تساوو کے آدم خور از جے۔ ایچ پیٹر سن
The Man-eaters of Tsavo by John Henry Patterson
تساوو کے آدم خور از جے۔ ایچ پیٹر سن
The man eaters of tsavoمصنف: جے۔ ایچ۔ پیٹر سن (جان ہنری پیٹر سن)
ترجم: تساوو کے آدم خور
مترجم: سید علاؤ الدین
صنف: نان فکشن، شکاریات
سن اشاعت: 1907
صفحات: 119
قارئین شکاریات کے موضوع پہ کتابیں پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارے لئے خوشی کا موقع ہے کہ ہم آج ایسے ہی قارئین کے لئے شکاریات کے موضوع پہ لکھی گئی کتاب پیش کر رہے ہیں۔ یہ کتاب انگریز مصنف جے ایچ پیٹر سن کے قلم سے نکلی ہوئی ہے اور سن 1907 میں پہلی بار شائع کی گئی۔ اس کتاب نے اپنے وقت میں ناصرف عوامی پسندیدگی حاصل کی بلکہ امریکی صدر روز ویلٹ اور برطانوی وزیراعظم سالسبری کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اردو زبان کے قارئین کے لئے اس کتاب کا ترجمہ سید علاؤالدین صاحب نے تساوو کے آدم خور کے عنوان سے کیا ہے۔تساوو کے آدم خور، مصنف جے ایچ پیٹر سن کی ذاتی زندگی سے لئے گئے ان واقعات پہ مبنی ہے جن کا انہیں اپنے تساوو میں قیام کے دوران واسطہ پڑا۔ تساوو، موجودہ افریقی ملک کینیا کا ایک شہر تھا جہاں مصنف ایک ریلوے لائن اور پل کی تعمیر کی نگرانی کے لئے مقرر کئے گئے تھے۔ آج سے سو سال قبل یہ علاقہ تہذیب و تمدن کے نام سے بھی ناآشنا تھا۔ کسی قسم کی انسانی ترقی کے آثار نہیں تھے بلکہ اس علاقے میں ریلوے کی آمد ہی انسانی تمدن کے وہاں پہنچنے کے لئے اٹھایا جانے والا پہلا قدم تھا۔یہ تمام علاقہ جنگل پہ مشتمل تھا جہاں جنگلی جانوروں کی بہتات تھی اور مقامی آبادی جنگلی قبائل پہ مبنی تھی جو بہت پسماندہ تھی۔ مصنف اور اس کے تین ہزار سے زائد کے معاون عملے کے رہنے کے لئے اس علاقے میں کوئی انتظام نہ تھا۔ ان کے رہنے کا انتظام خیمے بنا کے کیا گیا تھا۔ لیکن یہ انتظام ناکافی ثابت ہوا جلد ہی اس علاقے میں آدم خور شیر کی وجہ سے بے اطمینانی اور تشویش پھیل گئی۔ یہ شیر اتنا دلیر اور بےباک تھا کہ خیموں میں گھس کے مزدوروں کو اٹھا کے لے جاتا تھا۔ آئے دن ایسی خبریں سننے میں آ رہی تھیں۔ اس شیر کو روکنے کے لئے کئی طریقے کئے گئے۔ خیموں کے گرد باڑ کھڑی گئی، آگ لگائی گئی لیکن یہ آدم خوروں کو روکنے کے لئے ناکافی رہے۔ مزدوروں میں یہ بات پھیلنے لگی کہ یہ آدم خور شیر دراصل بدروحیں ہیں اسی لئے انہیں مارنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں اور یہ انسانوں کو شکار کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔
مصنف نے اپنی کتاب میں تذکرہ کیا ہے کہ ان حالات میں انہیں ناصرف شیروں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا بلکہ ان کے مزدور بھی کام کرنے سے انکاری تھے جس کی وجہ ریلوے لائن، جس کو بچھانے کے لئے انہیں اس علاقے میں تعینات کیا گیا تھا، کا کام تعطل کا شکار ہو رہا تھا۔ مزدور ان کی جان کے بھی دشمن ہو رہے تھے اور ان پہ قاتلانہ حملے کرنے کی پلاننگ ہونے لگی۔ ایسے میں مصنف نے تہیہ کیا کہ جو بھی ہو
انہیں اس آدم خور شیر کا شکار کرنا ہے تاکہ وہ اپنے کام کو سکون سے آگے بڑھا سکیں اور جو توہم پرستی ان کے مزدوروں میں پھیل رہی ہے اس کا قلع قمع ہو سکے۔ تاہم ابتدائی کئی کوششوں میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم ایک رات جب وہ مچان لگائے اکیلے شیر کے منتظر تھے انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی اور وہ اس آدم خور شیر کو شکار کرنے میں کامیاب رہے۔ اس شیر کی تصویر بھی مصنف نے اپنی کتاب میں شامل کی ہے۔ یہ ایک بڑا اور مضبوط جانور تھا اور اس کی لمبائی نو فٹ آٹھ انچ تھی۔ اس شیر کے شکار کے بعد مصنف مقامی علاقوں میں مقبول ہو گئے جنہوں نے انہیں اس عفریت سے نجات دلائی تھی۔ تاہم یہ ان کا پہلا اور آخری شکار نہیں تھا۔ اس علاقے میں شیروں کی بہتات تھی اور مصنف نے مزید کئی شیروں کے شکار کئے۔کتاب میں ناصرف مصنف کے ہاتھوں شکاری ہونے والے آدم خور شیروں کے شکار کی کہانیاں شامل بلکہ دیگر جنگلی جانور جیسے گینڈے، ہاتھی، دریائی گھوڑے جیسے جانوروں کے مصنف سے ہونے والے سامنے کے احوال بھی شامل ہیں۔ مصنف نے ناصرف افریقہ کے اس علاقے میں رہنے والے جنگلی جانوروں کے بارے میں بیان کیا ہے بلکہ اس علاقے کے جنگلی قبائل کے بارے میں بھی معلومات پیش کی ہیں۔ پل کی تکمیل کے بعد جب مصنف وطن واپس جانے لگے تو ان کے حسن سلوک سے متاثر ہوکے ان کے مزدور اور علاقے کے دیگر لوگ بھی ان کے ساتھ جانا چاہتے تھے لیکن ایسا ممکن نہ تھا اس لئے مصنف نے ان سے معذرت کر لی۔بشکریہ کتابستان
Comments
Post a Comment