اردو ادب ہر دور میں نشیب و فراز سے گذرتا رہا ہے ۔ لیکن ہر دور میں شاعروں اور دیبوں نے اس کے لیے نت نئی راہیں ہموار کی ہیں ۔ شاعروں او ر ادیبوں نے اپنی ان تھک کاوشوں سے اردو ادب کو مختلف اصناف سے آراستہ کیا۔اردو ادب میں ناول کی صنف بھی ان ہی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔ ناول اطالوی زبان کے لفظ Novellaسے نکلا ہے ۔مختلف ناقدین نے ناول کی تعریف مختلف انداز میں کی ہے ۔ رابن سن کر و سو کے غیر فانی مصنف ڈینیل ڈنو نے اس فن کی بنیاد ڈالتے ہوئے دو چیزوں کا خاص طور سے لحاظ کیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ قصیدہ گو کو حقیقت نگار ہوگا ہونا چاہئے۔ دوسرایہ کہ اس سے کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر قصہ حقیقت پر مبنی نہ ہو گا تو جھوٹا ہوگا۔ اور اپنی تصنیف کے ذریعے مصنف جھوٹ بولنے کا عادی ہو جائے گا ۔ وہ کہتا ہے کہ: ’’ قصہ بنا کر پیش کر نا بہت ہی بڑا جرم ہے۔ یہ اس طرح کی دروغ پر مبنی ہے ۔ جو دل میں ایک بہت بڑا سراخ کر دیتی ہے جس کے ذریعے جھوٹ آہستہ آہستہ داخل ہو کر ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔‘‘ فیلڈنگ جو انگریزی ناول کے عناصر اربعہ میں سے ہیں اس فن کی تعریف میں یو ں رقم طراز ...
ردیف "ا" اُبلا سُبلا، اُبالا سُبالا اگر ہم اس محاورہ کی لفظی ترکیب پر غور کریں تو اس سے ایک بات پہلی نظر میں سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ہمارے ہاں الفاظ کے ساتھ ایسے الفاظ بھی لائے جاتے ہیں جن کا اپنا اس خاص اس موقع پر کوئی خاص مفہوم نہیں ہوتا لیکن صوتی اعتبار سے وہ اس لفظی ترکیب کا ایک ضروری جُز ہوتے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں اور بھی بہت سی مل سکتی ہیں، جیسے"الاَبُلَّا"، "اٹکل پچو"، "اَبے تبے"، "ٹال مٹول"، "کانچ کچُور"وغیرہ۔ "اُبلا سُبلا" ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کسی عورت کو اچھا سالن بنانا نہیں آتا۔ ہمارے ہاں کھانا بنانے کا آرٹ گھی، تیل، بگھار، گرم مصالحہ، گوشت وغیرہ ڈال کر اس کو خوش ذائقہ اور لذیذ بنایا جاتا ہے۔ سالن میں جتنی ورائٹی ) variety (ہو سکتی ہے، اُن سب میں ان کو دخل ہے کہ وہ بھُنے چُنے ہوں، شوربہ، مصالحہ، اس میں ڈالی ہوئی دوسری اشیاء اگر خاص تناسب کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر وہ سالن دوسروں کے لیے"اُبلا سُبلا" ہے، یعنی بے ذائقہ ہے اور اسی لیے بے نمک سالن کا محاورہ بھی آیا ہے، یعنی بے ذائقہ چیز۔ ...
Comments
Post a Comment