کالی شا کتاب از غلام محی الدین



نام کتاب: کالی شا کتاب
مصنف: غلام محی الدین
صنف: نان فکشن، سفرنامہ
صفحات: 136
قیمت: 80 روپے
ناشر: نیشنل بک فاؤنڈیشن
اشاعت اول: 2015
عمرہ ہو یا حج، یہ ایسی سعادتیں ہیں جو خوش نصیبوں کو مقدر ہوتی ہیں۔ خانہ کعبہ کی زیارت اور طواف کی خوشی جس مسلمان کو نصیب ہو جائے اس  کی دنیا بدل جاتی ہے۔آج کی زیر نظر کتاب کالی شا کتاب بھی ایسی ہی ایک سعادت کا احوال ہے۔ جس کا عنوان تو مصنف نے کالی شا کتاب رکھا ہے مگر ساتھ ہی وضاحت بھی لکھی ہے کہ یہ قلبی وارداتوں پہ مبنی ہے۔ کتاب کا عنوان  متاثر کن ہے جو  توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے اور یہ سوچنے پہ مجبور کرتا ہے کہ آخر ”کالی شا“ کا مطلب کیا ہے۔ کتاب کا سرورق بھی کالے رنگ کا ہے جو عنوان کی مناسبت سے ہے۔ ممتاز مفتی کے کالے کوٹھے، اور بابا یحییٰ خان کی پیا رنگ کالا کے بعد یہ کتاب اسی قبیل کی محسوس ہوتی ہے۔  کتاب کے اختتام پہ جاوید چودھری صاحب کے تاثرات درج ہیں جن میں آپ نے مصنف کو ایک ”بابا“ قرار دیا ہے، وہی بابا جس کا ذکر اشفاق احمد صاحب مرحوم کی گفتگو میں جگہ جگہ ملتا تھا۔ جاوید چودھری صاحب کے اس کتاب کے بارے میں الفاظ ہیں؛
”کتاب پڑھتے ہوئے یوں لگا کہ مکے کے کبوتروں کی بچی ہوئی چگ اب کسی کی جیب میں نہیں بلکہ اس کتاب کے ہر صفحے پر دانا دانا بکھر چکی ہے۔ اب یہ قاری پہ منحصر ہے کہ وہ کس صفحے کی کس سطر سے دانا اٹھاتا ہے اور برکات سمیٹتا ہے“۔
کتاب میں موجود دیگر تاثرات میں بارانی زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کے سابق وائس چانسلر جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد اعظم خان صاحب کے تاثرات بھی موجود ہیں، ان کا کہنا ہے؛
”کالی شا کتاب بظاہر حجاز مقدس کے سفر سے متعلق ہے لیکن پوری کتاب پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ مصنف کے باطن میں چھپے ہوئے انسان کو باہر نکلنے میں اس سفر نے جو مدد فراہم کی وہ اللہ کی رضا اور کرم کے بغیر ممکن نہیں ہوتی“۔
کتاب کا پیش لفظ پروفیسر ڈاکٹر جناب انعام الحق صاحب کا لکھا ہوا ہے جو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر بھی ہیں۔ آپ لکھتے ہیں؛
”میرے لئے یہ بات باعث طمانیت ہے کہ میری توقع کے عین مطابق اور قارئین کی پزیرائی کے باعث پچھلے برس چھپنے والا اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا اور اب اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا جا رہا ہے۔ امید ہے یہ ایڈیشن بھی پہلے ایڈیشن کی طرح مقبول ہوگا“۔
ان تمام عالم فاضل شخصیات کے تعارف و تاثرات پڑھنے کے بعد ذہن میں کتاب کا ایک تصور سا بن جاتا ہے اور اس سے وابستہ توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ کسی بھی کتاب کا دوسرا ایڈیشن چھپنا اس کی کامیابی کی نشانی ہے۔ یہ کتاب یقیناً اپنے پڑھنے والوں میں پسند کی گئی ہے ۔ ہماری رائے میں اس کے منفرد عنوان کا بھی اس میں بہت ہاتھ ہے نیز کتاب کا سیاہ سرورق اس کی معنی خیزیت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ اس کتاب کے مصنف غلام محی الدین صاحب ہیں جو صحافت کے پیشے سے تعلق رکھتے ہیں اور آج کل روزنامہ ایکسپریس اسلام آباد میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں۔ اپنی اس کتاب کے بارے میں وہ کہتے ہیں؛
”عمرے کی سعادت کے بعد میں نے یہ کتاب لکھ کر مٹھائی تو بنا لی ہے، لیکن مجھے ہرگز علم نہیں کہ یہ مخصوص ذائقے والی ہے بھی یا نہیں۔ یہ رپورٹ ہے، رپورتاژ ہے یا سفر نامہ، مجھے اس کا بھی علم نہیں، کیونکہ مٹھائی بنانے کا یہ میرا پہلا تجربہ ہے۔ جس کا نام میں نے ”کالی شا کتاب“ رکھا ہے۔ اس بارے میں مزید کچھ کہنا مناسب نہیں، سوائے اس کے کہ میں میٹھے کا شوقین ہوں۔ اور مٹھاس بانٹنا مجھے اچھا لگتا ہے“۔

