مخصوص مقام محلے کے پارک کے ویران گوشے میں موجود تھے، دونوں کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی، ’’کام شروع ہو گیا، بابو‘‘ عمران نے کہا۔
’’بچہ اب تڑپے گا، اسے رات بہت طلب ہو رہی تھی‘‘ وقاص بولا۔
’’ہم نے اپنا مشن مکمل کر دیا سرجی‘‘! عمران نے لقمہ دیا، ’’شاباش، اس کے ساتھ نتھی رہو، اسے دو چار اور پلاؤ، پاؤڈر خریدنے کیلئے یہ 500 اور رکھو‘‘ اندھیرے میں موجود شخص نے ایک اور نوٹ ان کی طرف بڑھایا، وقاص نے جلدی سے جھپٹ لیا، ’’میں تب چین سے بیٹھوں گا جب اسے شیرے کے ڈیرے پر پاؤڈر خریدنے جاتا اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا‘‘ اس شخص کا لہجہ حددرجے زہریلا تھا۔
٭……………٭
شام ڈھل چکی تھی، لوگوں نے بھی بازاروں کا رخ کر لیا، عابد علی، صفدر اور ملازمین گاہکوں کو ان کی پسند کا کپڑا دکھا رہے تھے کہ اچانک عابد علی کے چہرے پر شدید گھبراہٹ کے آثار پیدا ہوئے، انہوں نے دل پر ہاتھ رکھا اور جھکتے چلے گئے، یہ دیکھ کر سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، انہوں نے عابد علی کو پانی پلانے کی کوشش کی تو ان کے جبڑے تکلیف کی شدت سے بھینچے ہوئے تھے پیشانی سے پاؤںتک سارا جسم پسینے سے شرابور تھا، عابد علی کی حالت دیکھتے ہوئے ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر صفدر نے ساتھی دکاندار اور ایک ملازم کو ساتھ لیا، عابد علی کو کار کی پچھلی نشست پر لٹایا اور جتنی جلدی ممکن ہو سکتا تھا قریب ترین ہسپتال پہنچ گئے، انہیں فوراً ایمرجنسی میں لے جایا گیا، ڈاکٹر ان کی حالت دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ دل کا شدید دورہ پڑا ہے، مختلف انجکشن دینے کے ساتھ ساتھ ایک نرس مسلسل ہارٹ پمپنگ کر رہی تھی، بات نہ بنتے دیکھ کر انہیں الیکٹرک شاک دئیے گئے، سب بے سود، فرشتہ اجل اپنا فرض پورا کر کے جا چکا تھا، دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا تھا۔
٭……………٭
جاوید کا جسم بری طرح ٹوٹ رہا تھا، کبھی وہ خود کو بری طرح کھجانے لگتا اور کبھی سر کو دائیں اور بائیں بری طرح جھٹکتا، وہ انتہائی بے بسی کی کیفیت میں تھا، اس کے یاروں عمران اور وقاص کا دور دور تک پتا نہ تھا، اس نے اپنا موبائل فون اٹھایا، پھر کانپتے ہاتھوں سے صوفے پر پھینک دیا، اسی اثناء میں بیٹھک کے دروازے پر دستک ہوئی، وہ لڑکھڑاتا ہوا گیا دروازہ کھولا بار عمران اور وقاص موجود تھے، ’’ابے کمینو! کہاں مر گئے تھے‘‘ ’’جلدی آؤ، جلدی کرو سگریٹ دو، عمران کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ تھی، اس نے سگریٹ لگا کر جاوید کو تھما دیا، اس نے سگریٹ یوں تھاما جیسے کوئی چھین ہی نہ لے، جلدی جلدی دو تین گہرے کش لینے کے بعد اسے قدرے سکون ملا، بای کے بھی دو، دونوں نے اسے 5 سگریٹ اور دے دئیے، وقاص بولا۔
’’جاوید بابو، آج رقم ختم‘‘۔
’’ایک ہزار میں 5 سگریٹ‘‘ جاوید نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔
’’بابو جاوید، کیمیکل ملا نہیں ہے اصل مال ہے اصل، دل چاہے تو خود جا کر شیرے کے ڈیرے سے لے آیا کرو‘‘ عمران نے کہا، دونوں جو چاہتے تھے ہو چکا تھا، اب جاوید سے جان چھڑانے کے چکر میں تھے‘ ’’میں لے آیا کروں گا‘ جیسے ہی نشہ ٹوٹتا ہے مجھے طلب ہوتی ہے، تم کبھی روز آ جاتے ہو اور کبھی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہو‘ مجھے شیرے کا ڈیرہ دکھا دو‘‘ جاوید خود ان سے جان چھڑانے کا سوچ رہا تھا، ٹھکانہ دیکھ لے گا تو خود ہی جب طلب ہو گی اور حسب ضرورت لے آیا کرے گا، دونوں نے اگلے روز اسے شیرے کا ڈیرہ دکھا دیا۔
’’پولیس کے چھاپے واپے کا خطرہ تو نہیں‘‘ جاوید اپنا خوف دور کرنا چاہ رہا تھا۔
’’کمال کرتے ہو بابو، باقاعدہ حصہ جاتا ہے وہاں، شیرے کے اوپر تک تعلقات ہیں۔ ایسے ہی بھرے پرے علاقے میں دھندا نہیں کر رہا، پکڑنے والے نوٹ پکڑتے ہیں اسے نہیں‘‘ وقاص نے اس کا خوف دور کیا اور پھر واقعی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح ایسے غائب ہوئے کہ جاوید کو کبھی نظر ہی نہ آئے۔
٭……………٭
اس کی شیو بے تحاشہ بڑھ چکی تھی، نہانا، دھونا، کپڑے پہننا، گھر والوں سے مل جل کر باتیں کرنا، کہیں آنا جانا، سب ختم ہو چکا تھا، وہ اپنی ہی دنیا میں مست رہتا تھا، صحت بھی روز بروز گر رہی تھی، رنگت اُڑی اُڑی سی رہتی تھی، اکثر اوقات وہ ہر چیز سے بیزار نظر آتا تھا، البتہ کبھی کبھار ہشاش بشاش بھی دکھائی دیتا تھا، اس کی ماں اور بہن نے اس کی ان کیفیات کو بڑی شدت سے محسوس کیا تھا تاہم انہوں نے جاوید کے بارے میں اس کے والد سے کسی بات کا ذکر نہ کیا، اس کے والد کو صورتحال کا ادراک تب ہوا جب پانی پلوں سے گزر چکا تھا، جاوید نے روزانہ کا خرچ 200 روپے مانگنا شروع کر دیا، چند روز بعد دمطالبہ 5 سو روپے تک پہنچ گیا۔ گھر والوں نے اس کا خرچہ بند کر دیا، جاوید نے گھر میں فساد شروع کر دیا، لڑنا جھگڑنا، گھر والوں کو کاٹ کھانے کو دوڑنا اس کا معمول بن گیا، تب گھر والوں کوپختہ یقین ہو گیا کہ وہ نشہ کرتا ہے، جب یہ بات کھلی کہ وہ ہیروئن پیتا ہے، سبھی اپنا سر تھام کر بیٹھ گئے، اکلوتے بیٹے کی حالت نے ان کے اوسان خطا کر دئیے، جب بھی اسے ہیروئن نہ ملتی تڑپتا اور اپنے جسم کو کاٹنے لگتا، رفیق احمد نے گھر والوں کو سختی سے منع کر دیا کہ اسے ایک پیسہ بھی نہ دیا جائے مرتا ہے تو مرے، منتوں، مرادوں سے یہ پیدا ہوا تھا، اس نے یہ دن بھی دکھانے تھے‘‘ رفیق احمد غصے میں بھرے پاؤں پٹختے گھر سے نکل گئے۔
