ابن صفی کے ناولوں سے یک سطری جواہر پارے
"کیا پئیں گے آپ ؟"
منیجر نے گھنٹی کے بٹن پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔
"خون جگر کے علاوہ ۔۔۔ آج کل اور کچھ نہیں پیتا ! ۔۔۔"
"اوہو ! تو آج کل آپ شاعر ہو رہے ہیں۔"
"ہاں ۔۔۔ آں ۔۔۔
گریبان پھاڑتا ہے ، تنگ جب دیوانہ آتا ہے!
خدا جانے کہاں سے کس طرح ۔۔۔ پروانہ دیوانہ مستانہ آتا ہے!"
"دوسرا مصرعہ تو کچھ بڑھا ہوا سا معلوم ہوتا ہے۔"
"ہاں میں اپنے ہوش میں نہیں ہوں ! بےخودی میں مصرعہ بڑھ گیا ہوگا ۔۔۔۔"
(عمران سیریز ناول : قبر اور خنجر)
اِدھر اُدھر کی باتوں میں آدمی ہمیشہ ننگا ہو جاتا ہے۔ یعنی تمہاری روح اور فرشتے اِدھر اُدھر کی باتوں میں لازمی طور پر ظاہر ہو جائیں گے۔
تم اِدھر اُدھر کی باتوں میں غیرشعوری طور پر اپنے کردار کی جھلکیاں دکھاتے چلے جاؤ گے۔
ناول : رائفل کا نغمہ
آخر یہ سب کب تک ہوتا رہے گا۔۔؟
جب تک اس نظام کی بنیادی خامیاں دور نا کردی جائینگی۔ان کی طرف کوئی بھی دھیان نہیں دیتا۔بس جمہوریت کے ڈھول پیٹے جاتے ہیں۔ شائد کوئی بھی نہیںجانتا کے جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے یا پھر اسکی طرف سے مصلحتاً ہی آنکھیں بند کرلی گئی ہیں۔۔۔بنیادی چیز آدمی کو اپنے مقام کا عرفان ہے۔جب تک آدمی اپنا مقام نہیں پہچانیگا۔کسی نظام کو ڈھنگ سے نہیں چلا سکے گا۔۔
(ابن صفی (ناول- دہشت گر)
میں کہتا ہوں! اگر تم قانون کو ناقص سمجھتے ہو تو اجتماعی کوششوں سے اسے بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ اگر اس کی ہمت نہیں ہے تو تمہیں اسی قانون کا پابند رہنا پڑے گا!
اگر تم اجتماعی حیثیت سے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس سے متفق ہو۔ اب اگر متفق ہونے کے باوجود بھی تم اس کی حدود سے نکلنے کی کوشش کرو تو تمہاری سزا موت ہی ہونی چاہئے۔
(ناول : لاش کا بلاوا)
حمید کا بکرا اگر آدمی ہوتا تو یا تو اب تک خود کشی کر چکا ہوتا یا نقاد ہوتا۔اور اردو غزل کے متعلق یہ ہی خیال ظاہرکرتا کہ اس" نیم وحشی صنف سخن" کی گردن بے تکان ماردینی چاہیئے کیونکہ حمید اس وقت بھی اسے ایک غزل ہی سنا رہا تھا مگر بکرے نہ تو خود کشی کرسکتے ہیں نا ہی تنقید۔ ویسے وہ اگر آدمی ہوتا تو یہ بھی ممکن تھا کہ غزل کی گردن مارنے کے بجائے حمید ہی کی گردن اڑادیتا۔۔
ابن صفی - (پانی کا دھواں)
ایٹم بم اور ہائیڈروجن بموںکے تجربات ان کی سمجھ سے باہر تھے کہ ایک آدمی جب پاگل ہوجاتا ہے تو اسے پاگل خانے میں کیوں بند کردیتے ہیں' اور جب کوئی قوم پاگل ہوجاتی ہے تو " طاقتور " کیوں کہلانے لگتی ہے ؟
اگر تمہاری بیوی تمہیں کسی اجنبی کے سامنے ڈانٹ دیتی تو تہماری کیا عزت ہوتی ۔ نہ تم اسے کچھ کہ سکتے اور نہ ہی برداشت ہی کرسکتے۔ محض اس لئے کے آج کا آدمی قدامت روئی تہذیب کی درمیانی دلدل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے'ایک طرف تو اسے آج کی مساوات کھینچتی ہے اور دوسری طرف صدیوں پرانا ضمیر جو عورت کی محکومیت کا عادی ہوچکا ہے