اوپر پیش کئے گئے اقتباسات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کتاب میں عمرے سے متعلق یادداشتیں ہیں جو رپورتاژ اور سفرنامے کی ایک مشترکہ شکل میں پیش کی گئی ہیں۔ کتاب میں کل چھبیس عنوانات ہیں جو یوں ہیں؛
اللہ سائیں کی ماڑی، نال میرے کوئی چلے، چل میلے نوں چلئے، پہلی نظر نے مجھ کو بیگانہ کر دیا، ماضی سے ماضی قدیم تک، چرخے دے ہر ہر گیڑے، مائیں ہی مائیں، کوتاہیاں سمیٹ کے سارے جہاں کی، دنیا کا منفرد ویل چئیر ٹریک، جو میں نے دیکھا، عقیدے سے عقیدت تک، باب جبرائیل کے سامنے، یہ کیا ہوا؟، میں کہاں تھا؟، بارگاہ رسالت میں آمد رمضان، مدینے کے افطار و دسترخوان، غذا کا بےدریغ ضیاع، ماں بیٹی یا ساس اور بہو، گنبد خضرا کی قربت، سنگی کی اصطلاح، وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے، مدینہ سے واپسی، الوداعی طواف، متبرک آب زم زم، مکہ سے اسلام آباد تک اور جس کو تو انعام کہتا ہے۔

غلام محی الدین صاحب نے یہ سفر اپنی اہلیہ اور اپنی والدہ کے ہمراہ کیا تھا۔ اس سفر کی روئیداد شروع کرنےسے پہلے مصنف نے کچھ عنوانات اپنے بچپن سے بھی پیش کئے ہیں اور عمرے کے سفر سے پہلے پیش آنے والی واقعات بھی علیحدہ عنوان کے تحت لکھے ہیں۔ کتاب کا پہلا عنوان، اللہ سائیں کی ماڑی ہے جس میں آپ نے اپنے بچپن کے اس واقعے کا ذکر کیا ہے جب آپ نے خانہ کعبہ کی تصویر زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھی تھی، جس بابے کے توسط سے آپ کو یہ تصویر دیکھنے کا موقع ملا تھا اس نے اسے اللہ سائیں کی ماڑی کہا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور سن 2012 آ گیا جب آپ کے ایک عزیز نے آپ کو فون کرکے کہا،
”میں غلاف کعبہ تھامے کھڑا ہوں، مانگو! جو مانگنا ہے“۔

ایسا فون آنا یقینا مصنف کی خوش قسمتی کے باعث تھا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ اس فون سے ان پہ رقت طاری ہو گئی اور وہ اتنی بلند آواز میں روئے کہ اس سے پہلے کبھی اتنی اونچی آواز میں نہیں روئے۔ اس واقعے کے اگلے سال میں مصنف کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا اور بےروزگار ہو گئے۔ ایسے میں ایک دن اسی عزیز سے ملاقات ہوئی جنہوں نے خانہ کعبہ سے آپ کو فون کیا تھا اور ان پہ آگہی کے نئے در وا ہوئے۔ بقول مصنف؛
”اس دن مجھے علم ہوا کہ میری کتاب اعمال ”کالی شا“ ہو چکی ہے۔ میں خود کو رنگین سمجھنے والا کالی شا کتاب بن چکا ہوں“۔