٭……………٭
دو روز بعد پورے گھر میں اس وقت صف ماتم بچھ گئی جب یہ اطلاع پہنچی کہ رفیق احمد جس ٹرک میں جانور خرید کر لا رہے تھے اس کی ٹکر ایک بس سے ہو گئی، مرنے والے کئی افراد میںرفیق احمد بھی شامل تھا، اس المیہ کابھی جاوید پر کوئی اثر نہ ہوا، اہل علاقہ اور رشتہ دار کفن دفن کا بندوبست کر رہے تھے۔ بیوی اور بیٹی دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں، جاوید نشے کی تروڑ میں تھا اور ہیروئن لینے کے لئے گھر سے نکلا ہوا تھا، میت کو نہلانے کے بعد کفن میں لپیٹ دیا گیا، سبھی انتظار میں تھے کہ وہ آئے اور باپ کے جنازے کو کندھا دے، مگر وہ تو خود گلی محلوں میں کوئی سہارا ڈھونڈ رہا تھا جو اسے پیسے دے دے اوروہ اپنا نشہ پورا کر سکے۔ بالآخر طویل انتظار کے بعد رفیق احمد کو سفر آخرت پر روانہ کر دیا گیا، بدبخت آخری بار بھی باپ کا چہرہ نہ دیکھ پایا، جس نے 20 سال اسے پالا پوسہ تھا وہ دوسروں کے کندھوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلا گیا۔
٭……………٭
رات گئے وہ نشے میں دھت، ہوش سے بیگانہ گھر پہنچا تو ماں اور بہن چند رشتہ دار دری بچھانے، آنسو بہانے کے ساتھ پڑھائی میں مصروف تھے، ماں اسے دیکھتے ہی تڑپ کر اٹھی اور گریبان پکڑ کر تھپڑوں کی بارش کر دی ’’چلا گیا تیرا باپ ہمیشہ کیلئے ہمیں تنہا چھوڑ کر، کس کے سہارے جئیں گے‘ ہم تو جیتے جی مر گئے، بولتا نہیں بدبخت چپ کیوں ہے‘‘ ماں اسے جھنجھوڑ رہی تھی۔
’’چلا گیا، مگر کیوں گیا، کہاں گیا، میں نے تو انہیں کچھ نہیں کہا، آ جائے گا، صبح آ جائے گا‘‘ وہ نشے میں اول فول بک رہا تھا، کوئی اسے نفرت کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا، کوئی اس پر ترس کھا رہا تھا، بہن خاموش بیٹھی آنسو بہائے جا رہی تھی، لیکن وہ یوں کھڑا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، پھر لڑکھڑاتا ہوا بیٹھک میں اپنے بیڈ پر جا گرا اور ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا، اس کے خراٹے ماں اور بہن کے سینوں میں زہریلے تیروں کی طرح پیوست ہو رہے تھے۔
٭……………٭
جو خود سے بیگانہ ہو اسے گھر میں سوگ یا افسوس سے کیا لینا دینا، باپ کو مرے ایک دن ہی ہوا تھا، اس نے ماں اور بہن کا روپوں کے لئے جینا حرام کر دیا، اس کی بگڑتی حالت دیکھ کر ماں کو ترس آ گیا اور اسے پیسے دے دئیے، یہ معمول بن گیا، جمع پونجی دھیرے دھیرے ہیروئن کی نذر ہونے لگی، رشتہ دار اور چند اہل محلہ نے اسے انسداد منشیات سنٹر میں داخل کرانے کا مشورہ دیا، اسے پتہ چلا تو کسی اڑیل گھوڑے کی طرح بدک اٹھا اور گھر میں ہنگامہ کھڑا کر دیا، دھیرے دھیرے زیور بکنا شروع ہو گیا، ماں اور بہن کے کان اور بازو زیور سے خالی ہو گئے، گھر والوں کو راشن پانی کی فکر نے دہلا کر رکھ دیا، جوان بیٹے کے دکھ نے الگ سے پریشان کر رکھا تھا، کب تک، بالآخر گھر سے بھی پیسے ملنابند ہو گئے، ماں کو برا بھلا کہتا، بہن سے مار پیٹ کرتا، آخر ایک دن وہ گھر سے نکل گیا، اور کئی روز نہ آیا، کسی نے اسے یاروں دوستوں سے بھکاریوں کی طرح پیسے مانگتے دیکھا تو اس کی ماں کو بتا دیا، بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر ماں کا دل ڈوبنے لگا، لیکن کوئی راستہ نہ سجھائی دے رہا تھا، بالآخر ایک سیانے نے مشورہ دیا کہ چند رشتہ داروں کو بلا کر اسے زبردستی انسداد منشیات سنٹر داخل کرا دیا جائے۔
٭……………٭
اب وہ تھا، اس ک نشئی دوست تھے اور ہیروئن کا زہر، اس کی قابل رشک صحت قابل رحم ہو چکی تھی، وہ اپنی رگوں میں ناسور اتارتا، غلیظ موت کی راہ پر گامزن تھا۔ جاوید کے دوست احباب اور رشتہ دار اسے دیکھتے ہی منہ پھیر لیتے وہ جان چکے تھے کہ سلام دعا کے بعد جاوید کسی فرضی ایمرجنسی کے بہانے رقم ادھار مانگے گا۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ اس کی حالت بدتر ہوتی جا رہی تھی، جب ہیروئن خریدنے کیلئے کہیں سے بھی پیسوں کا بندوبست نہ ہوتا تو نشئی دوستوں سے مل کر چھوٹی موٹی چوری چکاری کی وارداتوں کو معمول بنا لیا۔ بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی، ایک دن شہر کے نسبتاً سنسان علاقے میں پانی کا پمپ کھولتے پکڑے گئے، خوب درگت بنی، چوکیدار اور گلی والوں نے پٹائی میں بالکل بھی کنجوسی کا مظاہرہ نہ کیا، اس سے پہلے کہ پولیس کے حوالے کیا جاتا جاوید اور اس کا ساتھی مار کھاتے کھاتے تاریکی میں فرار ہو گئے۔
٭……………٭
ایک دن وہ حواس میں تھا، ماں اور بہن کی یاد آئی تو گھر کا رخ کر لیا۔ گلی کی نکڑ پر پہنچا تو وہاں ایک تھڑے پر صفدر بیٹھا تھا، وہ صفدر کے پاس چلا آیا۔
’’کیسے ہو صفدر بھائی؟‘‘ اس نے شرمسار لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہوں، تم سناؤ‘‘ صفدر نے کہا۔
’’وہ آپ سے درخواست تھی‘‘
’’ہاں بتاؤ کیا بات ہے‘‘
’’وہ دراصل دوا لینی تھی لیکن پیسے نہیں ہیں‘‘
’’چلو میں دلوا دیتا ہوں‘‘
’’نہیں… نہیں آپ تکلیف نہ کرو، پیسے دے دو، میں لے لوں گا‘‘
صفدر نے جیب سے 500 روپے نکال کر اس کی طرف بڑھائے، وہ ندیدوں کی طرح نوٹ پر جھپٹا۔
’’سنو‘‘
’’جی بھائی صفدر‘‘
’’جب بھی دوا وغیرہ لینی ہو مجھ سے پیسے لے لیا کرو‘‘
