Posts

Showing posts from February, 2018
میں    اس    کے    سامنے    سے    گزرتا    ہوں    اس    لیے ترک    تعلقات    کا    احساس    مر    نہ    جائے

۔بہشت، بیگم صاحبہ، ممتا، امڑی اور بددعا۔ از بشریٰ رحمٰن

صفحات: 186.سن اشاعت: 2002..ناشر: خزینہ علم و ادب، لاہور بشریٰ رحمٰن صاحبہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ ایک مشہور مصنفہ اور سیاستدان ہیں۔ آپ کے قلم سے کئی ناول، ناولٹ اور افسانے نکل چکے ہیں جنہوں نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ ان میں پارسا، پیاسی، خوبصوورت، لازوال وغیرہ شامل ہیں۔ بشریٰ رحمٰن صاحبہ کا موضوع عورت ہے۔ آپ کی تحریروں میں عورتوں کی زندگی کے بارے میں بھرپور روشنی پڑتی ہے۔ آج جس کتاب پہ بات ہو رہی ہے اس کا عنوان ہے بہشت۔ یہ ناولٹوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں کل پانچ ناولٹ شامل ہیں جن کے عنوانات ہیں: بہشت، بیگم صاحبہ، ممتا، امڑی اور بددعا۔“بہشت” ایک ایسے بچے کی کہانی ہے جو اپنی ماں سے نفرت کرتا ہے۔ لیکن یہ نفرت اس طرح کی نفرت نہیں ہے جیسا کہ عام تصور ہے۔ اس بچے کی ماں ایسی ماں تھی جس نے اسے کبھی کسی برے کام کو کرنے سے منع نہیں کیا لیکن وہ اپنی باتوں سے اس کی تربیت اس طرح کر رہی تھی کہ وہ خود ہی کسی برائی میں نا پھنس سکا۔ ہر برا کام کرنے سے پہلے اس کے سامنے اس کی ماں کی کہی باتیں آ جاتیں جو اسے خواہش کے باوجود برا کام کرنے سے بچا لیتیں۔ اپنی ماں کی انہی باتوں کی وجہ سے وہ خ...

لگن۔۔۔۔ از بشریٰ رحمٰن

صفحات: 546...قیمت: 550 روپے ۔ناشر: خزینہء علم و ادب، لاہور بشریٰ رحمٰن صاحبہ کے بارے میں پہلے بھی بات ہو چکی ہے۔ آپ ایک جانی مانی مصنفہ ہیں جن کے قلم سے کئی مشہور ناول اور افسانے نکل چکے ہیں۔  آج جس کتاب کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں وہ آپ کا لکھا ہوا ایک مشہور ناول ہے جس کا عنوان ہے “لگن”۔ یہ وہی ناول ہے جس پہ پاکستان ٹیلی ویژن کے گولڈن زمانے میں ڈرامہ بنایا جا چکا ہے۔ اس دور میں اس ڈرامے نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے تھے جس میں ناول کی کہانی کا بڑا ہاتھ تھا۔ “لگن” ایک امیر لڑکی کی کہانی ہے۔ اس لڑکی کا نام فلک تھا۔ ایک امیر زادی میں جو جو برائیاں ہو سکتی تھیں وہ فلک میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ وہ سوسائٹی گرل تھی، پارٹیز، فیشن، اور مذہب سے دوری اس کی زندگی کی اہم خصوصیات تھیں۔ وہ ایک حسین لڑکی تھی اور یہ سمجھتی تھی کہ اپنی خوبصورتی کی بنا پہ وہ کسی بھی مرد کو اپنے قابو میں کر سکتی ہے۔ تاہم اس کا یہ خیال آفاق سے ملنے کے بعد دور غلط ثابت ہو گیا۔ فلک نے آفاق کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔ تاہم آفاق نے فلک کو شادی کا پروپوزل بھیجا، جو اس نے...