سعودی عرب کی سرزمین صدیوں پرانی وہ مقدس زمین ہے جس کے چپے چپے پہ انبیا علیہ السلام کے قصے بکھرے ہوئے ہیں۔ اس سرزمین پہ پہنچ کے قرآنی قصے اور جا بجا قرآن میں پیش کی گئی حکمت اور سائنس کی باتیں ذہن میں دہرانے لگتی ہیں ۔ جیسے مکہ شہر کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں،
”یہ تمام اطراف سے اونچے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے، یہاں کبھی کبھار کم درجے کے زلزلے بھی آتے ہیں۔ شہر کا درجہ حرارت عموماً زیادہ رہتا ہے اسی وجہ سے یہاں زمینی پرت کے نیچے چٹانیں چپکنے والی اور لیس دار ہیں۔ اس وجہ سے اگر مستقبل میں کبھی یہاں زلزلہ آیا تو اس کی شدت کم رہے گی۔
مکہ کی کالی چٹانوں کے ٹکڑے کو لیبارٹری میں لے جا کر چیک کرنے کے بعد یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ یہ زمین کی سب سے قدیم ترین چٹانیں ہیں۔ کعبہ نا صرف زمین کا مرکز ہے بلکہ یہ پوری کائنات کا بھی مرکز ہے کیونکہ اس کی سیدھ میں بالکل اوپر آسمانی کعبہ یعنی بیت المعمور ہے۔ مختلف روایات و احادیث سے بھی یہ بات معلوم ہے کہ بیت المعمور، زمینی کعبہ کی سیدھ میں بالکل اوپر ہے۔“

جوں جوں عمرے کے مراحل طے ہوتے گئے، مصنف مزید سوچ و بچار میں گم ہوتے گئے، جیسے عمرے اور حج کے دوران اینٹی کلاک وائز سمت میں چکر لگانے کے متعلق آپ لکھتے ہیں؛
”ایک گمان یہ بھی گزرا کہ قدرت نے جو تخلیق کیا ہے وہ اینٹی کلاک وائز ہے، جو بندوں کی کاریگری ہے وہ کلاک وائز ہے۔ جب اہل دانش کی تحقیق سے استفادہ کیا تو یہ گمان سچ ثابت ہوا، تمام سیارے اپنے اپنے مدار میں سورج کے گرد اینٹی کلاک وائز گھوم رہے ہیں، لیکن تازہ فلکی تحقیق کی مطابق زمین کے شمالی کرہ سے اگر دیکھا جائے تو ہماری گلیکسی میں زہرہ ستارہ سورج کے گرد تو اینٹی کلاک وائز گھومتا نظر آتا ہے مگر اس کی اپنی حرکت دیگر ستاروں کے برعکس کلاک وائز ہے۔ جس کی سائنس نے اعداد و شمار کے ذریعے ایک وجہ بھی بتائی ہے۔
مگر سائنس ہی یہ کہتی ہے کہ کائنات میں ایٹم سے لے کر کہکشاؤں تک ہر شے اینٹی کلاک وائز حرکت کر رہی ہے، ایٹم کے اندر الیکٹرونز اپنے نیوکلئس کے گرد اینٹی کلاک وائز گردش کرتے ہیں۔ زمین کی تمام پلیٹیں عربین پلیٹ کے گرد اینٹی کلاک وائز حرکت میں ہیں، انسانی 
جسم کے اندر سائٹو پلازم سیل کے نیوکلیس کے گرد اینٹی کلاک وائز حرکت ہو رہی ہے۔ پروٹین مالیکیولز بھی بائیں سے دائیں طرف اینٹی کلاک وائز ہی حرکت کرتے ہوئے ترتیب پاتے ہیں۔ ماں کے رحم کے اندر بیضہ بھی اپنے ہی گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتا ہے۔ مرد کے مادہ منویہ کے اندر جرثومے بھی اپنے ہی گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتے ہوئے بیضہ تک پہنچتے ہیں۔ انسانی خون کی گردش بھی اینٹی کلاک وائز ہے۔ زمین اپنے گرد اور سورج کے گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کر رہی ہے۔ سورج اپنے ہی گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتا ہے، سورج اپنے تمام نظام شمسی سمیت ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے گرد اینٹی کلاک وائز گردش کر رہا ہے۔ کہکشاں خود اپنے ہی گرد اینٹی کلاک وائز گردش کرتی ہے“۔

