نام کتاب: خوبصورت
مصنفہ بشریٰ رحمٰن
صنف: ناول، اردو ادب، کلاسک
بشریٰ رحمٰن صاحبہ کے لکھے ناول خوبصورت کا موضوع بد صورتی ہے۔ مختلف مصنفین کے کام کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کئی مصنفین نے بطور خاص بد صورتی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔
انسان فطرتاً حسن پرست واقع ہوا ہے۔ ایسے میں اس حسن پرست دنیا میں جو لوگ بدصورت سمجھے جاتے ہیں، ان کی زندگی کس طرح متاثر ہوتی ہے وہ اپنی معمولات کس طرح انجام دیتے ہیں اور ان کے رویوں میں کس طرح توڑ پھوڑ ہوتی ہے، کئی مصنفین نے اس موضوع پر قلم آزمائی کی ہے کتابستان کے گذشتہ اوراق میں ہم ایسی کتب کا ذکر کر چکے ہیں جن کے بارے میں یہاں اور یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔ ان کتب کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ بدصورت لوگ عموماً دل کے اچھے ہوتے ہیں، نیزان کے اردگرد کے لوگ اور رشتے ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتے ہیں، اور ان کے حساس اور خوبصورت دل کس طرح اس خوبصورت دنیا کی بدصورتی کا سامنا کرتے ہیں۔ ان ناولوں کے پلاٹ گویا روایتی ہی ہوتے ہیں لیکن جو بات انہیں خاص بناتی ہے وہ ان کے غیر روایتی اہم کردار ہیں جو خوبصورتی کے کسی بھی معیار پہ پورے نہیں اترتے۔ خوبصورت بھی ایک ایسا ہی ناول ہے جس کا مرکزی مرد کردار بدصورت ہے اور اس کی بیوی اسی بات سے خائف ہے۔
مصنفہ بشریٰ رحمٰن
صنف: ناول، اردو ادب، کلاسک
بشریٰ رحمٰن صاحبہ کے لکھے ناول خوبصورت کا موضوع بد صورتی ہے۔ مختلف مصنفین کے کام کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کئی مصنفین نے بطور خاص بد صورتی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔

ناول کی ہیروئن رملی، ایک بےحد خوبصورت لڑکی ہے جسے یہ علم ہے کہ وہ خوبصورت ہے۔ دوسری لڑکیوں کی طرح اپنے شریک حیات کو لے کے اس کے بھی کچھ خواب ہیں۔ اس کے والد اس کی شادی اپنی پسند کے ایک لڑکے معاذ سے کر دیتے ہیں۔ شادی کے بعد جب رملی نے معاذ کو دیکھا تو وہ اسے بدصورت لگا۔ بشریٰ رحمٰن نے رملی کی کیفییات ان الفاظ میں بیان کی ہیں؛
ویسے تو ہر خوبصورت لڑکی کے لاشعور میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا دولہا اس سے زیادہ خوبصورت نہ ہو تاکہ زندگی بھر وہ ہی حاوی رہے۔ مگر ایسے مکروہ صورت دولہا کی تمنا کون کر سکتا ہے، جیسا معاذ تھا۔ چلو جی رنگ تو برداشت ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی مرد تو سانولے سلونے ہی اچھے لگتے ہیں۔ معاذ کا رنگ سانولا نہیں سیاہی مائل تھا اور رملی کے قریب بیٹھا ہوا ایک دم کالا لگتا تھا۔ صرف رنگ کی بات نہیں تھی اس کے چہرے پہ چیچک کے داغ بھی تھے۔
رملی کو ابکائی آ گئی۔۔۔ جیسے سیاہ مٹی کے اوپر بارش کے قطرے گرے ہوں۔
رملی اچھے ماں باپ کی بیٹی تھی اور مشرقی روایات کی پاسدار تھی اس لئے خاموش ہو گئی۔ لیکن دل سے وہ معاذ کو قبول نہ کر سکی۔ وہ اس بات پہ اداس اور دکھی تھی کہ جس شخص سے اس کی شادی ہوئی ہے وہ بدصورت ہے۔ مصنفہ اس کی کیفیات کا بیان یوں کرتی ہیں؛