’’شکریہ، شکریہ صفدر بھائی‘‘
’’کوئی بات نہیں، جب ضرورت ہو آ جایا کرو‘‘ صفدر نے کھلی پیشکش کر دی تھی۔
جاوید کو پیسے ملے تو اس نے گھر جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور شیرے کے ڈیرے کی طرف چل پڑا، اس کے دو دن کے نشہ پانی کا اہتمام صفدر نے کر دیا تھا۔ دو دن بعد جاوید پھر صفدر کے دروازے پر تھا، صفدر نے اس بار بھی اسے مایوس نہ کیا اور 500 کا نوٹ اسے تھما دیا۔ جاوید کو لسی والا گھر مل گیا، ہر دوسرے تیسرے دن وہ صفدر کے دروازے پر ہوتا تھا، صفدر بھی حاتم طائی بنا ہوا تھا۔
٭……………٭
رات کے 8 بجے تھے، سردیوں کے دن تھے، صفدر دکان بند کر کے گھر لوٹا ہی تھا کہ دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی، دروازہ کھولا تو جاوید کھڑا تھا۔
’’اندر آ جاؤ‘‘
’’آپ کو زحمت ہو گی، بس کچھ پیسے مل جات تو…‘‘
’’کہا نہ اندر آ جاؤ‘‘ صفدر نے اسے گھورتے ہوئے کہا ’’پیسے بھی مل جائیں گے‘‘
وہ اندر آ گیا، صفدر نے اسے بیٹھک میں بٹھایا، اور بازار سے جو کھانا اپنے لئے لایا اس کے سامنے رکھ دیا، ’’کھانا کھا لو، پھر بات کرتے ہیں، جاوید صدیوں سے بھوکے شخص کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑا، سب صفا چٹ کر کے قمیض سے ہی ہاتھ صاف کر لئے۔
’’سنو جاوید، صفدر نے اسے مخاطب کیا ’’میں کئی ماہ س مسلسل تمہیں پیسے دے رہا ہوں، ہر بار تم نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنایا، لیکن میں جان چکا ہوں تم، ہیروئن کا زہر اپنے اندر اتار رہے ہو، میں تمہیں آئندہ بھی پیسے دیتا رہوں گا، تم اپنا نشہ پانی کرتے رہنا، لیکن ایک کام میرا بھی کرنا ہو گا‘‘
’’آپ حکم کرو صفدر بھائی‘‘
’’سوچ لو!‘‘
’’سوچنے والی کیا بات ہے؟‘‘
’’میری شرط منظور ہو تو ٹھیک ورنہ چپکے سے نکل جانا اور پھر ادھر کا رخ نہ کرنا‘‘
’’جاوید شش و پنج میں پڑ گیا کہ نہ جانے کیسی شرط ہو گی، صفدر جس طرح اسے باقاعدگی سے رقم دے رہا تھا، اس کے تو وارے نیارے ہو گئے، یہ گھر وہ کسی صورت بھی گنوانا نہیں چاہتا تھا۔
اسے شش و پنج میں دیکھ کر صفدر بولا ’’ تو پھر کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’جی جی آپ حکم کرو‘‘ جاوید جلدی سے بولا۔
’’صفدر آہستہ آہستہ اسے کچھ کہنے لگا، جاوید بھڑک اٹھا ’’تم… میں بے غیرت نہیں ہوں، نشہ کرتا ہوں لیکن…‘‘
ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، صفدر نے اسے ٹوکا، ’’میں تمہیں مجبور تو نہیں کر رہا، ہاں! یہ بات ذہن میں بٹھا لو اب میرے دروازے کا رخ نہ کرنا‘‘۔
جج، جی، ٹھیک ہے! بالآخر وہ مان گیا، صفدر دوسرے کمرے میں گیا ایک جرسی اٹھا لایا… ’’لو یہ پہن لو، باہر سردی بہت ہے‘‘ ساتھ ہی ہزار کا ایک نوٹ بھی اس کے ہاتھ پر رکھ دیا، خوشی سے جاوید کی باچھیں کھل گئیں۔
٭……………٭
سرشام ہی سردی بہت بڑھ گئی تھی، آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، اس وجہ سے تاریکی نے وقت سے کچھ پہلے اپنا راج قائم کر لیا تھا۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گلیوں میں اندھیرا تھا، صرف ان گھروں میں روشنی نظر آ رہی تھی جہاں یوپی ایس نصب تھے، الیکٹرانکس لائٹس آن تھیں یا پھر کہیں کہیں جنریٹر چلنے کی بعدی آوازیں ماحول کا سکوت غارت کررہی تھیں، صفدر آج وقت سے گھنٹہ پہلے ہی دکان بند کر کے گھر آ کر رضائی لپیٹ کر لیٹ گیا، یو پی ایس چل رہا تھا، اس نے صحن کی لائٹ آن کر رکھی تھی، کمرے میں زیرو واٹ کا بلب جل رہا تھا، اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ جاوید ایک لڑکی کے ہمراہ کھڑا تھا، لڑکی نے خود کو گرم چادر سے ڈھانپ رکھا تھا، وہ فوراً دونوں کو اپنے بیڈ روم میں لے گیا، جاوید چند لمحوں بعد ہی چلا گیا، صفدر باہر کا دروازہ بند کر کے کمرے میں آیا تو ہکا بکا رہ گیا۔
’’راحیلہ ابھی تک کھڑی تھی اور اس نے چادر اتار پھینکی تھی۔سفاک نظروں سے صفدر کو گھور رہی تھی۔
’’آؤ، آؤ کھڑے کیوں ہو‘‘ وہ زہریلے لہجے میں بولی۔
’’بدکردار، حرص و ہوس کے غلام، آگے بڑھو، اپنے عشق ناتمام کو تمام کر لو، اپنے اندر کے درندے کی ہوس مٹا لو‘‘ اس کے ہونٹ اور آنکھیں شعلے اُگل رہی تھیں، صفدر پتھر کا بنا اسے گھورے جا رہا تھا، وہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح دھاڑی ’’اس بے بس جسم کو روندتے کیوں نہیں؟ میرا منہ کیا تک رہے ہو، اتنے عرصہ خیالوں میں پامال کرتے رہے ہو گے۔ اب زندہ سلامت سامنے کھڑی ہوں تو قدم کیوں نہیں اٹھ رہے، جن بہنوں کے بھائی نشے کی لت میں رشتوں کا تقدس بھول جائیں ان کی بہنوں کے نصیب میں میری طرح ہی لٹنا، بکنا اور بے بسی کی زندگی گزارنا ہوتا ہے‘‘ صفدر کچھ نہ بولا۔ جب وہ دل کی بھڑاس نکال چکی تو آگے بڑھا اور چادر اٹھا کر اسے تھماتے ہوئے بولا ’’لو پہلے اسے اوڑھ لو، پھر میری بات بھی سن لینا‘‘۔
’’چادر کیا اوڑھ لوں؟ بڑی تمنا تھی نا تمہیں مجھے زیر کرنے کی، تو کر لو‘‘
’’بند کرو اپنا یہ لیکچر، صفدر کو بھی غصہ آ گیا، سخت لہجے میں بولا، چادر اوڑھ کر آرام سے بیٹھو، ورنہ…‘‘
’’ورنہ کیا…؟‘‘
’’ورنہ یہ… اس نے اس کے سرخ گلابی گالوں پر ہلکے ہاتھ کا تھپڑ جڑ دیا۔ اس کے روئیے نے راحیلہ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ہی سلب کر لیں، صفدر نے آگے بڑھ کر گرم چادر اس کے سر پر ڈالی، شانوں سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھا دیا، اسے پینے کو پانی دیا، جب اس کے حواس بحال ہوئے تو صفدر نے کہنا شروع کیا ’’راحیلہ میں نے تمہیں چند باتیں کرنے کیلئے بلایا تھا، لیکن تم نے اس بلاوے کا غلط مطلب نکال لیا‘‘۔ہ