ڈیسیپشن پوائنٹ (Deception point) از ڈین براؤن (Dan Brown)

Image
  زبان: انگریزی۔۔سن اشاعت: 2001 ڈین براؤن ایک معروف امریکی مصنف ہیں۔ جو اپنے تھرلر ناولوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ آپ کے قلم سے کئی ناول نکل چکے ہیں تاہم آپ کو زیادہ مشہوری رابرٹ لینگڈن سیریز سے حاصل ہوئی جس کے سلسلے کے اب تک تین ناول آ چکے ہیں۔ آپ کے ناولوں کی خاص بات ان کی تیز رفتاری ہے اور موضوع کے متعلق ان کی تحقیق ہے جس کے باعث ناول پڑھتے پڑھتے ہی قاری کئی مختلف موضوعات پہ معلومات حاصل کر لیتا ہے جو نا صرف اس کی م علومات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں بلکہ ناول کے پلاٹ کی مضبوطی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ڈیسیپشن پوائنٹ کی کہانی خلائی مخلوق اور ناسا کے گرد گھومتی ہے۔ خلائی مخلوق کی تلاش آج کل کے زمانے کی انتہائی اہم تلاش ہے۔ تاہم یہ تلاش نئے دور کی دین نہیں ہے بلکہ انسان صدیوں سے آسمان پہ ستاروں کو دیکھ کے اس بارے میں غور و فکر کرتا آیا ہے کہ آیا وہ اس کائنات میں تنہا ہے یا ستاروں پہ بھی کوئی مخلوق آباد ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ آج تک انسان کو اس تلاش کا کوئی مثبت جواب نہیں مل سکا ہے۔ ڈیسیپشن پوائنٹ کا آغاز اسی سوال کے جواب سے ہوتا ہے۔ جہاں ناسا نے ایک دور دراز...
Image
 حاجی مراد۔۔۔۔ (Hadji Murat )۔۔۔۔۔۔ از لیو ٹالسٹائی ترجمہ: ظہور احمد خان۔صفحات: .54پبلشر: فکشن ہاؤس، لاہور پاکستان  حاجی مراد، لیو ٹالسٹائی کا آخری ناول ہے جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار یعنی حاجی مراد، ایک تا تاری مسلمان جنگجو سردار ہے جس کا قبیلہ روسی حکومت کی سرحدوں کے پاس واقع ہے اور اس کا خاندان، جس میں اس کی بیوی اور بچے شامل ہیں، اس کے دشمن قبیلے کی قید میں صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ ایسے میں حاجی مراد اس امید کے ساتھ  روسی فوج کے ساتھ آ ملتا ہے کہ وہ اس کے خاندان کو رہا کر اقنے میں اس کی مدد کریں گے اور بدلے میں وہ بھی ان کی مدد کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ روسیوں کی معیت میں حاجی مراد کا وقت کس طرح گزرتا ہے۔ روسی فوج کے افسران اس کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں۔ اس کے رکھ رکھاؤ سے وہ اور ان کی بیویاں کس طرح متاثر ہوتی ہیں، یہ ناول اس بارے میں اچھی تفصیلات پیش کرتا ہے۔ روسی فوجی افسران کے آپس کے کینہ کو بھی یہ ناول بخوبی پیش کرتا ہے۔ ٹالسٹائی نے حاجی مراد کی اچھی عکاسی کی ہے۔ روسیوں کی موجودگی میں وہ کس طرح اپنے مذہبی اور روایتی تشخ...

سات ستاروں کا زیور، بریم اسٹوکر۔مترجم: مقبول جہانگیر

Image
    The jewel of seven stars by Bram Stokerمصنف: بریم اسٹوکر ترجمہ: زندہ ممی۔۔مترجم: مقبول جہانگیر۔۔صنف: ناول، خوفناک ناول، انگریزی ادب صفحات: 213..۔سن اشاعت: 1903 خوفناک کہانیوں کی جب بات کی جائے تو “ڈریکولا” سے سب ہی واقف ہوں گے۔ یہ ناول انگریزی ادب میں کلاسک کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ مشہور ناول اور کردار آئرش مصنف “بریم اسٹوکر” کا تخلیق کردہ ہے۔ ڈریکولا کے علاوہ بھی اسٹوکر کے کریڈٹ پہ کئی ناول اور مختصر کہانیاں ہیں جن میں سے ایک پہ آج بات ہو رہی ہے۔ اس ناول کا عنوان ہے “دی جیول آف سیون اسٹارز” یعنی سات ستاروں کا زیور۔ اس ناول کا اردو زبان میں ترجمہ مقبول جہانگیر صاحب کی مہربانی سے ہم تک پہنچا ہے۔   اسے دوبارہ پڑھنے کا موقع ملا اور اتنے طویل عرصے کے بعد پڑھنے کے بعد بھی اس ناول نے اتنا ہی لطف دیا جتنا کہ پہلی بار مطالعہ کے دوران محسوس ہوا تھا۔ یہ یقیناً مصنف کی مہارت اور موضوع کی دلچسپی ہے کہ یہ ناول کسی بھی زمانے میں پرانا محسوس نہی ہوتا وہیں یہ مترجم کی بھی کامیابی ہے کہ اس نے اردو زبان کے قالب ڈھالتے ہوئے ناول کی دلچسپی کم نہیں ہونے دی۔ زندہ ممی ایک خو...