جذبات کے تپتے الاؤ محبت کا پانی مانگ رہے ہیں۔ چاروں طرف سوکھی ریت کے بگولے ہیں اور وہ کھردرا آسمان۔۔۔۔ ایسے میں ایک مکروہ صورت آدمی پانی کا پیالہ لے کر کبھی ادھر سے نکل آتا ہے اور کبھی ادھر سے۔۔۔
اتنی شدید پیاس کے باوجود کہ خواہشوں کے کنول ہونٹوں کی طرح مرجھائے جا رہے ہیں اس بدبودار آدمی سے پانی لے کر پینے کو دل نہیں چاہتا۔
ویسے تو ہر خوبصورت لڑکی کے لاشعور میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا دولہا اس سے زیادہ خوبصورت نہ ہو تاکہ زندگی بھر وہ ہی حاوی رہے۔ مگر ایسے مکروہ صورت دولہا کی تمنا کون کر سکتا ہے، جیسا معاذ تھا۔ چلو جی رنگ تو برداشت ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی مرد تو سانولے سلونے ہی اچھے لگتے ہیں۔ معاذ کا رنگ سانولا نہیں سیاہی مائل تھا اور رملی کے قریب بیٹھا ہوا ایک دم کالا لگتا تھا۔ صرف رنگ کی بات نہیں تھی اس کے چہرے پہ چیچک کے داغ بھی تھے۔
رملی کو ابکائی آ گئی۔۔۔ جیسے سیاہ مٹی کے اوپر بارش کے قطرے گرے ہوں۔
رملی اچھے ماں باپ کی بیٹی تھی اور مشرقی روایات کی پاسدار تھی اس لئے خاموش ہو گئی۔ لیکن دل سے وہ معاذ کو قبول نہ کر سکی۔ وہ اس بات پہ اداس اور دکھی تھی کہ جس شخص سے اس کی شادی ہوئی ہے وہ بدصورت ہے۔ مصنفہ اس کی کیفیات کا بیان یوں کرتی ہیں؛
جذبات کے تپتے الاؤ محبت کا پانی مانگ رہے ہیں۔ چاروں طرف سوکھی ریت کے بگولے ہیں اور وہ کھردرا آسمان۔۔۔۔ ایسے میں ایک مکروہ صورت آدمی پانی کا پیالہ لے کر کبھی ادھر سے نکل آتا ہے اور کبھی ادھر سے۔۔۔
اتنی شدید پیاس کے باوجود کہ خواہشوں کے کنول ہونٹوں کی طرح مرجھائے جا رہے ہیں اس بدبودار آدمی سے پانی لے کر پینے کو دل نہیں چاہتا۔
معاذ سے شادی کے بعد رملی احساس کمتری کا شکار ہو گئی۔ وہ معاذ کے بچے کو جنم نہیں دینا چاہتی تھی کہ اسے لگتا تھا وہ بھی اپنے باپ کی طرح بدصورت ہو گا اور وہ اس سے محبت نہیں کر پائے گی۔ اس تمام کشمکش کے عرصے میں معاذ اور اس کی والدہ کا رویہ رملی کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ معاذ نے کبھی رملی کے کھچے ہوئے رہنے پہ اعتراض نہیں کیا اور ہمیشہ رملی کی خواہش کا احترام کیا۔ تاہم رملی اس کامپلیکس سے خود کو آزاد نہ کر سکی۔ اس نے غیر ارادی طور پہ دوسرے خوبصورت مردوں اور معاذ کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا اور دلی آرزدگی محسوس کرتی۔ جوں جوں رملی زندگی کا سفر طے کرتی گئی اسے مشاہدہ ہوا کہ بظاہر بہت خوبصورت نظر آنے والے مرد اندر سے بہت بدصورت ہو سکتے ہیں، ان کی بیویاں اپنے شوہروں کی حسن پرستی، لاپرواہی اور بےوفائی کی عادت کی وجہ سے ہمیشہ دکھی رہتی ہیں۔ یہ وہ مسائل تھے جن کا معاذ کے ساتھ رملی کو کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ بشریٰ رحمٰن صاحبہ نے یہاں کمپیر اور کنٹراسٹ کی تکنیک استعمال کی ہے اور خوبصورت مرد اور بدصورت مرد کے فرق کو واضح کیا ہے۔ ان کا پیغام واضح ہے کہ خوبصورت مرد وفادار اور گھریلو نہیں ہوتے، وہ اپنی خوبصورتی کے زعم میں ہوتے ہیں اور اپنی خواہشوں کے پیچھے اپنی گھریلو زندگی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف بدصورت لوگ محبت والے اور باوفا ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی کم صورتی کا احساس ہوتا ہے اور وہ دوسرے کے دل کو توڑنے کی کوشش نہیں کرتے۔ رملی کی زندگی میں کچھ خوبصورت مرد آئے جن سے وہ متاثر بھی ہوئی اور کسی حد تک گمراہی کا شکار بھی، جیسے اس کی بہن کا شوہر، اس کی دوست کا شوہر۔۔۔ لیکن آخر میں اس نے انہیں دل کا بدصورت پایا۔
ناول خوبصورت میں بشریٰ رحمٰن صاحبہ کا مقصد خوبصورتی اور بدصورتی کی بحث کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ناول بہنوں اور بچیوں کے لئے ہے کہ وہ اپنی شادی شدہ زندگی میں اور ویسے بھی ظاہری خوبصورتی کو اپنا معیار نہیں بنائیں اصل خوبصورتی دل کی خوبصورتی ہوتی ہے۔ ایک لڑکی کے لئے شادی کے بعد اس کا شوہر اور اس کا گھر سب سے اہم ہوتے ہیں۔ اس پیغام کے ساتھ یہ ناول ایک اصلاحی اور سماجی ناول بن گیا ہے جس کا مقصد ایک پیغام اپنے قارئین تک پہنچانا ہے اور بشریٰ جی اس مقصد میں کامیاب رہی ہیں۔ یہاں ہمارا خیال ہے کہ اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کے لئے انہوں نے برے کو حد سے زیادہ برا اور اچھے کو بہت زیادہ اچھا پیش کیا ہے، روزہ مرہ زندگی میں عین ممکن ہے کہ برائی یا اچھائی اتنے شدید لیول کی نہ ہوں۔ یہ ناول کئی دہائیوں پہلے لکھا گیا ہے اس لئے اس کی فضا آج کے زمانے کی فضا سے مختلف ہے۔ اس میں انٹرنیٹ، کمپیوٹر، موبائل فونز یا سیلفیز جیسی چیزیں موجود نہیں۔ بلکہ ایک ٹھہراؤ کی فضا ہے جہاں دوسرے شہر بات کرنے کے لئے کال بک کرائی جاتی ہےاور شام کو وقت گزاری کے لئے کلب جایا جاتا ہے۔اسی وجہ سے ہم اس ناول کو کلاسک کے زمرے میں رکھ رہے ہیں۔
ناول کے کئی اقتباسات بہت پرحکمت ہیں۔ جیسے کہ یہ
زندگی میں کوئی ایسا آدمی ضرور ہونا چاہئے جس سے آدمی دل کی بات کہہ سکے۔ رنج اور غصے اپنے اندر نہیں رکھنے چاہیں۔ یہ انسان کی خوبصورت عادتوں کو کھا جاتے ہیں اور ان کی جگہ انسان کے اندر کینہ، بغض اور تعصب لے لیتا ہے۔ تم نے دیکھا نہیں لوگوں میں اب کتنا حسد آگیا ہے۔ کیونکہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف اندر ہی اندر کھولتے رہتے ہیں۔
بشریٰ رحمٰن صاحبہ کا اپنا ایک فین کلب ہے اور کئی لوگ آپ کے لکھے کو پسند کرتے ہیں۔ مزید کلاسک ادب میں دلچسپی رکھنے والے قارئین بھی لطف اندوز ہوں گے۔
زندگی میں کوئی ایسا آدمی ضرور ہونا چاہئے جس سے آدمی دل کی بات کہہ سکے۔ رنج اور غصے اپنے اندر نہیں رکھنے چاہیں۔ یہ انسان کی خوبصورت عادتوں کو کھا جاتے ہیں اور ان کی جگہ انسان کے اندر کینہ، بغض اور تعصب لے لیتا ہے۔ تم نے دیکھا نہیں لوگوں میں اب کتنا حسد آگیا ہے۔ کیونکہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف اندر ہی اندر کھولتے رہتے ہیں۔
بشریٰ رحمٰن صاحبہ کا اپنا ایک فین کلب ہے اور کئی لوگ آپ کے لکھے کو پسند کرتے ہیں۔ مزید کلاسک ادب میں دلچسپی رکھنے والے قارئین بھی لطف اندوز ہوں گے۔
Comments
Post a Comment