’’کیا بلانے کایہ شریفانہ طریقہ ہے‘‘ صفدر کے رویہ سے اس کا خوف دور ہو رہا تھا۔
’’یہاں نہ بلاتا، اور اس وقت نہ بلاتا تو کیسے تم سے بات کرتا، گھر میں تمہاری والدہ مجھے تم سے ملنے دیتیں، یا باہر کہیں ہم مل سکتے تھے، میں نے یہی بہتر جانا کہ تمہیں گھر بلا کر بات کروں، صفدر انتہائی شائستگی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
’’ایم سوری،تمہیں برا بھلا کہا، بتاؤ کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ راحیلہ کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔
’’میری بات غور سے سننا اور ہوش و حواس کے ساتھ سمجھنا، میں تب بھی تمہیں دل سے چاہتا تھا جب تمہارا تھپڑ مجھے تحفے میں ملا تھا اور تمہارے مرحوم ابا اور بھائی مجھے مارنے آئے تھے اور اب بھی تمہیں چاہتا ہوں، ہاں! مجھے تمہارے ابا کے انتقال پر بہت افسوس ہوا، میں جنازے میں بھی شریک ہوا، پھر مجھے تمہارے بھائی کے نشے کی لت میں پڑنے کا معلوم ہوا، تمہارے گھرانے پر جو گزر رہی ہے، مجھے اس کا احساس بھی ہے اور ادراک بھی، میری بات کو ان معنوں میں نہ لینا کہ میں تم پر یا تمہارے گھر والوں پر ترس کھا رہا ہوں، یا کوئی احسان کرنے جا رہا ہوں، تھوڑی دیر سانس لینے کے بعد صفدر نے حواس مجتمع کئے اور اصل بات کی طرف آتے ہوئے بولا ’’راحیلہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں، میرا بھی آگے پیچھے کوئی نہیں سوائے ایک بہن کے، جب کہو گی تمہارے گھر بھیج دوں گا‘‘ راحیلہ نے نظریں اٹھا کر صفدر کو دیکھا، اور آج پہلی بار غور سے دیکھا، نین نقش خوبصورت تھے، قد مناسب تھا، سلیقہ سے گفتگو کرنا جانتا تھا، ’’مجھے کچھ وقت دو سوچن اور والدہ سے بات کرنے کیلئے‘‘ راحیلہ اب مکمل شانت ہو چکی تھی۔
’کوئی جبر یا زورزبردستی نہیں، اگر تمہارا دل مجھے قبول کرے اور تمہاری ماں بھی راضی ہو تو مجھے بتا دینا، میری بہن تمہاری والدہ سے بات کرنے آ جائے گی، دو، چار، چھ دن تم اچھی طرح سوچ بچار کر لو‘‘ صفدر نے یہ کہتے ہوئے گھڑی دیکھی اور بولا اس سے پہلے کہ بجلی آ جائے اور گلیاں روشن ہو جائیں، میں تمہیں گھر چھوڑ آتا ہوں، جاوید ناجانے کہاں ہو گا، یہ میرا موبائل نمبر لے لو، اس نے ایک چٹ پر نمبر لکھ دیا، راحیلہ نے چٹ لے لی، صفدر نے گلی میں جھانکا، سنسان پڑی تھی، ایک لوڈشیڈنگ اوپر سے سردی،کون ایسے میں مٹرگشت کرتا ہے، صفدر اسے انتہائی احترام کے ساتھ اپنے بائیک پر چند لمحوں میں اس کے گھر اتار کر آ گیا، بستر پر لیٹتے وقت اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، اس نے جو پتہ پھینکا تھا، یقین تھا کہ اسے جیت لے گا، اس نے دوبرس سے زائد صبر اور جبر کے جوگھونٹ پیے تھے، اب اس کا صلہ زیادہ دور نہیں تھا، اس کی لچھ دار باتیں ایک بے بس گھرانے کو لبھانے کیلئے کافی تھیں، وہ جانتا تھا سب بات کھوٹی، پہلے دال روٹی۔
٭……………٭
راحیلہ کے گھر پہنچتے ہی ماں نے اسے رحم طلب نظروں سے دیکھا، پھر گم سم سی کمرے کی چھت کو گھورنے لگ گئی، آج گھر میں نقب لگ گئی تھی، کل کیا ہو گا؟ ابھی وہ انہی خیالات میں غلطاں تھی کہ جاوید بھی سردی میں ٹھٹھرتا گھر داخل ہوا، اسے دیکھتے ہی ماں کی آنکھیں لال انگارہ ہو گئیں، آؤ دیکھا نہ تاؤ جوتا اتار لیا، جاوید کو کالر سے پکڑ کر اوپر تلے اس کی ٹھکائی شروع کر دی، نشہ ہرن ہونا شروع ہوا تو جوتے کھاتا دیوار سے جا لگا۔
’’ہوا کیا ہے ماں؟‘‘
’’ماں! کون ماں؟ کیسی ماں! جورشتوں کے تقدس کو بھول جائے، بہن کی عزت کا سودا کر آئے، ایسے بیٹے سے بہتر تھا کہ ہیجڑا پیدا ہو جاتا‘‘۔
’’جا بہن کو بیچ چوراہے بیچ دے، ایک ہی دفعہ اس کے روپے کھا لے، رنڈی بنا دے اسے، کسی کوٹھے پر بٹھا دے، طوائف بنا دے، بے غیرت، کمینے، اب ماں بہن کو بیچے گا اپنے نشے کیلئے، نکل جا اس گھر سے، مر گیا تو میرے لئے، نہ تو میرا بیٹا، نہ میں تیری ماں۔ جہاں سہاگ نہیں رہا، وہاں تو بھی نہیں رہے گا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا‘‘۔ زہرآلود لہجے ک ساتھ ماں نے ایک پائپ اٹھا لیا اور اس کی طرف بڑھی، جاوید کچن کی طرف لپکا اور آن ہی آن میں چھری اٹھا لایا۔
مار دوں گا اس کمینے صفدر کو، نہیں چھوڑوں گا، وہ بیرونی دروازے کی طرف لپکا، راحیلہ نے اس کی قمیض پکڑ کر کھینچی، چھوڑ دے تو مجھے، یہ نہ ہو اس سے پہلے تیرا قصہ پاک کر دوں، وہ غصہ میں بپھرا پھر باہر کی طرف لپکا، راحیلہ نے زور کا جھٹکا دیا اور پھنکاری ’’کچھ نہیں ہوا، صفدر نے مجھے کچھ نہیں کہا، جاوید نے قہر آلود نظروں سے اسے دیکھا، پھینک دے چھری اور جا کمرے میں چلا جا، راحیلہ کے کہنے پر اس نے چھری وہیں پھینکی اور بیٹھک میں چلا گیا۔
’’کیا تو سچ کہہ رہی ہے بیٹی‘‘
’’ہاں ماں، ایسا کچھ نہیں جیسا آپ سوچ رہی ہیں، اس نے مجھے عزت بھی دی اور ایک آفر بھی‘‘۔
’’کیا کہا اس نے‘‘
’’ماں وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے، سب کچھ جانتے ہوئے بھی‘‘
’’ایک نشئی کی بہن کو کون اپنے گھر لے جائے گا‘‘ ماں بولی۔
’’لیکن ماں وہ تیار ہے، اس نے کہا کہ دو چار دن میں سوچ کر فیصلہ سے آگاہ کر دوں‘‘