انسانی قیامت از علیم الحق حقی۔۔گورے وڈال کے ناول “کالکی” سے ماخوذ دنیا کے اختتام پہ سفید گھوڑے پہ کالکی اوتار کی آمد ہوگی جو بھگوان وشنو کا آخری اوتار ہوگا ۔ اس اوتار کی آمد کے بعد دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ علیم الحق حقی نے ایک بار پھر ایک مشکل موضوع پہ سلیس انداز میں ناول لکھا ہے جس کا سسپنس قاری کو صفحے پلٹنے پہ مجبور کر دیتا ہے اور وہ مکمل کہانی پڑھے بغیر کتاب چھوڑ نہیں سکتا صنف: ناول، پاکستانی ادب۔صفحات: 188.ناشر: علی میاں پبلی کیشنز، لاہور۔سن اشاعت: 1998 پاکستان میں پاپولر فکشن لکھنے والے مصنفین میں غیر ملکی ناولوں کے تراجم کرنے کا رجحان کافی رہا ہے۔ عموماً یہ ترجمے لفظی یا بامحاورہ نہیں ہوتے بلکہ مصنفین کہانی کی فضا اور کرداروں کو مقامی یعنی پاکستانی ماحول کے مطابق ڈھال کے پیش کرتے ہیں تاہم کہانی کا اصلی متن وہی رہتا ہے۔ یہاں تک بات ٹھیک رہتی ہے لیکن ہمارے زیادہ تر مصنفین ان ناولوں کو اپنے ناموں سے پیش کرتے ہیں۔ ان ناولوں کو کہاں سے اخذ کیا گیا، ان کی انسپیریشن کس ناول سے لی گئی، اس بارے میں مصنف خاموش رہتے ہیں۔ ایسے ناول عوام میں انہی مصنفین (مترجمین) کے ناموں سے مشہور ہو جاتے ہیں اور ان کے اصل مصنف اور اصلی کتاب کا نام کم ہی سامنے آ پاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ فعل مناسب نہیں، اس ضمن میں جتنی غلطی مصنف کی ہے اتنی ہی ناشر کی بھی ہے۔ ایک ناشر کو چاہئے کہ وہ مترجم کو اس بات کی تحریک دے کہ وہ ناول کے اصل مصنف کا بھی ذکر کرے اور اس ناول کا بھی ذکر کرے جس سے کہانی اٹھائی گئی ہے ۔ حقی صاحب کا موجودہ ناول بھی ایک ایسا ہی ناول ہے جس کے اصل مصنف کا انہوں نے ذکر نہیں کیا۔ تاہم اپنے قارئین کے لئے ہم یہ بتاتے چلیں کہ یہ امریکی مصنف گورے وڈال کے ناول “کالکی” سے ماخوذ ہے۔ انسانی قیامت، علیم الحق حقی صاحب کی تصنیف ہے۔ حقی صاحب کی تصنیفات پہ پہلے بھی بات ہو چکی ہے۔ اس ناول کی بنیاد ہندو مذہب کے ایک عقیدے کے گرد گھومتی ہے جس کے مطابق دنیا کے اختتام پہ سفید گھوڑے پہ کالکی اوتار کی آمد ہوگی جو بھگوان وشنو کا آخری اوتار ہوگا۔ اس اوتار کی آمد کے بعد دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ موجودہ ناول انسانی قیامت، کالکی اوتار ہونے کے دعوے دار ایک شخص کی کہانی ہے جو ایک امریکی پائلٹ خاتون تھیوڈور اوٹنگز کی زبانی پیش کی گئی ہے۔ تھیوڈور اوٹنگز کو ایک ایسے شخص کے انٹرویو کی ذمہ داری دی جاتی ہے جس نے کالکی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ کالکی ہندوستان میں ایک آشرم چلا رہا تھا۔ اس کے چیلے مختلف لوگوں میں کنول کے پھول تقسیم کیا کرتے تھے اور وہ کسی سے کسی قسم کی مالی امداد نہیں لیا کرتے تھے اسی وجہ سے کالکی کئی لوگوں کی نظروں میں آ رہا تھا، لوگوں کا خیال تھا کہ اس کی مالی امداد منشیات سے وابستہ گروہ کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ کالکی کے بارے میں مشکوک تھے اور ان کا خیال تھا کہ “کوئی طاقت مغربی دنیا کو سرنگوں کرنا چاہتی ہے۔ اس کی سب سے سادہ اور آسان ترکیب یہ ہے کہ مغرب کی نئی نسل کو نشے کی لت ڈال دی جائے۔ انہیں ایک ایسے مذہب سے روشناس کرایا جائے جو یہ بتائے کہ دنیا کا خاتمہ قریب ہے۔ ایسے مایوس اور نشے کے عادی لوگ لڑ سکتے ہیں کبھی، وہ تو جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ہار جائیں گے۔” ایسے میں تھیوڈور اوٹنگز، کالکی کے انٹرویو کے لئے ہندوستان پہنچ جاتی ہے، وہاں اس کی ملاقات کالکی کی بیوی سے ہوتی ہے، جو اپنے شوہر کے کالکی اوتار ہونے پہ مکمل یقین رکھتی تھی۔ اوٹنگز کو کالکی کا جہاز اڑانے کی ملازمت دے دی گئی، جس پہ وہ حیران تو ہوئی لیکن اس نے یہ ملازمت قبول کر لی۔ دوسری طرف کالکی کے چیلے کنول کے پھول دنیا بھر میں اس پیغام کے ساتھ تقسیم کر رہے تھے کہ دنیا ختم ہونے والی ہے، اپنے آپ کو پاک کر لیں۔ تاہم دنیا کا خاتمہ کس تاریخ کو ہونے والا تھا اور ایسا کس طرح ممکن ہونے والا تھا، اس بارے میں وہ کوئی معلومات فراہم نہیں کر رہے تھے، خود اوٹنگز بھی اس بارے میں ناواقف تھی۔ کالکی کے بیان کے بارے میں دنیا شک و شبہات میں مبتلا تھی، اور پھر کالکی نے دنیا کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کا کیا نتیجہ نکلا، آیا دنیا تباہ ہوئی یا نہیں، اس بارے میں جاننے کے لئے ناول کا مطالعہ بہتر رہے گا۔علیم الحق حقی نے ایک بار پھر ایک مشکل موضوع پہ سلیس انداز میں ناول لکھا ہے جس کا سسپنس قاری کو صفحے پلٹنے پہ مجبور کر دیتا ہے اور وہ مکمل کہانی پڑھے بغیر کتاب چھوڑ نہیں سکتا۔ کالکی اوتار کا کردار قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ قاری بڑی بےچینی سے کہانی مکمل کرتا ہے تاکہ کالکی کی اصلیت جان سکے اور یہ جان سکے کہ آیا وہ انسانی قیامت بپا کرنے میں کامیاب رہا یا نہیں۔ اور یہ بھی کہ آیا وہ واقعی وشنو کا آخری اوتار تھا یا پھر ایک فراڈ شخص۔