اللہ کی حکمتوں اور باتوں پہ غور و فکر کے ساتھ ساتھ آپ کے اندر کا صحافی بھی اس سفر کے دوران بیدار رہا۔ عمرے کے انتظامات، وہیل چئیر کے ٹریک، وہیل چیئر چلانے کا طریقہ، کھانے پینے کے انتظامات اور لوگوں کی بدنظمی، اور کھانے کا ضیاع؛ سگریٹ خریدنے کے طریقہ کار، ساس بہو کا رشتہ، اس رشتے کی نفسیات اور حرم پاک میں رشتے کا احترام وغیرہ جیسے دنیاوی موضوعات بھی آپ کے مشاہدے کی زد میں رہے اور اس کتاب کا حصہ ہیں۔ جیسے ایک جگہ آپ نے لکھا ہے؛
”مدینہ میں میرے جب سگریٹ ختم ہوئے تو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کہاں سے ملیں گے؟ پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ سعودی عرب میں یہ سوغات کریانے کی چھوٹی سی دکان (بقالہ) سے نہایت رازداری کے ساتھ مل جاتی ہے۔ اگر آپ کو کوئی سعودی سپاہی ”شرتاً“ پکڑ لے تو دکان دار اور آپ کو سزا بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ بھی تھی کہ سگریٹ پیتے ہوئے کوئی آپ کو نہیں پوچھتا کہ آپ نے یہ کہاں سے اور کیسے خریدے؟ بہرحال یہ سوغات بھی اسی علاقے سے رازداری کی شرط پہ مل گئی جہاں سے ہم نے کھجوریں خریدی تھیں“۔

کالی شا کتاب ایک مختصر کتاب ہے جو صرف 136 صفحات پہ مشتمل ہے اور دو سے تین نشستوں میں باآسانی پڑھی جا سکتی ہے۔ کتاب میں جہاں مصنف کے قلبی احوال کا ذکر ہے وہیں عمرے کے انتظامات اور ادائیگی کے بارے میں مفید معلومات ہیں۔ مصنف کیونکہ صحافت کے شعبے سے متعلق ہیں اس لئے ان معلومات میں جہاں صحافتی انداز شامل ہے وہیں یہ زیادہ جامع، مفید اور درست ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ عمرے کے لئے جانے والے کسی بھی شخص کی معلومات کا اہم ذریعہ بن سکتی ہیں۔ کتاب کا انداز سادہ ہے، اس کی فضا افسانوی یا جذباتی نہیں ہے۔ جو سفر مصنف کے بچپن میں اللہ سائیں کی ماڑی کی تصویر سے شروع ہوا تھا، وہ مکہ اور مدینہ کے سفر اور عمرے کی سعادت کے بعد وطن واپسی پہ منتج ہوا۔ عمرے کی سعادت ہر سال لاکھوں مسلمانوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ہر شخص اس قلبی و روحانی تجربےسے گزرتا ہے لیکن کم ہی لوگوں کو یہ توفیق نصیب ہوتی ہے کہ وہ اس تجربے کی روئیداد دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ اس وجہ سے مصنف مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے اندر کے چھپے ہوئے اس انسان کو جسے ہم سب چھپا کے ہی رکھنا چاہتے ہیں، بہادری کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اپنی اچھائیوں اور برائیوں سمیت۔کتاب آج کے دور کے حساب سے انتہائی کم قیمت ہے۔ یہ پیپر بیک کور کے ساتھ شائع کی 
گئی ہے۔ کتابت عمدہ ہے اور املأ کی اغلاط موجود نہیں۔ مصنف اگر اس کتاب میں اپنے سفر کی چند تصاویر بھی شامل کر دیتے تو ہماری رائے میں یہ مزید بہتر ہو سکتی تھی۔ مصنف اور اس کتاب کے لئے ہماری نیک تمنائیں۔



Comments

Popular posts from this blog

اردو ناول کا ارتقا

اردو محاورے۔۔۔۔۔۔ وسیم بن اشرف

کالا جادو از ایم۔ اے۔ راحت