’’تو ٹھیک ہے، اگر اس کی نیت صاف ہے تو میری چند باتیں دھیان سے سن‘‘ ماں نے کہا پھر ماں بیٹی دوسرے کمرے میں چلی گئیں، ماں اسے کچھ سمجھانے لگی، وہ اقرار میں سر ہلاتی رہی، بات اس کی سمجھ میں آ رہی تھی، ماں بیٹی میں سمجھوتہ ہو گیا تو دونوں مطمئن ہو گئیں۔
٭……………٭
راحیلہ نے تیسرے دن صفدر کو فون کیا۔
’’زہے نصیب… کیسی ہیں آپ‘‘ وہ محبت سے بولا۔
’’ٹھیک ہوں اور مجھے تمہاری پیشکش قبول ہے لیکن…‘‘ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’لیکن کیا… صفدر کا دل دھڑکا۔
’’میری کچھ شرائط ہیں، یا تم اسے میری خواہشات سمجھ لو‘‘
’’ہاں‘ ہاں‘ بتاؤ‘‘
’’پہلی بات تو یہ کہ تم میرے بھائی کا علاج کراؤ گے‘‘
’’اوکے ،ٹھیک ہے‘‘
’’دوسری بات یہ کہ ٹھیک ہونے پر اسے کاروبار بھی کرا کے دو گے‘‘
’’مجھے یہ بھی منظور ہے‘‘
’’اور تیسری بات یہ کہ 10مرلے کا ایک پلاٹ خرید کر میرے نام کرا دو، یا جس گھر میں دلہن بن کر جاؤں گی وہ میرے نام کرا دو‘‘
’’صفدر نے اس کی یہ شرط بھی تسلیم کر لی‘‘ ’’اور کچھ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
نہیں یہی تمہارے احسانات کافی ہوں گے‘‘ راحیلہ نے جواباً کہا، پھر بولی ’’ہاں میں شادی تب کریں گے جب جاوید اس گندگی سے نکل کر صاف ستھری زندگی کی طرف لوٹ آئے گا‘‘۔
’’بے فکر رہو اور ماں جی کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ نکاح سادگی سے ہو گا۔ جہیز وغیرہ یا کسی سج دھج کی ضرورت نہیں، کچھ لوگ آپ کی طرف سے ہوں گے اور کچھ میری طرف سے، لیکن اس سے قبل آپ کی تمام خواہشات کی تکمیل ہو گی۔ صفدر نے اس کا من فرش کر دیا۔ سلام دعا کے بعد بات ختم ہو گئی، راحیلہ سوچنے لگی، ماں کتنا گھنا سایہ ہے۔ اس نے دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے جو سمجھایا تھا وہ ان کے گھر کے لئے بے حد ضروری اور صفدر کے کسی بھی ممکنہ اقدام سے تحفظ کیلئے انتہائی اہم تھا۔
٭……………٭
سمجھا کر، ڈرا کر، حیلوں، بہانوں اور چوں چالاکیوں کے بعد جاوید کو انسداد منشیات سنٹر میں داخل کرانے کا معرکہ سر کیا گیا۔ سنٹر انچارج کو کہہ دیا گیا تھا کہ باندھ کر رکھو یا کھلا چھوڑو، یہ آپ کی صوابدید پر ہے، سختی سے یا نرمی سے، جیسے چاہے پیش آئیں لیکن جاوید کا علاج ہر صورت ہونا چاہیے۔ انچارج کو سفارش ک ساتھ خاصی رقم بھی دی گئی۔ انچارج مسٹر خالد کی ہر طرح کے خیال اور علاج کی مکمل یقین دہانی کے بعد ہی جاوید کی والدہ، بہن، رشتہ داروں اور صفدر مطمئن ہوئے، پہلے پہل تو جاوید نے سنٹر میں خوب اودھم مچایا، مگر عملے کا تو کام ہی ایسے مریضوں کوتیر کی طرح سیدھا کرنا تھا، علاج شروع ہو گیا، دن بیتتے گئے، جاوید کو دھیرے دھیرے ہیروئن کی طلب کم ہوتی گئی، ڈیڑھ ماہ گزرا تو اس کے جسم سے ہیروئن کی طلب کو صفر کر دیا گیا، ڈاکٹرز نے انگلینڈ سے ایک جدید سٹرپ منگوائی تھی، پاکستانی روپوں میں وہ 50 ہزار میں پڑی، ادائیگی صفدر نے کی، بازو پر چسپاں کر دینے والی اس سٹرپ کی خوبی یہ تھی کہ جسم سے نشے کی ہر طرح کے اجزاء جذب کر لیتی تھی اور اس طلب کو سرے سے ختم کردیتی تھی مریض کو جب بھی نشے کی طلب ہوتی۔ گوروں کی یہ ایجاد کمال کی تھی، انجکشن اور دیگر میڈیسن کے استعمال اور سٹرپ کا کمال تھا کہ دو ماہ کے اندر جاوید اچھا بھلا ہو گیا لیکن ڈاکٹرز نے اسے ڈسچارج کرنے کے بجائے مزید ایک ماہ انڈر آبزرویشن رکھنے کا فیصلہ کیا، تین ماہ بعد جب وہ گھر میں اپنوں کے درمیان سر جھکائے بیٹھا تھا تو کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ وہی جاوید ہے جو ہیروئن کی طلب میں اپنا جسم بھنبھوڑا کرتا تھا، راحیلہ کی محبت میں جاوید نے پانی کی طرح پیسہ بہایا، جس بازار میں اس کی دکان تھی وہیں کرائے پر ایک بڑی دکان لیکر وہاں ڈیپارٹمنٹل سٹور بنا دیا، دو ملازم بھی رکھوا دئیے۔ اب صرف جاوید نے وہاں کا انتظام سنبھالنا تھا۔
٭……………٭
گھر میں خوشی کا سماں تھا، جاوید کے صحت یاب ہونے پر سبھی کے چہرے گلنار ہو رہے تھے۔ ایک دیگ میٹھے چاولوں کی پکا کر خیرات کی گئی، چند روز بعد جاوید نے ڈیپارٹمنٹل سٹور جانا شروع کر دیا، ماں نے شکرانے کے نوافل ادا کئے، راحیلہ سوتے جاگتے صفدر کے سپنے دیکھنے لگی، زندگی معمول پر آ گئی تھی۔
٭……………٭
اجڑا گھر شادآباد ہو گیا تو صفدر نے شہر سے بہن اور بہنوئی کو بلا کر دل کی مراد بتائی اور جاوید کے گھر بھیج دیا، صفدر ان کی امیدوں پر پورا اترا تھا، بلکہ ان کا اجڑا گھر بسانے میں سب سے اہم کردار اسی نے ادا کیا تھا۔
’’ست بسم اﷲ، جی آیاں نوں‘‘ ماں نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ چائے پانی کا دور چلا تھا، خاطر تواضع کے بعد صفدر کی بہن رخشندہ نے کہا ’’ماں جی ہم آپ کے پاس سے کچھ مانگنے آئے ہیں، دل چاہے تو جھولی میں ڈال دیں نہ چاہیں خالی موڑ دیں‘‘ راحیلہ دروازے کی اوٹ سے اپنے دلدار کی باتیں سن رہی تھی، خودرفتگی کا عالم تھا۔
’’بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں‘‘ جاوید کی ماں بولی، صفدر کا چال چلن، برتاؤ، رنگ ڈھنگ سب کو ہی پسند ہے، محلے میں سبھی اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘‘۔
’’ اگر ایسا ہی ہے ماں جی تو راحیلہ کو ہمارے گلشن کا پھول بنا دیں‘ صفدر اکیلا ہے‘ کاروبار بھی خوب ہے‘ دونوں بہت خوش رہیں گے‘‘