Image
    دنیا کے اختتام پہ سفید گھوڑے پہ کالکی اوتار کی آمد ہوگی جو بھگوان وشنو کا آخری اوتار ہوگا ۔ اس اوتار کی آمد کے بعد دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ علیم الحق حقی نے ایک بار پھر ایک مشکل موضوع پہ سلیس انداز میں ناول لکھا ہے  جس کا سسپنس قاری کو صفحے پلٹنے پہ مجبور کر دیتا ہے اور وہ مکمل کہانی پڑھے بغیر کتاب چھوڑ نہیں سکتا صنف: ناول، پاکستانی ادب۔صفحات: 188.ناشر: علی میاں پبلی کیشنز، لاہور۔سن اشاعت: 1998 پاکستان میں پاپولر فکشن لکھنے والے مصنفین میں غیر ملکی ناولوں کے تراجم کرنے کا رجحان کافی رہا ہے۔ عموماً یہ ترجمے لفظی یا بامحاورہ نہیں ہوتے بلکہ مصن فین کہانی کی فضا اور کرداروں کو مقامی یعنی پاکستانی ماحول کے مطابق ڈھال کے پیش کرتے ہیں تاہم کہانی کا اصلی متن وہی رہتا ہے۔ یہاں تک بات ٹھیک رہتی ہے لیکن ہمارے زیادہ تر مصنفین ان ناولوں کو اپنے ناموں سے پیش کرتے ہیں۔ ان ناولوں کو کہاں سے اخذ کیا گیا، ان کی انسپیریشن کس ناول سے لی گئی، اس بارے میں مصنف خاموش رہتے ہیں۔ ایسے ناول عوام میں انہی مصنفین (مترجمین) کے ناموں سے مشہور ہو جاتے ہیں اور ان کے اصل مصنف ا...