ذہن کے چور دروازے پردستک دیتا رہتا ہے ۔
ابن صفی ( آتشی پرندہ)
یہاں ہر آدمی اپنی راہ کا کانٹا ہٹا دیتا ہے یہ ایک فطری بات ہے ۔کبھی اس فعل کی حیثیت انفرادی ہوتی ہے اور کبھی اجتماعی' اجتماعی حیثیت کو ہم قانون کہتے ہیں۔
ہر وقت قہقہے لگانے والوں پر حالانکہ کسی غم کا اثر دیر پا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ تھوڑا سا غم انگیز وقفہ انکے لئے اتنا جان گسل ہوتا ہے کے کچھ دیر کے لئے انکی رجائیت کی بنیادیں تک ہل جاتی ہیں۔
ابن صفی (کچلی ہوئی لاش)
****************************************************
جناب ابن صفی کے کچھ مزید شاہکار ڈائیلاگ اور فکر انگیز جملے
جونک کی واپسی: "میں جانتا ہوں کہ حکومتوں سے سرزد ہونے والے جرائم، جرائم نہیں حکمت عملی کہلاتے ہیں۔ جرم تو صرف وہ ہے جو انفرادی حیثیت سے کیا جائے۔ "
سہ رنگا شعلہ: "آدمی کس قدر بے چین ہے مستقبل میں جھانکنے کے لیے۔ شاید آدمی اور جانور میں اتنا ہی فرق ہے کہ جانور مستقبل سے بے نیاز ہوتا ہے اور آدمی مستقبل کے لیے مرا جاتا ہے۔ "
مہکتے محافظ: "میں عموماً بنجر زمین پر کاشت کرتا ہوں اور کچھ نہیں تو کانٹے دار پودے ہی اگا لیتا ہوں اور وہ کانٹے میرے لیے خون کی بوندیں فراہم کردیتے ہیں۔ "
خطرناک لاشیں: "اگر میں اس سڑک پر ناچنا شروع کردوں تو مجھے دیوانہ کہو گے لیکن لاشوں پر ناچنے والے سورما کہلاتے ہیں۔ انہیں اعزاز ملتے ہیں، ان کی چھاتیاں تمغوں سے سجائی جاتی ہیں۔ "
صحرائی دیوانہ: "جو عبادت آدمی کو آدمی نہیں بنا سکتی، میں اس عبادت کے بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھنے پر مجبور ہوں۔ "
ہیروں کا فریب: "دنیا کا کوئی مجرم بھی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ قدرت خود ہی اسے اس کے مناسب انجام کی طرف دھکیلتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو تم ایک رات بھی اپنی چھت کے نیچے آرام کی نیند نہ سو سکو، زمین پر فتنوں کے علاوہ کچھ نہ اگے۔ "
جہنم کی رقاصہ: "یہاں اس ملک میں تمہارے ناپاک ارادے کبھی شرمندہ تکمیل نہیں ہو سکیں گے۔ یہاں کی فضا میں ایسا معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا جو خدا کے وجود سے خالی ہو۔ "
موت کی آندھی: "جب کوئی ذہین اور تعلیم یافتہ آدمی مسلسل ناکامیوں سے تنگ آجاتا ہے تو اس کی ساری شخصیت صبر کی تلخیوں میں ڈوب جاتی ہے۔ "
دشمنوں کا شہر: "ایک پرندے کو سنہرے قفس میں بند کر کے دنیا کی نعمتیں اس کے لیے مہیا کر دو لیکن کیا وہ پرندہ تمہیں دعائیں دے گا؟"
************************************************
x
Comments
Post a Comment