راحیلہ سنتی جا رہی تھی اور اس کے محبوب کا رنگ اس کے چہرے پر دھیرے دھیرے رچ رہا تھا۔
’’مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے بیٹا‘‘ ماں بولی۔
’’رخشندہ نے مٹھائی کا ڈبہ کھولا اس کی ماں کا منہ میٹھا کرایا، راحیلہ کو بلایا گیا، سر پر ڈوپٹہ سیدھا کرتی، شرماتی ہوئی آ گئی، رخشندہ نے اس کا منہ چوما اور میٹھا بھی کرایا، 5 ہزار اس کی مٹھی میں زبردستی تھماتے ہوئے بولی ’’آج سے تو میری بھابھی بھی اور بہو بھی‘ فریقین نے من کی مراد پا لی تھی، کچھ ضروری امور ط کرنے کے بعد رخشندہ اور اس کے شوہر نے اجازت لی اور گھر پہنچ گئے، وہاں صفدر پہلے سے موجود تھا اس نے معنی خیز مسکراہٹ سے بہن اور بہنوئی کو دیکھا، ان کے پہنچنے تک وہ راحیلہ سے بات بھی کر چکا تھا۔
٭……………٭
صفدر اور راحیلہ کی شادی انتہائی سادگی سے ہوئی، راحیلہ کے آنے سے صفدر کی زندگی میں جیسے بہار آ گئی، ندی میں جاؤ اور پیاسے آ جاؤ یہ تو صفدر کی لغت میں ہی نہ تھا، بڑی سمجھداری سے مہر ے چلنے کے باعث وہ شطرنج کی یہ طویل بازی جیت چکا تھا، اکثر اس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ رہتی جسے راحیلہ کبھی سمجھ نہ پائی تھی، شادی کے تین ماہ بعد راحیلہ کو ماں بننے کی خوشخبری ملی تو وہ رب کا شکر بجا لائی، صفدر بھی اس کا پہلے سے زیادہ خیال رکھنے لگا۔
٭……………٭
رات کے 7 بجے بیرونی دروازہ کھٹکا، صفدر باہر دیکھنے گیا، راحیلہ بیٹھک میں تھی، اس نے کھڑکی کھول کر باہر جھانکا، موالی سے دو لڑکے کھڑے تھے۔
’’کیوں آئے ہو؟ جاوید ان سے مخاطب تھا۔
’’باؤ صفدرآپ نے تو من کی ساری مرادیں پا لیں، کچھ ہمارا بھی خیال کر لو‘‘ یہ عمران اور وقاص تھے۔
’’تمہیں تمہارے کام کے معاوضے سے کہیں بڑھ کر رقم دی، پھر کیوں میری عزت کا جنازہ نکالنے نازل ہو جاتے ہو‘‘ اس نے درشت لہجے میں کہا۔
ناراض کیوں ہوتے ہو صفدر بابو، اگر ہم آپ کے کہنے پر جاوید کو ہیروئن کا عادی نہ بناتے تو آج اس کی بہن آپ کے گھر نہ ہوتی‘‘ وقاص نے کہا۔
بکواس بند کرو، دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، صفدر نے اسے جھاڑا۔
’’یہ پکڑو دو ہزار اور پھوٹ لو۔ یہاں سے، آئندہ دکھائی دئیے یا کبھی میرے گھر یا راستے میں آڑے آئے یا کہیں زبان کھولی تو یہ جان لو کہ روزانہ اخبارات میں خبریں شائع ہوتی ہیں کہ ’’نشئی سردی سے ٹھٹھر کر مر گیا‘‘ ’’ویران جگہ سے نشئی کی لاش برآمد‘‘ وہ انہیں بری طرح دھکا دے رہا تھا۔
٭……………٭
ایک رات راحیلہ کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔ صفدر نے کار خرید لی تھی، اس نے فوری راحیلہ کو ہسپتال منتقل کیا، فون کر کے راحیلہ کی ماں کو بھی بلا لیا، جاوید بھی آ گیا، دو یا تین گھنٹے گزرے ہوں گے لیبر روم سے ایک ماسی ٹائپ خاتون باہر آئی، صفدر کون ہے؟ اس نے وارڈ کی گیلری میں آواز لگائی۔
’’جی میں ہوں‘‘ صفدر آگے بڑھا۔
’’مبارک ہو! اﷲ نے چاند سی بیٹی دی ہے‘‘
صفدر نے 500 نکال کر ماسی کو دئیے، چند لمحوں بعد ایک نرس بھی آ گئی۔ صفدر نے اسے بھی 5 سو روپے دئیے، اسی طرح تین ملازمین اور مبارکباد دینے آ گئے، صفدر سب کو خوش کرتا رہا، وہ خود بھی خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا، وارڈ کلرک کو بھی اس نے ایک ہزار روپے دئیے، اسے بتایا گیا کہ چند گھنٹوں بعد زچہ بچہ کو وارڈ میں شفٹ کر دیا جائے گا۔ صفدر کا دل مچل رہا تھا کہ وہ اپنی چاند سی بیٹی کو ایک نظر ہی دیکھ لے، لیکن اجازت نہ تھی۔ دو گھنٹوں بعد راحیلہ اور بچی کو خواتین کے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ صرف اس کی ماں ساتھ تھی، صفدر اور جاوید وارڈ کی گیلری میں ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔
’’اﷲ اکبر، اﷲ اکبر‘‘ فجر کی اذان ہونے لگی تو دونوں شکرانے کے نوافل کی ادائیگی کیلئے ہسپتال کی مسجد میں چلے گئے، نماز اور نوافل کی ادائیگی کے بعد کنٹین پر ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اور پھر وارڈ کی گیلری میں چلے آئے۔ بیرونی دروازے پر ایک سخت گیر خاتون تالہ لگائے، دروازے کے جھروکے سے جھانک رہی تھی، صفدر ہمت کر کے آگے بڑھا۔
’’آپا اندر جانے کا کوئی طریقہ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’تھوک سے پکوڑیاں تلو گے‘‘ آپ نے ترنت جواب دیا۔
صفدر فوری سمجھ گیا اس نے چپکے سے 500 کا نوٹ جھروکے سے آپا کو پکڑا دیا۔
’’جلدی آ جانا، ڈاکٹر صاحب چکر لگانے آئیں گے، ان کی آمد سے قبل آجانا‘‘۔
’’جی بہتر‘‘
آپا نے دروازہ کھول دیا، صفدر چپکے سے وارڈ میں داخل ہو گیا، سائیڈ کی گیلری میں چلتا ہوا وارڈ کے دروازے تک پہنچا، جھکتے جھکتے اندر داخل ہوا، دروازے کے ساتھ ہی چوتھے بیڈ پر راحیلہ نومولود کو سینے سے چمٹائے لیٹی تھی، چہرے پر زردی تھی، آنکھ بند تھی۔
’’اماں سب ٹھیک ہے‘‘ صفدر نے ساس سے پوچھا۔
’’ہاں بیٹا، اﷲ کا بڑا کرم ہے‘‘ راحیلہ، راحیلہ‘‘ ماں نے اسے آہستہ سے پکارا، راحیلہ نے آنکھیں کھولیں، سامنے صفدر تھا، وہ آگے بڑھا،راحیلہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھا، پھر اپنے چاند کے ٹکڑے کی پیشانی پر کئی بوسے دئیے، بیٹی کے نین نقش بالکل ماں پر تھے، وہی گلابی گال، پتلے پتلے ہونٹ، ستواں ناک،سحرزدہ سی کر دینے والی آنکھیں، صفدر اسے تکے جا رہا تھا۔