ماہنامہ نئے افق مارچ میں ۔۔ وسیم بن اشرف دنیا نیوز ملتان

Image

واٹس ایپ کی سرجری۔۔معلومات ہی معلومات

Image
  واٹس ایپ ڈیلیٹ پیغامات دوبارہ پڑھنا کیسے ممکن؟ واٹس ایپ نے گزشتہ سال نومبر کے آغاز میں صارفین کا بڑا مطالبہ اس وقت پورا کردیا تھا جب کمپنی نے غلطی سے بھیجے جانے والے پیغامات کو ڈیلیٹ کرنے کا فیچر متعارف کرایا۔اینڈرائیڈ، آئی فون اور ونڈوز فونز استعمال کرنے والے صارفین اس فیچر کے ذریعے کسی بھی پیغام کو سات منٹ کے اندر ڈیلیٹ کرسکتے ہیں۔تاہم اب واٹس ایپ میں ایک خامی سامنے آئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فیچر اتنا بھی کارآمد نہیں خصوصاً اس وقت اگر گروپ چیٹ میں کوئی شخص آپ کے ڈیلیٹ کیے جانے والے پیغام پر ریپلائی کا آپشن اختیار کرچکا ہو۔جی ہاں اگر گروپ چیٹ کے دوران کسی ڈیلیٹ کیے جانے والے میسج پر ریپلائی کردیا جائے تو وہ ڈیلیٹ ہوکر بھی دوسروں کو نظر آجاتا ہے۔انفرادی چیٹ پر بھی یہی نتیجہ دیکھنے میں آتا ہے، جس سے لگتا ہے کہ یہ کوئی بگ نہیں بلکہ فیچر ہی ہے، تاہم اس حوالے سے واٹس ایپ نے ابھی کچھ نہیں کہا۔ایسا اس وقت ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے جب آپ ایسے افراد سے چیٹ کرتے ہوں جو ریپلائی کرنے کے عادی ہوں ۔ایک ویب سائٹ دی نیکسٹ ویب نے اس بات کی نشاندہی کی، جس کی تصویر آپ نیچے ...

اردو ناول کا ارتقا

Image
  اردو ادب ہر دور میں نشیب و فراز سے گذرتا رہا ہے ۔ لیکن ہر دور میں شاعروں اور دیبوں نے اس کے لیے نت نئی راہیں ہموار کی ہیں ۔ شاعروں او ر ادیبوں نے اپنی ان تھک کاوشوں سے اردو ادب کو مختلف اصناف سے آراستہ کیا۔اردو ادب میں ناول کی صنف بھی ان ہی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔ ناول اطالوی زبان کے لفظ Novellaسے نکلا ہے ۔مختلف ناقدین نے ناول کی تعریف مختلف انداز میں کی ہے ۔ رابن سن کر و سو کے غیر فانی مصنف ڈینیل ڈنو نے اس فن کی بنیاد ڈالتے ہوئے دو چیزوں کا خاص طور سے لحاظ کیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ قصیدہ گو کو حقیقت نگار ہوگا ہونا چاہئے۔ دوسرایہ کہ اس سے کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر قصہ حقیقت پر مبنی نہ ہو گا تو جھوٹا ہوگا۔ اور اپنی تصنیف کے ذریعے مصنف جھوٹ بولنے کا عادی ہو جائے گا ۔ وہ کہتا ہے کہ: ’’ قصہ بنا کر پیش کر نا بہت ہی بڑا جرم ہے۔ یہ اس طرح کی دروغ پر مبنی ہے ۔ جو دل میں ایک بہت بڑا سراخ کر دیتی ہے جس کے ذریعے جھوٹ آہستہ آہستہ داخل ہو کر ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔‘‘ فیلڈنگ جو انگریزی ناول کے عناصر اربعہ میں سے ہیں اس فن کی تعریف میں یو ں رقم طراز ...