’’بس کرو، نظر لگ جائے گی، راحیلہ نے دھیرے سے کہا۔
’’ایں… صفدرچونکا، اس نے اردگرد دیکھا، وارڈ میں متعدد بیڈ تھے جن پر خواتین نوزائیدہ بچوں کے ہمراہ لیٹی تھیں۔
’’میں چلتا ہوں، جاوید میرے ساتھ ہی ہے، کوئی مسئلہ ہو تو فون کر لینا‘‘
صفدر یہ کہہ کر وارڈ سے دوبارہ گیلری میں آ گیا۔
راحیلہ چاند سی گڑیا کے ہمراہ ہسپتال سے گھر آ گئی تو جیسے میلہ لگ گیا ہو، کبھی ایک ہمسائی مبارک باد ینے آ رہی تھی تو کبھی دوسری، صفدر نے مٹھائی کا ٹوکرا ہی منگوا لیا تھا، خوشی سے اس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے، اس نے مٹھائی کے کئی ڈبے بازار بھی بھجوائے تاکہ اس کے ہمسائے دکاندار بھی منہ میٹھا کر لیں، دو چار دن خوب ہلا گلا رہا، صفدر کی بہن بھی آ گئی تھی، رخشندہ اورراحیلہ کی ماں تب تک وہاں رہیں جب تک راحیلہ خود اٹھنے بیٹھنے اورہلکا پھلکا کام کرنے کے قابل نہ ہو گئی۔ اس کے بعد صفدر نے ماسی ہی کے ذریعے ایک ایسی خاتون کا انتظام کر لیا تھا جو راحیلہ کی دیکھ بھال کر سکے اور دائی کے فرائض بھی انجام دے سکے، رفتہ رفتہ خوشیوں سے بھرے دن گزرنے گئے، صفدر بیوی اور بیٹی کا ہر طرح سے خیال رکھتا، راحیلہ کی والدہ بھی دو چار دن بعد چکر لگا لیتی تھی، بچی کا نام انہوںنے جمیلہ رکھا، وہ تھی بھی حسین و جمیل، نام اس پر خوب جچتا تھا۔
٭……………٭
جمیلہ 6ماہ کی ہو گئی تھی، ایک شام جب گھر میں صرف وہی تینوں افراد تھے تو راحیلہ نے صفدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنا ہے‘‘۔
’’ہاں کہو‘‘ صفدر جو جمیلہ کو گود میں لئے بیٹھا تھا متوجہ ہو گیا۔
’’محبت کی جو کھوکھلی یادگار تم نے تعمیر کی ہے میں اسے مسمار کرنا چاہتی ہوں‘‘ راحیلہ کا لہجہ انتہائی سنجیدہ تھا۔
’’میں سمجھا نہیں؟‘‘ صفدر سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔
’’تمہاری ساری منہ دیکھے کی محبت، چاہ، الفت، پریت، سب دھوکا تھا‘‘ راحیلہ نے دوسرا تیر چلایا۔
’’کیا کہہ رہی ہو تم‘‘ صفدر دیدے پھاڑے ہکا بکا اسے دیکھ رہا تھا۔
’’مجھے طلاق چاہیے‘‘ راحیلہ نے اچانک دھماکا کیا۔
’’کک کیا؟ صفدر کے اوسان خطا ہو گء، اس کے قدموں تلے زمین نکل گئی،سخت گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں بولا’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘
’’جو تم سن رہے ہو‘‘ راحیلہ آپ سے تم پر آ گئی تھی۔
’’صفدر کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ ’’غضب خدا کا‘‘ اتنی بڑی بات تم نے اتنی آسانی سے یوں کہہ دی جیسے طلاق نہیں کھلونا مانگ رہی ہو‘‘۔
’’تم نے میرے گھر، میرے بھائی، مجھے کھلونا ہی تو سمجھا، ہم سے یوں کھیلے کہ کوئی کمینہ بھی ایسا کھیل نہ کھیلتا ہو جس کی رگ رگ میں کمینگی کوٹ کوٹ کر بھری ہو‘‘
راحیلہ کی آنکھیں نم آلود ہو گئیں، ’’تم تو آدمیت سے بھی گزر گئے ہو‘‘
’’بس طلاق یا پھر خلع‘‘ یہ میرا آخری فیصلہ ہے‘‘ راحیلہ نے آنسو پونچھتے ہوئے حتمی لہجے میں کہا۔
’’مجھے کچھ بتاؤ گی بھی یا باتوں سے میرا سینہ چھلنی کرتی رہو گی‘‘۔
’’گزری سردیوں کی شام، اورموالی قسم کے نوجوان کون تھے جو تم سے ملنے آئے تھے‘‘ راحیلہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’کون نوجوان‘‘ صفدر بوکھلا گیا۔
’’وہی جن کو پیسے دئیے تھے؟‘‘
’’کیسے پیسے؟‘‘
’’ہمارا گھر تباہ کرنے، ہمارے آشیانے کو تنکا تنکا بکھیرنے کے پیسے، ہمارے گھر کو عذاب کی بھٹی میں جھونکنے کے پیسے؟ سنو صفدر! میں نے اس روز وہ تمام گفتگو سن لی جو ان دو نشئیوں اور تمہارے درمیان ہوئی تھی‘ تم نے ان نشئیوں کے ذریعے جاوید کو ہیروئن کا عادی بنایا، ہم پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اور خود تماشہ اہل کرم دیکھتے رہے‘‘۔
’’صفدر کی حالت یوں تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، ہوش و حواس اڑ گئے تھے‘‘۔
راحیلہ شعلہ بار آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے تلخ لہجے میں بولی ’’جب سے مجھے تمہاری سازش کا پتہ چلا ہے میں نے کروٹیں بدلتے راتیں گزاریں، دن بے چینی میں گزرے، لیکن مجھے مناسب وقت کا انتظار تھا، میرا جی تو اسی دن ہی تم سے کھٹا ہو گیا تھا، تمہارا نشانہ تو خطا نہیں گیا، اب وار کی باری میری ہے اور ہدف تم ہو گئے، جو نشتر میرے دل میں پیوست ہوتے رہے اب وہ گھاؤ تمہارے سینے میں لگیں گے تو تمہیں اندازہ ہو گا کہ جب بازی پلٹتی ہے تو شکست کا سواد کیا ہوتا ہے‘‘ وہ چند لمحے سانس لینے کے لئے رکی۔
صفدر جمیلہ کو زور سے سینے سے چمٹائے پتھر کا بنا ہوا تھا، اس کی عقل ٹھکانے نہ رہی تھی، بیچ چوراہے ہنڈیا پھوٹی تھی، اس سے کوئی جواب نہ بن پا رہا تھا، اس نے راحیلہ کے گھر میں جو گھات لگائی تھی وہ سب آشکارا ہو چکا تھا، سچ کو کیسے جھٹلاتا؟
’’راحیلہ خدا کیلئے، ایسا نہ کہو، میرا دل ڈوب رہا ہے‘‘ وہ التجائیہ لہجے میں بولا۔
’’بس صفدر، بس، موقع اور مطلب پرستی کی کوئی حد ہوتی ہے لیکن تم نے تو بدلے کی آگ میں ہر حد پار کر دی، اس کا لہجہ تھا یا پھنکار صفدر تھرتھرا کر رہ گیا، راحیلہ کا یہ روپ وہ پہلی بار دیکھ رہا تھا، اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو چکی تھی، وقت پلٹ کر اس پر جو تازیانے برسا رہا تھا یہ تو اس کے سان گمان میں بھی نہ تھا، اس نے پھر ایک کوشش کی۔
’’راحیلہ خدا کیلئے اب بھول جاؤ، میں ہاتھ جوڑ کر تم سے معافی مانگتا ہوں‘‘ وہ گڑگڑایا۔
’’تم ہوس پرست، حریص، لالچی، معافی کی بات کرتے ہو، میرے پاس تمہیں دینے کیلئے کچھ نہیں‘‘
’’لوگ کیا کہیں گے، رشتہ دار سو سو باتیں بنائیں گے کہ بچی ابھی سال کی بھی نہیں ہوئی اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی‘‘
’’ان باتوں کا جواب تم نے دینا ہے، تمہارے پاس جواب بھی ہے اور گزرے وقت کا حساب کتاب بھی‘‘۔
’’بس کرو راحیلہ!‘‘
’’تم نے بس کی تھی، نہیں نا، بلکہ بے بس کر دیا تھا ہمیں‘‘
’’مجھ سے اگر بہت ظلم ہوا ہے تو میں نے مداوا کرنے کی بھی کوشش تو کی ہے‘‘
’’نہیں تم نے یہ بازی جیتنے کیلئے میری شرائط مانی تھیں‘‘
’’کیا مفاہمت کا کوئی راستہ نہیں‘‘
’’سارے راستوں پر بندھ تم نے باندھے‘‘
’’تم مجھے امتحان میں ڈال رہی ہو‘‘
’’امتحان تو ہو چکا، میں تو رزلٹ بتا رہی ہوں‘‘
’’بچی رونے لگ گئی، راحیلہ نے چھاتی سے لگایا، دودھ پلایا، بچی کو سکون ملا اور پھر سو گئی۔
’’دیکھو تمہیں اس بچی کی قسم‘‘… راحیلہ نے اسے فوراً ٹوکا ’’خبردار جو بچی کا نام لیا‘‘
’’اپنے بوئے ہوئے کانٹوں سے زخمی ہو رہے ہو تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں‘‘
’’راحیلہ کے جملے اسے تلخ کافی کے گھونٹ محسوس ہو رہے تھے، دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا، ہر طرف اندھیرا محسوس ہورہاتھا، اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا کہ اپنی بیوی کو کیسے منائے، اس کے تخیل کا پردہ پاش پاش ہو رہا تھا، حقیقت بہت تلخ تھی، زہر کے جیسی… جس کا ذائقہ بے انتہا کڑوا ہو اور وہ ہررگ جاں سے دھیرے دھیرے زندگی نچوڑرہا ہو‘‘۔
وہ راحیلہ کے پاؤں پڑ گیا، ’’ایسا نہ کرو، میری زندگی برباد ہو جائے گی‘‘ راحلہ نے پاؤں جھٹکا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’سنو صفدر! میں نے ساری کشتیاں جلا دیں، واپسی کا کوئی راستہ نہیں، طلاق یا خلع اور بس… ہاں یہ مکان بھی میرے نام ہے، اپنے رہنے کا بھی بندوبست سوچو!
’’صفدرساکت سا ہو کر اس کی طرف دیکھتا چلاگیا۔شاید وہ اپنے حواس سے بیگانہ ہو گیا تھا۔ پتہ اس وقت چلا ، جب وہ دھڑام سے فرش پر گرا اور بے ہوش ہو گیا، راحیلہ ایک لمحے کے لئے بوکھلا گئی، فوراًہی خود کو سنبھالا،ہمسائے کو بلایا۔ حاجی انور نے فوراً اسے گاڑی میں ڈالا، ڈاکٹر کے پاس لے گئے، دو گھنٹے بعد واپسی ہوئی،رات کے  تقریباًبارہ بج رہے تھے، حاجی انور اسے سہارا دئیے لائے اور کمرے میں لٹا دیا، اس کے چہرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔
’’فکر کی بات نہیں بیٹا‘ حاجی انور بولے ’’اعصابی کھچاؤ کے باعث بے ہوش ہو گیا تھا، اب قدرے بہتر ہے، یہ کچھ ادویات ہیں، نسخے کے مطابق اسے کھلاتی رہنا کل شام تک طبیعت مکمل سنبھل جائے گی، ابھی یہ دوائیوں کے اثر میں ، اس لئے سو جائے گا پھر بھی میری ضرورت ہو توآواز دے لینا‘‘ حاجی انور اسے ادویات کا شاپر پکڑا کر چلے گئے…
صبح جب صفدر کی آ نکھ کھلی تو گھر سے کوئی آ واز نہیں ابھر رہی تھی ۔اس کا دل بھر آ یا۔کتنا کچا رشتہ ہوتا ہے ۔ صرف اعتماد کی ڈور سے بندھا، جتنااعتماد ہے اسی قدر مضبوط ، ورنہ ایک کچی تند سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا یہ میاں بیوی کا رشتہ ۔ جب دلوں میں دراڑ آ جائے تو باقی کچھ نہیں بچتا۔ 
’’ ہوش آ گیا تمہیں؟‘‘ راحیلہ کی آ واز پر وہ چونک گیا
’’ ہاں …‘‘ اس کے منہ سے اتنا ہی نکل سکا۔
’’بولو ، کیا کرنا ہے ، مجھے طلاق دو گے یا خلع لینا پڑ ے گا مجھے ۔‘‘ وہ انتہائی تلخ لہجے میں بولی تو وہ اٹھتے ہوئے بولا
’’ بس کرو ، معاف کر دو مجھے ، میں اب اتنی سکت نہیں رکھتا کہ مزید کوئی دکھ سہہ سکوں ، میں شرمند ہ ہوں ۔‘‘
’’ ابھی تو تمہیں مزید شرمندہ ہونا ہے ، میں بھی کسی کی بیٹی تھی ، کیا حق تھا تمہارامجھ پر جو تم نے ہمیں برباد کیا ایک ضد کے لئے ، اب دیکھو میں تمہاری بیٹی کے ساتھ کیا کر تی ہوں ۔سوچو ، جب کو غیر مرد تمہاری بیٹی کو اپنی بانہوں میں لے گا ۔تم دیکھو گے ۔تم کسی کی بیٹی پر آ وازے کستے تھے ، غیر مرد تمہاری بیٹی پر آ وازیں …‘‘
’’ بس …‘‘ وہ کانوں پر ہاتھ رکھ کر چیخا۔
’’ تم تصور میں بھی یہ ظلم برداشت نہیں کرسکتے ،اور تم نے …‘‘ راحیلہ نے کہنا چاہا مگر اس نے پھر اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
’’ بس کرو ، مجھے تم معاف نہ کرو ۔ لیکن ایک وعدہ کرو ، میری نہ اہی اپنی بیٹی سمجھ کر اس کی حفاظت کرنا، میں تمہارا مجرم ہوں ، میں تمہارے سامنے اپنی جان دے دیتا ہوں ۔ پلیز ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا۔ تیری سے الماری کی جانب بڑھا اور وہاں دھرا پسٹل اٹھا لیا۔ اس کا سیفٹی کیچ ہٹایا اور اپنی کنپٹی پر رکھ لیا۔ راحیلہ وحشت بھرے انداز میں اسے دیکھتی رہی ۔صفدر نے اس کی جانب التجائیہ انداز میں دیکھا اور بولا،’’ پلیز اپنی بیٹی کی حفاظت کرنا۔‘‘
یہ کہتے ہی اس نے اپنی انگلی کو حرکت دی ۔ راحیلہ برق رفتار ی سے بڑھی ۔ ایک دھماکا ہوا ، گولی چھت میں جا لگی ۔ صفدر بچ گیا تھا۔ راحیلہ اس کے سینے سے لگی مسلسل روئے چلی جا رہی تھی ۔ صفدر نے اسے خود سے الگ کیا اور اس کے آ نسو پونچھ دئیے ۔





Comments

Popular posts from this blog

اردو ناول کا ارتقا

اردو محاورے۔۔۔۔۔۔ وسیم بن اشرف

واٹس ایپ کی سرجری۔۔معلومات ہی معلومات